کوہ دماوند، جس کا ذکر اس مضمون میں آیا ہے، بحیرۂ قزوین (Caspian Sea)، جسے بحیرۂ خزر بھی کہا جاتا ہے، کے جنوبی ساحل کے قریب تہران سے ۶۶؍ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ مازندران میں واقع ہے اور سیاحت کا اہم مرکز ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کوہ دماوند کا حوالہ دیا ہے۔
اس سے قبل کہ قدیم ایران کی ایک ولولہ انگیز لوک کہانی، جو آج بھی ایران کے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے، آپ کو سنائی جائے، چند باتیں عرض ہیں کیونکہ کہانی سے پہلے کہانی کا پس منظر ضروری ہے:
ہم ا یسے دور میں ہیں جب پرانی لفظیات، جملے، فقرے، محاورے، کہاوتیں اور ضرب الامثال سب نہ جانے کہاں کھوگئے۔ نئی لفظیات کی ایسی آندھی چلی ہے کہ پرانی لفظیات اور جملے عنقا ہوگئے ہیں ۔ اس مضمون نگار نے اپنے بچپن میں کسی ایسے شخص کے بارے میں ، جو بہت باتونی ہو، بڑوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’یہ تو جب دیکھو ایران توران کی ہانکنے لگتا ہے۔‘‘
ایران کو سب جانتے ہیں مگر توران؟ اب ملک ِ توران کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ وقت سب پر مہربان نہیں ہوتا۔ یہ بہت سوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے، قوموں کو نیست و نابود کردیتا ہے، اُن کی جگہ نئی قوموں کو آباد کردیتا ہے، حکومتیں بدل جاتی ہیں اور نقشے پرانے ہوکر نئے نقشوں میں ڈھل جاتے ہیں ۔ توران کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ روئے زمین پر اب اس نام کا کوئی ملک نہیں ہے البتہ اس کی تاریخ کو موجودہ ازبیکستان، ترکمانستان، قزاخستان، تاجکستان اور کرغیزستان کی قدیم تاریخ میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو سابق سوویت یونین کا حصہ تھے اور اب آزاد ملک ہیں ۔ البتہ شمال مشرقی سائبیریا میں ایک پہاڑی سلسلہ ’’توران رینج‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ، توران نام کا ایک گاؤں آذربائیجان میں آج بھی ہے۔ قدیم تورانی سلطنت کی اتنی ہی باقیات کا سراغ ملتا ہے۔
مگر ایک دور تھا جب توران ایران کا پڑوسی تھا۔ جسے فارس یا پرشیا اور اب ایران کہتے ہیں دل پزیر مظاہر فطرت، غیر معمولی حسن، فلک بوس پہاڑوں اور زرخیز زمینوں کا خطہ تھا۔ یہا ں کی حکومت کافی مستحکم تھی، عوام خوشحال اور اپنی حکومت سے مطمئن تھے۔ ایک وقت ایسا آیا جب توران نے اس کے خلاف جنگ چھیڑ دی جو کئی سال جاری رہنے کے باوجود بے نتیجہ رہی۔ تورانی حکمراں افراسیاب نہایت جارح اور بے رحم تھا۔ اُس کی فوج ایرانی حدود میں داخل ہوتی جارہی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ایرانی عوام کا جذبہ، عزم اور حوصلہ توڑ دیا جائے، اُنہیں جھکنے پر مجبور کیا جائے اور اُن کے ملک پر قبضہ کرلیا جائے۔ دشمن فوج کے پے در پے حملوں سے پریشان ہوکر فارس کے حکمراں منوچہر نے اپنے عوام سے مشاورت کی جن کا بیک زبان کہنا تھا کہ حالات چاہے جو ہوں ، ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئے۔ اس گفتگو کے دوران چند بزرگ شہریوں نے ایک پیشین گوئی یاد دِلائی جو وہ بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ اس قوم میں ایک جانباز اور مشاق تیر انداز پیدا ہوگا جو کوہِ دماوند (اس پر بعد میں گفتگو ہوگی) کی سب سے اونچی چوٹی سے تیر چلائیگا۔ اُس کا تیر جہاں جاکر گرے گا وہاں تک کا علاقہ فارس کی ملکیت ہوگا جس پر کوئی قابض نہیں ہوگا۔ پوری سلطنت میں اعلان کیا گیا تاکہ پتہ لگایا جائے کہ وہ تیر انداز کون ہے جو جان پر کھیل کر دماوندؔ کی سب سے اونچی چوٹی سے تیر چلائے۔
سلطنت کے ایک سیدھے سادے نوجوان جس کا نام آرش تھا کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بلا کا تیر انداز ہے، اُس کا چلایا ہوا تیر ہوا سے باتیں کرتا ہوا اِتنی دور پہنچتا ہے کہ نگاہیں اُس کا تعاقب نہیں کرپاتیں ۔ لوگوں نے آر ش سے کہا کہ اُسے وطن کی حفاظت کیلئے اپنا جوہر دکھانا پڑیگا۔ پیشین گوئی میں کہا گیا تھا کہ فارس کا تیر انداز جب تیر چلائے گا تو وہ محض تیر اندازی کا کمال نہیں دکھائے گا بلکہ پوری قوم ِ فارس کی اجتماعی قوت میں اپنی قوت ملا کر تیر چلائے گا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب تو ہوگامگر اُس کی جان نہیں بچے گی۔
آرش یہ جانتا تھا مگر بات وطن کی تھی، اُس نے ہامی بھرلی اور سفر پر روانہ ہوگیا۔ کوہ ِ دماوند پر چڑھنا آسان نہیں تھا۔ راہ میں ہزار خطرات تھے۔ گھنے جنگل سے گزرنا تھا، سخت پہاڑی آب و ہوا سے لوہا لینا تھا، حیوانات سے مقابلہ کرنا تھا مگر آرش پر وطن کو بچانے کی دھن سوار ہوچکی تھی۔ کافی عرصے بعد وہ کوہ ِ دماوند کی چوٹی پر پہنچا۔ ایک رات وہ آگ جلا کر ہاتھ تاپنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایک آواز آئی: آرش وطن کو بچانے کی ذمہ داری تمہارے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ تم خوش قسمت ہو مگر یاد رکھو کہ جیسے ہی تیر کمان سے نکلے گا، جسم سے تمہاری جان بھی نکل جائیگی، کیا تمہیں منظور ہے؟
آرش نے جواب دیا: ’’اگر میرے ملک اور عوام کی آزادی کی قیمت میری جان ہے تو مجھے منظور ہے۔‘‘
دوسرے دن اُس نے مورچہ سنبھالا، کمان اُٹھائی اور تیر کو سیدھا کیا۔ اس وقت وہ تنہا نہیں تھا۔ پہاڑ کے نیچے کافی لوگ جمع تھے۔ اپنی پوری قوت کے ساتھ، جس میں قوم کی قوت سما گئی تھی، آرش نے تیر فضا میں چھوڑ دیا۔ آرش کا برق رفتار تیر ایک کے بعد دوسرے پہاڑ کی چوٹیوں سے گزرتا ہوا دور، بہت دور، نگاہوں کی رسائی سے بھی بہت آگے، زمین پر گرا تو پورا فارس خوشی سے جھوم اُٹھا مگر یہ عظیم جشن منانے کیلئے آرش اس دُنیا میں نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھئے : ضعیف العمری پنشن میں اضافہ
صاحبو، حالیہ جنگ میں اسرائیل اس لئے رُسوا ہوا کہ اس نے ایران پر حملے سے پہلے اس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، اسے علم نہیں تھا کہ فارس کیا ہے اور کس طرح اس کے ایک ایک فرد میں آرش جیسی حب الوطنی، جوش اور جذبہ ہے۔ اس ملک میں آرش کی کہانی آج بھی سنی اور سنائی جاتی ہے۔ تہران ٹائمس کی ایک خبر کے مطابق تہران میونسپلٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ عنقریب اپنے شہریوں کو اُن مقامات پر لے جانے کا اہتمام کریگی جو اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوئے۔ اس دوران ایرانی لوک کہانیاں سنائی جائینگی بالخصوص آرش کی کہانی جس میں جانثاری اور مزاحمت کا پیغام پوشیدہ ہے۔یہ کہانی آج بھی اہل فارس کو حوصلہ اور اولو العزمی عطا کرتی ہے۔
اب آئیے کوہِ دماوند کی طرف۔ جن قارئین نے قرۃ العین حیدر کو پڑھا ہے اُنہیں علم ہوگا کہ عینی آپا کی ایک کتاب اس نام سے ہے۔ اقبالؔ بھی اپنی شاعری میں کوہِ دماوند کا ذکر کرچکے ہیں :
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
لوک کہانیوں کی کوئی حقیقت نہیں مگر زندہ قومیں ان سے جرأت و بہادری اور عزم و حوصلہ کا درس لیتی ہیں ، اس سے انکار ممکن نہیں ۔