• Wed, 10 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلم نمائندگی اور’نانمائندگی‘ کے نتائج

Updated: December 09, 2025, 1:55 PM IST | Sohail Waheed | mumbai

کیا یہ ضروری ہے کہ کسی سرکار میں مسلم وزیر ہوں؟ ایسی کوئی شرط تو نہیں ہے لیکن یہ ایک صحت مند جمہوریت کے لئے خوش کن علامت مانی جاتی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے سبھی کی مناسب نمائندگی سرکار کے چہرے پر نظر آئے۔کیا ایسا ہوتا ہے،کیا ایسا ہورہا ہے؟ اسباب کیا ہیں؟

INN
آئی این این
بہار میں  حال میں  جب نتیش کمار کی سرکار بنی تو اس میں  زماں  خاں  کو بھی کابینی وزیر کی حیثیت سے شامل کیا گیا جو بہار کے واحد مسلم وزیر ہیں ۔ زماں  خاں  پچھلی نتیش سرکار میں  بھی وزیر تھے، انہیں  اقلیتی امور کا وزیر بنایا گیا۔ اس سے قریب بیس دن پہلے تلنگانہ میں  محمد اظہرالدین کو وزیر کی حیثیت سے حلف دلاکر اقلیتی امور کا وزیر بنا دیا گیا۔ تلنگانہ کے بعد کرناٹک میں  بھی کانگریس سرکار ہے اور وہاں  دو مسلم وزیر ہیں ۔ کیرل میں  کمیونسٹ پارٹی والی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کی سرکار میں  بھی دو مسلم وزیر ہیں ، جن میں  سے ایک محمد ریاض کے پاس محکمۂ تعمیرات عامہ جیسی اہم ذمہ داری ہے۔
مغربی بنگال میں  چار کابینی اور تین وزرائے مملکت ہیں ۔ ان میں  سب سے خاص بات یہ ہے کہ چاروں  کابینی وزراء کے پاس  اہم محکمے ہیں  مثلاً شہری ترقیاتی، تعلیم اور توانائی۔ تین وزراء مملکت کے پاس بھی آبپاشی جیسے اچھے محکمے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقلیتی ترقیاتی امور کا محکمہ وزیر اعلیٰ ممتابنرجی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ جبکہ یوپی، بہار اور تلنگانہ کے ایک ایک وزیر کے پاس محض یہی محکمہ ہے لہٰذا یہ کہا جائے تو غلط نہیں  کہ اسی محکمے کیلئے انہیں  وزیر بنایا گیا۔ یوپی میں  اقلیتی امور کے  وزیر مملکت دانش انصاری ہیں  جبکہ کابینی  وزیر کاقلمدان اوم پرکاش راج بھر کے پاس ہے۔بہار، یوپی، تلنگانہ میں  ایک ایک، مغربی بنگال میں  سات، کرناٹک میں  دو اور کیرل میں  دو مسلم وزراء ہیں ۔ مجموعی طور پر اب پورے ملک میں  مختلف ریاستوں  کےیہی ۱۴؍ وزراء ملک کی قریب ۲۰؍ کروڑ پانچ لاکھ کی مسلم آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں  کیونکہ مرکزی سرکار بنا کسی مسلم وزیر کے بڑی آسانی سے چل رہی ہے۔ نہ مسلمانوں  کو اس سے کوئی فرق پڑ رہا ہے اور نہ سرکار کو۔ ہندوستان مسلم آبادی کے لحاظ سے دنیا میں  تیسرے نمبر کا ملک ہے۔ مسلمانوں  کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں  میں  نا نمائندگی سے کیا مسلمان پریشان ہیں  یا ان میں  کسی قسم کی بےچینی ہے، اس کے شواہد ڈھونڈنا ذرا مشکل ہے۔ اردو اکادمیاں ، دوسرے اقلیتی ادارے، انسانی حقوق کمیشن، تعلیمی بورڈ اور دیگر سرکاری اداروں ، جن سے اقلیتی مسائل وابستہ ہوتے ہیں ، ان میں  نامزدگی وغیرہ کے بارے میں  بھی کہیں  کوئی آواز نہیں  اٹھتی۔
بہار میں  زماں  خان نے جب وزیر کی حیثیت سے حلف لیا تو سوشل میڈیا میں  مسلم ردّ عمل ذرا ٹھنڈا سا تھا، کچھ اس قسم کا کہ جیسے چلو ٹھیک ہے، ایک ہی وزیر سہی، وزیر تو بنا اپنا آدمی۔ مشہور کرکٹر محمد اظہرالدین کو تلنگانہ میں  وزیر کے عہدے کا حلف دلایا گیا تو سوشل میڈیا میں  مسلم دانشوروں  نے قدرے سکون کا اظہار کیا کہ جیسے کانگریس سے کوئی غلطی مسلسل سرزد ہو رہی تھی جس کا ازالہ کر لیا گیا۔ لیکن مرکزی وزارت میں  مسلمانوں  کی نمائندگی کیلئے کوئی تحریک چلائی گئی، یا سوشل میڈیا پر ہی کوئی ٹرینڈ چلایا گیا ہو، ایسا شاید نہیں  ہوا۔
کیا یہ ضروری ہے کہ کسی سرکار میں  مسلم وزیر ہوں ، ایسی کوئی شرط تو نہیں  ہے۔ لیکن یہ ایک صحت مند جمہوریت کے لیے خوش کن علامت مانی جاتی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے سبھی کی مناسب نمائندگی سرکار کے چہرے پر نظر آئے تاکہ سماج کے ہر طبقے کو وہ سرکار اپنی سرکار محسوس ہو اور اس پر اس کا بھروسہ بھی قائم رہے۔ لیکن یہ تو نظریاتی یا اصولی بات ہے۔ اصل معاملہ تو سرکار میں  حصہ داری کا ہوتا ہے جوگزشتہ قریب ڈیڑھ دہائی سے ہندوستان کے مسلمان بتدریج کھوتے جا رہے ہیں  اور اس کا اظہار بھی کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے، اس پر بات بھی نہیں  ہو رہی ہے کیونکہ ابھی تک ہندوستانی مسلمانوں  نے اس موضوع پر بحث مباحثے کو دعوت ہی نہیں  دی کہ مرکزی وزارت میں  مسلم وزیر ہونا چاہئے۔ بھلے ہی برسرِ اقتدار پارٹی کا کوئی مسلم پارلیمانی رکن جیت کر آیا ہو یا نہیں ۔
ایسا اس لئے ہے کیونکہ آزادی کے بعد سے ابھی تک مرکز کی سرکاروں  میں  جتنے بھی مسلم وزراء رہے ہیں ، ان کی سیاسی اور سماجی خدمات پر بات ہونے کی روایت ہی نہیں  پنپ پائی ہے۔ محسنہ قدوائی نے مرکزی وزارت میں  بطور شہری ترقیاتی وزیر کے کیا خدمات انجام دیں ، اس کا کوئی احاطہ نہیں  کیا گیا اور نہ کوئی تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ شاہ بانو قضیہ میں  سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ’مسلم خواتین (طلاق کے حقوق کا تحفظ) قانون ۱۹۸۶ء کو بنوانے میں  اس وقت کے مرکزی وزیرضیاء الرحمٰن انصاری نے بے حد اہم کردار ادا کیا تھا۔ضیاء الرحمٰن انصاری کی بطور مرکزی وزیر کیا خدمات رہیں ، کبھی اس موضوع پر کوئی سمینار یا جلسہ کیا گیا؟ شاید نہیں ۔ کشمیر کے علاوہ ہندوستان کی پانچ ریاستوں ، آسام، بہار، مہاراشٹر، کیرل اور راجستھان کے وزیراعلیٰ مسلمان رہے، کتنے لوگوں  کو یہ بات یاد ہے اور کیا کبھی ان کی سیاسی اور سماجی خدمات کی بات ہوتی ہے؟ سی کے جعفر شریف جب ریلوے کے وزیر تھے تو انہوں  نے اپنی کانگریس پارٹی کی سخت مخالفت جھیلتے ہوئے ریلوے میں  اقلیتوں  کے بارے میں  کئی فیصلے کئے۔ لیکن مسلمان ان کی بھی خدمات پر بات نہیں  کرتے ہیں ۔ مثالیں  اور بھی ہیں  اور باتیں  اور بھی ہیں  اس معاملے پر لیکن یہاں  پر بات صرف اتنی سی ہے کہ آج مرکزی وزارت میں  مسلم نمائندگی اسی لئے نہیں  ہے کہ مسلمان اس کی اہمیت اور افادیت شایدنہیں  جانتے سمجھتے کہ وزارت میں  نمائندگی ہونے اور نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ہندوستان میں  مسلمانوں  کی سیاسی تاریخ نہیں  لکھی جاتی، کوئی سیاسی ادب تخلیق نہیں  کیا جا رہا ہے اور نہ گزشتہ ستر بہتر برسوں  کا لکھا گیا ہے۔ بات ہوتی بھی ہے تو سر سید سے شروع ہوکر ابوالکلام آزاد اور ذاکر حسین پر ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن خدمات دوسرے اکابرین کی بھی  ہیں ، ان کے بارے میں  مسلسل بات ہو، ان پر جلسے کئے جائیں  اور ان کی خدمات کو برسرِعام کیا جائے تو سمجھ میں  آئے کہ مرکزی وزارت میں  مسلم وزیر ہونا کیوں  ضروری ہے۔ ان ریاستوں  میں  بھی مسلم وزیر ہونا ضروری ہے جہاں  کی برسرِاقتدار پارٹی کے مسلم رکن الیکشن جیت کر نہیں  آتے۔ یہ سیاسی شعور اور بصیرت تبھی آسکتی ہے جب ماضی قریب کے سیاسی رہنماؤں  کی خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ ورنہ مستقبل قریب میں  مناسب نمائندگی کے بغیر سرکاریں  بنانے اور چلانے کی روایت پختہ ہوتی جائے گی اور مسلمان اسی میں  عافیت سمجھیں  گے کہ چلو چھ ریاستوں  کے ۱۴؍ مسلم وزراء تو اپنے ابھی بھی ہیں ۔ جمہوریت میں  کبھی بھی کسی کو بھی اور کہیں  بھی اپنی ہار تسلیم نہیں  کرنا چاہئے، یہ کسی طرح مناسب نہیں ۔ جمہوری طور طریقوں  سے اپنی بات رکھنے اور اپنے مطالبات کو منوانے کے حق کا استعمال کرنے کی آزادی بھی جمہوریت ہی دیتی ہے۔
bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK