• Fri, 03 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا تعجب خیز نہیں ہے کہ ۲۰۰۸ء میں سونا ۱۲؍ہزار روپے فی تولہ تھا؟

Updated: October 03, 2025, 5:34 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

سونے کی قیمت: ۲۰۰۰ء تا ۲۰۲۰ء ۴۶؍ ہزار جبکہ گزشتہ چار سال میں ۶۲؍ ہزار روپے کا ہوشربا اضافہ-

Gold Ornaments.Photo:INN
سونے کے زیورات۔ تصویر: آئی این این

بزرگ کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھتا ہے لہٰذا اسی کوشش کے تحت راقم نے بھی روزنامہ انقلاب میں اپنا ماضی دیکھنے کی کوشش کی۔ اخبارات کی پرانی فائلز کا جائزہ لینے کے دوران ۲۰۰۸ء انقلاب کے صفحہ ۳ ( ممبئی و اطراف) کی ایک خبر پر نظر پڑی، جس کی رپورٹنگ راقم ہی نے کی تھی۔ یہ خبر سونے کی قیمت کے تعلق سے تھی۔ سرخی پر نظر پڑتے ہی چونک گیا کیونکہ سونے جیسی قیمتی دھات کی اس وقت کی قیمت اور آج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
 ۲۹؍جنوری ۲۰۰۸ءمیں شائع ہونے والی اس خبر کی سرخی یوں تھی: ’’سونے کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ،  ۱۱۸۴۰؍روپے فی تولہ۔ ‘‘ اور آج اس کی قیمت ایک لاکھ ۱۷؍ہزار۳۰۰؍روپے (تادم تحریر) ہے۔ ان ۱۷؍ برسوں میں سونے کی قیمت میں تقریباً ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہواہے۔ خیال رہے کہ یہ۲۴؍ قیراط سونے کے دام کی بات ہورہی ہے۔ 
عام لوگوں کا خیال ہے کہ سونے کے دام دیوالی کے وقت بڑھتے ہیں کیونکہ اس وقت خریداری زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ خیال کرتے ہیں کہ شادی کے سیزن میں بھی سونے کے دام بڑھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ماہرین ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ سونے میں سرمایہ کاری کی وجہ سے اس کے دام اوپر جاتے ہیں۔ وہ سونے کو سرمایہ کاری کا محفوظ ترین اثاثہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں رقم کے ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ 
متجسس طبیعت نے ۲۰۰۰ء کی قیمت جاننے پر مائل کیا۔ معلوم ہوا کہ اس سال فی تولہ سونے کی قیمت  ۴۴۰۰؍ روپے تھی۔ ۲۰۰۵ء میں یہ ۷۶۰۰؍ روپے ہوئی، اور ۵؍ سال بعد یعنی ۲۰۱۰ء میں اس نے ۲۰؍ ہزار کا ہندسہ پار کرلیا۔ اس سال قیمت تھی ۲۰۷۰۰؍ روپے فی تولہ۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۰ء کے درمیان اس کے دام میں ۱۶؍ہزار روپے تک کا اضافہ ہوا۔ ۲۰۱۵ء میں فی تولہ سونے کا دام ۲۴۹۰۰؍ روپے تھا۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان اس میں زبردست اچھال آیا۔ وبائی حالات کے دوران اس کے دام۵۰۵۰۰؍ روپے ۱۰؍گرام تک پہنچ گئے، یعنی اس دہائی میں سونے کے دام میں ۲۵؍سے ۲۶؍ ہزار روپے کا اچھال آیا۔ لاک ڈاؤن میں سرمایہ کاروں کیلئے سونا محفوظ ترین شے تھی۔ واضح رہے کہ کووڈ ۱۹؍ سے قبل اس کا دام ۳۹۱۰۸؍ روپے تھا۔  ۲۰۲۱ء میں اس کی قیمت میں معمولی گراوٹ آئی لیکن پھر اس نے کسی ایتھلیٹ کی طرح رفتار پکڑ لی۔ 
سونے کی قیمت گزشتہ ۴؍ سال میں ۶۰؍ ہزار روپے فی تولہ تک بڑھی ہے۔ ۲۰۲۱ء میں سونے کا دام ۴۸؍ہزار روپے تھا۔ ۲۰۲۲ء میں یہ ۵۵؍ہزار تک پہنچا۔ ۲۰۲۳ء میں اس کی قیمت ۶۳؍ہزار روپے ہوئی۔۲۰۲۴ء میں اس نے ۱۵؍ہزار روپے کا اضافہ درج کیا اور ۷۸؍ہزار کا نشان پا ر کرلیا۔ ۲۰۲۵ء کے آغاز میں یہ ۸۵؍ہزار فی تولہ تک تھا اور اب اکتوبر کے آغاز میں یہ ایک لاکھ ۱۷؍ہزار روپے تک پہنچ گیاہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ سونے کا دام ریکارڈ بلندی پر پہنچ رہ اہے۔ 
اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ  گزشتہ ۴؍ سال میں سونے کی قیمت میں ۶۲؍ہزار روپے کا اضافہ ہواہے۔ اس طرح قیمت میں اضافہ کا سالانہ اوسط ۱۵۵۰۰؍ روپے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۲۰ء تک، یعنی ۲؍دہائی میں ۴۶؍ہزار روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ لیکن گزشتہ ۴؍ سال میں ۶۲؍ ہزار روپے بڑھے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی اہم ترین وجہ اس قیمتی دھات میں مسلسل سرمایہ کاری ہے۔ 
عام طورپر سرمایہ کار ریئل اسٹیٹ، ڈالرس اور تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔لیکن یہ تمام چیزیں غیرمحفوظ قرار دی جاتی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کے دام گرتے ہیں، ڈالرس کی قدر بھی ترقی اور تنزلی کا شکار رہتی ہے اور تیل کے داموں کا انحصار جنگوں پر ہوتا ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال میں جیو پولیٹیکل تنازعات بڑھے ہیں، جن میں روس یوکرین جنگ، اسرائیل حماس جنگ، ایران اسرائیل تنازع، یمن سعودی کی جھڑپیں، شام اور افغانستان میں حکومت کی تبدیلی اور ہندوستان پاکستان کے درمیان تنازع قابل ذکر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی وجہ سے تیل کے دام میں استحکام نہیں ہے۔ اس لئے سرمایہ کار ان چیزوں میں سرمایہ کاری کا جوکھم نہیں لینا چاہتے اور سونے کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ 
حال ہی میں تحقیق پر نظر پڑی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیوالی تک سونے کے دام ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار روپے تک پہنچیں گے۔ دوسری طرف چاندی کے دام بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ دھات بھی ایک لاکھ روپے کا نشانہ پار کرچکی ہے کیونکہ سرمایہ کار اس میں بھی پیسہ لگا رہے ہیں۔ یہ منظر نامہ صرف ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔ ان دونوں دھاتوں میں سرمایہ کاری بڑھتی جارہی ہے،جس سے ان کی قیمتوں میں بھی دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK