ہم اُردو کے شیدائی ہیں اور اس زبان کی ترقی کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں مگر ’’سب کچھ کر رہے ہیں‘‘ میں کسی زبان کا حق مارنا یا جگہ چھیننا شامل نہیں ہے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ مراٹھی، ہندی، انگریزی.... وغیرہ میڈیم کے اسکولوں میں اُردو پڑھانے والے اساتذہ مقرر ہوں۔
ہر زبان ہمیں پیاری ہے چاہے وہ بھارتی زبان ہو یا کسی دوسرے دیس کی۔ ہاں بھارت میں بولی جانے والی زبان زیادہ پیاری ہے اسی لئے ہم اس تنازع کے حق میں ہیں جو اُردو اور ہندی کے بارے میں کھڑا کیا گیا تھا نہ اس تنازع کے حق میں جو ہندی اور ہندی مخالفت کے نام پر تمل ناڈو میں کھڑا کیا گیا تھا۔ ہمیں ہندی اور مراٹھی کے بارے میں تشدد بھی پسند نہیں ۔ ہمیں مراٹھی بولنے پر قدرت نہیں مگر ہم اس زبان سے بھی محبت کرتے ہیں ۔ ہندی ملک کی اور مراٹھی ریاست مہاراشٹر کی سرکاری زبان ہے، اس حیثیت سے بھی یہ دونوں زبانیں احترام کی مستحق ہیں ۔ مہاراشٹر میں مراٹھی زبان اولیت ہوسکتی ہے مگر اس اولیت کی بنیاد پر کسی کی پٹائی کسی طرح بھی جائز نہیں کہی جاسکتی۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی قومی، ریاستی، مقامی یا مادری زبان کی جگہ طے کی گئی ہے۔ الزام ہے کہ وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس نے ہندی پڑھائے جانے کا سرکیولر واپس لے کر اچھا پیغام نہیں دیا ہے۔ یہ الزام صحیح ہو یا نہ ہو مگر یہ سوال تو کھڑا ہو ہی گیا ہے کہ کیا قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ مہاراشٹر میں اچھا معاملہ ہوا ہے؟ پھر یہ سوال بھی ہے کہ یہاں یعنی مہاراشٹر میں اول تا دسویں انگریزی ایک لازمی مضمون ہے جس کی کوئی مخالفت نہیں ہے البتہ ہندی کے خلاف پر تشدد احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔
ہم اُردو کے شیدائی ہیں اور اس زبان کی ترقی کے لئے سب کچھ کر رہے ہیں مگر ’’سب کچھ کر رہے ہیں ‘‘ میں کسی زبان کا حق مارنا یا جگہ چھیننا شامل نہیں ہے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ مراٹھی، ہندی، انگریزی.... وغیرہ میڈیم کے اسکولوں میں اُردو پڑھانے والے اساتذہ مقرر ہوں ۔ یہ بھی خواہش ہے کہ اُردو پڑھانے والے اچھے اساتذہ اس طرح اپنے طلباء کو پڑھائیں کہ اس زبان، ادب اور تہذیب کا جادو سب کے سر چڑھ کے بولے۔ یہ خواہش شاید اس لئے ہے کہ اُردو کے اچھے اساتذہ، اچھے شعراء ادباء اور اچھے اخبار نویس یا صحافی معدوم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہماری یہ بات شاید کسی کو اچھی نہ لگے مگر ہے سچ کہ اُردو کیلئے ایک مسئلہ خود اس کے کچھ چاہنے والے بھی ہیں ۔ ان کا شین قاف درست نہیں ہے مگر دعویٰ ہے کہ ہم دانشور ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اُردو کو اس وقت تین سطح پر اپنی بقاء کی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ (الف) انتظامیہ میں (ب) خود اُردو کے نام پر یا اس کی ترقی کے لئے قائم کئے گئے اداروں اور شعبوں میں اور (۵) اُردو داں حلقوں اور گھرانوں میں ۔ ہماری زبان اور تہذیب دیکھ کر کافی لوگ اپنی اصلاح کیا کرتے تھے مگر اب دوسروں میں بھی بگاڑ ہماری وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
انتظامیہ کا رویہ ہماری زبان و اداروں کے لئے صحیح رہ گیا ہے نہ طلباء کا معیار تعلیم نہ اُردو کے نمائندوں کا طرز عمل۔ ایک چائے، چند روپے اور کچھ مراعات کے لئے بکنے والے پیغام دے رہے ہیں کہ اُردو والوں کی غیرت مر گئی ہے۔ زبان مر جائے تو اس کو زندہ کرنے کی تدابیر کی جاسکتی ہیں مگر زندہ اور مقبول زبان بولنے والوں کا ضمیر مر جائے تو زبان اور تہذیب دونوں مر جاتی ہے۔
ہم اس فیصلے کا استقبال کرتے ہیں کہ ممبئی یونیورسٹی میں اویستا، پہلوی، پالی اور پراکرت زبانوں کے تحفظ اور اشاعت کے لئے ایک سینٹر ’سینٹر آف ایکسیلنس ان ہیرٹیج لینگویجز اینڈ ملٹی کلچرل اسٹڈیز‘ قائم ہو رہا ہے مگر کم و بیش تمام دانش کدوں میں اُردو کو جس حال کو پہنچا دیا گیا ہے کیا اس سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے؟ اب تو ہم میں شاید ہی کچھ ایسے لوگ رہ گئے ہوں جو اُردو کی ہندوستانی بنیادوں کو اجاگر کرسکیں ۔ اس حقیقت کو بھی شاید ہی تسلیم کرنے والے رہ گئے ہوں کہ بیشک سنسکرت نے پراکرتوں کو جنم دیا جن سے ہندوستانی زبانیں وجود میں آئیں مگر پراکرتوں سے ہی وجود میں آنے والی ’ہندی‘ اور ’اُردو‘ زبانوں نے اپنے قواعد سنسکرت سے مستعار نہیں لی۔ مستعار لیا ہوتا تو ’چتّر‘ سے چاتوریہ بنتا ’چتورائی‘ نہیں ۔ ’چتورائی‘ ہندی اور اُردو دونوں زبانوں میں مستعمل ہے۔
مہاراشٹر کے وزیر کو غم ہے کہ مراٹھی نہ بولنے کے سبب یہاں جس شخص کی پٹائی ہوئی وہ ایک خاص مذہب کا یا ان کا ہم مذہب تھا۔ انہیں شاید علم نہیں کہ زبانوں کا تعلق مذاہب سے نہیں ، معاشرے سے ہوتا ہے۔ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ ایک خاص زبان نہ بولنے کے سبب معاشرے کے ایک شخص کے ساتھ جبر کیا گیا۔ یہ اس کے بنیادی حق اور ہندوستانیت کے مزاج کے خلاف ہے۔ ہندوستانیت قومی راج بھاشا اور ریاستی راج بھاشا کے احترام کے باوجود جو بھاشا یا زبان نہ آتی ہو اس کو بولنے پر مجبور نہیں کرتی۔ اگر مراٹھی کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی ہے تو ہم اس میں بھی شامل ہوں گے ہم مراٹھی کے نام پر سیاست یا جبر یا تشدد کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ جو جبر و تشدد کر رہے ہیں جو سمجھ لیں کہ ایم این ایس نے پچھلے اسمبلی الیکشن میں ۱۲۵؍ امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں جیتا کوئی نہیں ، ۱ء۸؍ فیصد ووٹ ملے جو اس کی قانونی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے بھی کافی نہیں ہے۔ شیوسینا بھی یاد کر لے کہ ۶۰ء اور ۷۰ء کے دہے میں جب وہ زبان کی سیاست کر رہی تھی تب اس کو انتخابات میں کامیابی نہیں ملی تھی لیکن جب اس نے علاقائیت کے بجائے ’ہندوتوا‘ کا نعرہ دیا تو بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ تنہا اس کو برسراقتدار آنا ہے تو ہر طبقے، ہر زبان بولنے اور ہر مذہب کے ماننے والے کو ساتھ لینا ہوگا۔ خود بی جے پی بھی اس وقت برسراقتدار آئی تھی جب اٹل بہاری باجپائی نے اس کو وسیع تر بنیادوں پر مستحکم کیا تھا یا مودی جی نے جھوٹا ہی صحیح ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے : بہار میں انتخابی اعلانات کی جھڑی؟
ہمیں ہندی، مراٹھی یا کسی زبان سے کوئی بیر ہے نہ ہم ان کی ترقی میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں البتہ ہماری خواہش ہے کہ اُردو کی راہ میں جو روڑے بچھائے گئے ہیں وہ دور ہوں ۔ لیکن اس بات کا بھی احساس ہے کہ جو روڑے خود اُردو والوں نے اٹکائے ہیں وہ تو کسی دوسرے کے دور کرنے سے دور ہونگے نہیں ، انہیں ہمیں ہی دور کرنا ہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ اُردو جیسی خوبصورت، مقبول اور ہر قسم کے مفاہیم کی ترسیل پر قادر زبان پر ایسے نمائشی لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے جنہوں نے اُردو کی مقبولیت کو بٹہ لگا کر اپنی شہرت حاصل کرنے کو مشن بنا رکھا ہے۔ اس کا اثر اُردو کی تقریبات پر ہی نہیں خود اُردو پر بھی پڑا ہے اسلئے عوامی اعتماد و مقبولیت جیتنا اُردو والوں کا پہلا کام ہونا چاہئے۔