• Sun, 14 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حکومت کا ہدف کام کی تکمیل نہیں صرف تشہیر ہے

Updated: December 14, 2025, 1:57 PM IST | Aakar Patel | mumbai

سمجھا یہ جارہاتھاکہ مودی کےدورمیں جب روزگارکے مواقع بڑھیں گے تومنریگا اسکیم خود بخودبے کار اور غیر متعلق ہو کر رہ جائےگی مگر صورتحال اسکے برعکس ہے

INN
آئی این این
امور حکومت سنبھالنا مشکل کام ہے اور انہیں  بحسن و خوبی انجام دینا اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ بہتر نظیر قائم کرنے کے بجائے تشہیر کا سہارا لینا کوئی اچھی تدبیر نہیں  ہے لیکن جب امور حکومت کی بہتر انجام دہی کے ذریعہ بہتر نتائج پیش کرنا بس میں  نہ ہو تو ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے تشہیر سے کام لیا جاتا ہے۔
جب ہوائی جہازوں  کی پروازیں  ٹھپ پڑ جائیں  اور ہوائی اڈوں  پر بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس مسئلہ کا یہی حل باقی رہ جاتا ہے کہ وہ تصویریں  جاری کر دی جائیں  جن میں  ایک ایئر لائن کا سی ای او ہاتھ جوڑے متعلقہ وزیر کے سامنے کھڑا ہے۔ مسئلہ کا یہی حل پیش بھی کیا گیا۔ جب ایک عمارت، جسے تعمیر ہی نہیں  ہونا چاہئے تھا، آتشزدگی کی نذر ہو جاتی ہے تو اسے ڈھا دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی دیگر عمارتیں  اپنی جگہ موجود رہتی ہیں ۔
حل نکالنے کا ایک اور طریقہ نام بدلنے کا ہے۔ نئے ہندوستان میں  اب منریگا کو ’پوجیہ باپو رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ‘ کہا جائیگا۔ اقتدار میں  آنے کے بعد، کم و بیش دس سال پہلے وزیراعظم مودی نے لوک سبھا میں  کہا تھا: ’’منریگا کو صرف اس لئے جاری رکھا جائیگا تاکہ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کا امور حکومت سنبھالنے کا طریقہ کتنا ناقص تھا۔ یہ بات انہوں  نے طنزیہ انداز میں  کہی اور پھر اپوزیشن کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ منریگا جاری رہے گا تاکہ آپ کی ناکامی کی یادگار محفوظ رہے۔ 
دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم مودی اس اسکیم کو فطری طورپر یونہی ختم ہونے دیں  گے کیونکہ ان کی حکومت بہتر ملازمتیں  پیدا کرے گی جس کے سبب منریگاکی ضرورت نہیں  ہوگی۔مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نتن گڈکری نے بھی اشارہ دیا تھاکہ منریگا کو ہندوستان کے ایک تہائی سے بھی کم اضلاع تک محدودکردیاجائے گا اور اس اسکیم کی کشش ختم کرنے کیلئے استفادہ کنند گان کی اجرت کم کی جائے گی اور اس میں  تاخیر بھی ہوگی۔
مفروضہ یہ تھا یا سمجھا یہ جارہاتھاکہ مودی کےدورمیں  جب روزگارکے مواقع بڑھیں  گے تو یہ اسکیم خود بخودبے کار اور غیر متعلق ہو کر رہ جائےگی مگر صورتحال اسکے برعکس ہے۔ دسمبر۲۰۱۴ء تک، سوائے پانچ ریاستوں  کے، باقی سبھی کو۲۰۱۳ء کے مقابلے ۲۰۱۴ء میں  مرکز سےنمایاں  طور پر کم فنڈفراہم کیا گیا۔ بعد ازاں  جیسے جیسے ہندوستان کی معیشت کمزور ہونا شروع ہوئی اور بے روزگاری میں  اضافہ ہوا، مودی حکومت نے اس اسکیم میں  زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا شروع کردیا جسے وہ ناکام قرار دے چکے تھے۔ ۱۵-۲۰۱۴ء میں  منریگا کو۳۲؍ ہزارکروڑ روپے ملے، اگلے سال ۳۷؍ ہزار کروڑ فراہم کئے گئے۔پھر آئندہ سال ۴۸؍ ہزار کروڑ دئیے گئے۔اس کےبعد۵۵؍ہزار کروڑ روپے لگائے گئے۔ ۱۹-۲۰۱۸ء میں ۶۱؍ ہزار کروڑ روپے دئیےگئے۔ ۲۰-۲۰۱۹ء میں  ۷۱؍ ہزار کروڑ روپے فراہم کئے گئےاور ۲۱-۲۰۲۰ء میں  ایک لاکھ ۱۱؍ ہزارکروڑ کی رقم دی گئی ۔ مودی کے دور میں  اس یادگار اسکیم کو جو رقم دی گئی وہ منموہن سنگھ کے دور حکومت سے ۳؍ گنا زیادہ تھی۔ اس کے بعد سےایسے حربے آزمائے گئےکہ منریگا کے بجٹ کو مبہم رکھا گیا اور ریاستوں  کو فنڈتک رسائی نہیں  دی گئی جس سے یہ واضح ہوگیاکہ حکومت اس اسکیم کے تعلق سے کئے جانے والے مطالبات پر شفاف کارروائی سے گریز کررہی ہے۔ اب اس اسکیم کا نام تبدیل کردیاگیا ہے جس سے بلا شبہ سارے مسائل حل ہوجائیں  گے۔
گڈ گورننس کی یہ ہماری تاریخ رہی ہے۔ وہ امور جن کی انجام دہی مشکل تھی اور جن کیلئے منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی ضرورت تھی، ان پرپہلے کام شروع کیاگیااور پھر ترک یا معطل کردیاگیا ۔یہ حقیقت اس وقت بھی واضح تھی جب نمامی گنگا جیسا مقدس منصوبہ زیرعمل تھا جو جون۲۰۱۴ء میں  انتخابی فتح کے فوراً بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس کیلئے ۲۰؍ ہزار کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیاتھا اوراس سے ۲؍ مقاصد متعین کئے گئے تھے ۔پہلا یہ کہ آلودگی کو مؤثر طریقے سے ختم کیاجائے اور دوسرا قومی ندی گنگا کے تحفظ اور بحالی کی راہ نکالی جائے۔حالانکہ گنگا کو اتنی صفائی کی ضرورت نہیں  تھی کیونکہ یہ ندی مسلسل سمندر میں  بہتی تھی ۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ مزید آلودگی اس میں  داخل نہ ہو، یہ ایک مربوط مسئلہ تھا جس کا تعلق سیکڑوں  ان مقامات سے تھاجہاں  سے گندا پانی دریا میں  چھوڑا جا رہا تھا۔ ایک بار جب یہ معلوم ہوا کہ صاف صفائی کیلئے کافی محنت کی ضرورت ہے تو اس منصوبے کیلئے جوش و خروش کم ہو گیا۔
 
فروری۲۰۱۷ء میں ، نیشنل گرین ٹریبونل نے مشاہدہ کیا کہ اب تک دریائے گنگا کے ایک قطرے کو بھی صاف نہیں  کیا گیا ہے اور یہ کہ حکومتی کوششوں  سے صرف عوام کا پیسہ برباد ہورہا ہے ۔ اس کے آئندہ سال ۸۶؍ سالہ ماہر ماحولیات جی ڈی اگروال جو۲۰۱۸ء میں  گنگا کی صفائی کے مطالبہ کیلئے غیر معینہ بھوک ہڑتال پر تھے ، ۱۱۱؍ دن بھوکے پیاسے رہنے کے سبب انتقال کر گئے۔ جی ڈی اگروال کانپو ر میں  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر تھے جنہوں  نے سینٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ میں  بھی خدمات انجام دی تھیں  ۔ وہ گنگا کے تحفظ کیلئے قانون بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اگروال کی موت سے ایک دن پہلےنتن گڈکری (جواس وقت مرکزی وزیر برائے آبی وسائل، دریاؤں  کے فروغ اور گنگا کی بحالی کے وزیر تھے) نے کہا تھا کہ اگروال کے تقریباً سبھی مطالبات پورے ہو چکے ہیں ۔
نمامی گنگے پروجیکٹ کیلئے ۱۷-۲۰۱۶ء میں  ۲۵۰۰؍ کروڑ روپےمختص کئے گئے تھےجو۱۸-۲۰۱۷ء میں  کم ہوکر ۲۳۰۰؍ کروڑ روپے اور پھر۱۹-۲۰۱۸ء ۶۸۷؍ کروڑ روپے رہ گئے۔ اس پروجیکٹ پر۲۰-۲۰۱۹ء میں  صرف۳۷۵؍کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اس سال، پروجیکٹ کو ایک دیگر بڑے پروجیکٹ کے ساتھ جوڑ دیاگیا جسے اب ’جل شکتی‘ کہتے ہیں ۔ جب مارچ۲۰۲۰ء میں  میں  لاک ڈاؤن کی وجہ سے آلودگی پھیلانے والے یونٹس کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا تو مودی حکومت نے دعویٰ کیا کہ گنگا کو صاف کر دیا گیا ہے۔۱۰؍ سال اور پبلسٹی کے ایک بڑے سلسلے کے بعد یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا گنگا صاف ہے ؟ اپوزیشن کہتا ہےکہ نہیں ۔۱۴؍ مئی ۲۰۲۴ء کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک خبر کی سرخی یہ تھی ’’۲۰؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود گنگا ندی آلودہ کیوں  ہوئی: کانگریس نے وزیر اعظم مودی سے سوال‘‘ ۔یہی مسئلہ ہے، دو میعادوں  سے زیادہ مدت تک عہدے پر رہنے کے بعد گڈ گورننس کی بات کرنا۔ ریکارڈ ہمارے سامنے ہے مگر اب بھی کتنے ہندوستانی ہیں جو صرف تشہیرونمائش کے قائل ہیں  اور باورکرانا چاہتے ہیں کہ حکمرانی اب بھی بہتر ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK