• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہم تو دریا تھے، جزیروں میں نہیں رہتے تھے!

Updated: December 13, 2025, 1:54 PM IST | Shahid Latif | mumbai

زندگی اب اتنی خوبصورت نہیں رہ گئی ہے جتنی ہونی چاہئے۔ یہ اس لئے ہے کہ رشتوں کی ڈور کمزور ہو گئی ہے، تعلق سرد پڑ گیا ہے، اپنے ہونے کا احساس کم ہوتا جارہا ہے اور اپنے ہونے کی معنویت پر سوالیہ نشان ہے۔

INN
آئی این این
انیس صفدر، عمر میں   بڑے مگر اپنے بڑے یا سینئر ہونے کا احساس نہ کرانے والے مہربان دوست ہیں  ۔ ہم وطن بھی ہیں   اور طویل عرصہ تک ہم پیشہ بھی رہے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم مذاق بھی ہیں  ۔ جو کچھ سوچتے ہیں   لکھ بھیجتے ہیں  ۔ کبھی کبھی مشورہ بھی دیتے ہیں   کہ فلاں   ویڈیو دیکھ لیجئے یا فلاں   مضمون پڑھ لیجئے۔ ایسی کوئی بھی چیز واقعی کارآمد ہوتی ہے۔ اُن سے فون پر گفتگو کے دوران سوائے لکھنے پڑھنے کے اور کوئی بات نہیں   ہوتی۔ اُنہوں   نے ادب اور صحافت کا ایک دور دیکھا ہے اور جتنا دیکھا سب کا سب اُن کے حافظے میں   محفوظ ہے۔ افسوس کہ انہوں   نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا ورنہ ایک اعلیٰ پایہ کا صحافی ہمارے درمیان ہوتا اور ملت اُس سے استفادہ کررہی ہوتی۔ یہاں   اُن کا تذکرہ اُن کے ایک حالیہ پیغام کے سبب آگیا ہے جس میں   اُنہوں   نے بین السطور یہ پیغام دیا ہے کہ پڑوسیوں   سے بہتر تعلقات کافی نہیں  ، ایسے تعلقات ضروری ہیں   جو خون کے رشتے جیسے ہوجائیں  ۔ اس ضمن میں   اُنہو ں  نے لکھا ( اقتباس):
’’تین برس ہوئے میرا ٹھکانہ پونہ، کونارک پورم، کونڈھوا ہے۔ درجنوں   رو ہاؤسیز اور ٹاور سے لے کر سات منزلہ عمارتوں   تک کی   کہکشاں   اس مختصر ٹاؤن شپ میں   موجود ہے۔ آبادی مسلم، ہندو برہمن، پارسی، مدراسی، گجراتی، مہاراشٹرین لوگوں   پر مشتمل ہے گویا ہر صوبہ اور فرقہ کے لوگ یہاں   رہتے ہیں  ۔ میناکشی راما سوامی میڈم عمر رسیدہ، ریٹائرڈ انگریزی میڈیم ہائی اسکول ٹیچر میری پڑوسن ہیں  ۔ ہماری فیملی صاف ستھرا رہنے اور ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے۔ پڑوسی کے حصے کا کام کرلینے میں   بھی ہمیں   کوئی عار نہیں  ۔ ہمارے نزدیک عملاً اچھا انسان ہونا اسلام کی لازمی شرط ہے۔ شاید اسی خصوصیت کا نتیجہ ہے کہ پونے میں   تنہا رہنے والی خاتون کی نظر میں   اس کے سب سے بڑے رشتہ دار ہم ہیں  ۔ ہماری بہو کا فون نمبر نہ صرف کیرالا میں   اُن کی بیٹی کے پاس ہے بلکہ یو ایس اور یوکے میں   رہنے والے اُن کے نواسے نواسیوں   کے پاس بھی ہے۔ میناکشی میڈم ہزاروں   روپے ہمارے سپرد کر جاتی ہیں   اور اس طرح اعتماد کا برملا اظہار کرتی ہیں  ۔ اکثر کہتی بھی ہیں   کہ پچیس برس میں   مجھے ایسے پڑوسی نہیں   ملے۔‘‘ 
چونکہ یہ احباب کو روانہ کیا گیا ایک طرح کا ذاتی خط ہے اس لئے اپنی فیملی کے تعلق سے ’خود ستائی‘ جیسی جو باتیں   اس میں   آگئی ہیں   دراصل وہ خود ستائی نہیں   ہے۔ ان کے قلمبند کرنے کا مقصد وہ پیغام ہے جس کا اشارہ بالائی سطور میں   کیا گیا۔ یہ خط، جو کئی وہاٹس ایپ گروپس تک بھی پہنچا، اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ملک کی ایک ممتاز اور کیڈر بیسڈ جماعت نے نومبر کے آخری عشرہ میں   ملک گیر سطح پر حقوق ہمسایہ مہم چلائی تھی۔ یہ خط اسی مناسبت سے تھا۔
ہر وہ مہم جو اس نوع کےموضوعات پر چلائی جاتی ہے، دور حاضر میں   بہت ضروری ہے۔ اتحاد ملت کی اہمیت اور ضرورت سے انکار کئے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ آج اتحاد ملت سے زیادہ ضرورت اتحاد افراد کی ہے خواہ وہ رشتے دار ہوں   یا دوست، قریبی پڑوسی ہوں   یا اہل محلہ۔ اتحاد ملت ایک وسیع تر مقصد ہے جس کی تکمیل کا راستہ گھروں   اور محلوں   سے نکلتا ہے۔ گھر متحد رہے گا پھر پڑوسی متحد رہیں   گے، اہل محلہ متحد رہیں   گے اور کئی محلوں   کے لوگ آپس میں   شیر و شکر ہوکر زندگی گزاریں   گے تو اتحاد ملت کی راہ بہت آسانی سے ہموار ہوتی چلی جائیگی۔ مشکل یہ ہے کہ گھر متحد نہیں   ہیں  ۔ گھروں   میں   دیواریں   اُٹھی ہوئی ہیں   جو باہر سے دکھائی نہیں   دیتیں  ۔ رشتہ دار بھی متحد نہیں   ہیں  ۔ ان کے باہمی رشتوں   میں   بھی دراڑیں   ہیں  ۔ وہ گھر اور خاندان جو متحد نہیں   ہے اپنے پڑوسی سے ویسے تعلقات نہیں   رکھ پاتا جیساکہ اُن کا معیار ہونا چاہئے۔جب سے فلیٹ سسٹم کا چلن عام ہوا ہے خاندان سمٹ گئے ہیں   اس لئے رشتوں   کی حرارت کم ہوگئی ہے، برتھ ڈے پارٹیوں  ، شادی بیاہ اور گیٹ ٹو گیدر تک محدود رشتوں   کی یہ حرارت اُن روشنیوں   کی طرح ہے جو کبھی کبھی نظر نواز ہوتی ہیں  ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ (سب نہیں  ) ماسوا سے بیگانہ اپنی ذات میں   گم ہوکر رہ گئے ہیں  ۔ یہی کیفیت گھرو ں  میں   بھی ہے۔ جس وقت سب کے مل بیٹھنے کا ہوتا ہے، بلاشبہ سب مل بیٹھتے ہیں   مگر ہر ایک کی دُنیا الگ ہوتی ہے۔ کوئی انسٹاگرام پر ہوتا ہے کوئی وہاٹس ایپ پر۔ سب کے چہرو ں  کا جائزہ لیجئے تو انکشاف ہوگا کہ کوئی کسی اُلجھن کا شکار دکھائی دے رہا ہے، کوئی مسکرا رہا ہے، کوئی مستغفرق ہے اور کسی کی صرف اُنگلیاں   چل رہی ہیں  ، رک جاتی ہیں   پھر چلنے لگتی ہیں  ۔ 
اسی لئے وہ گھر اچھے لگتے ہیں   جہاں   یہ طے کرلیا گیا ہے کہ جب تمام اہل خانہ ملیں   گے تب ہر ایک کا موبائل سائلنٹ موڈ پر کسی ایک میز پر رکھ دیا جائیگا اور جب تک باہمی گفتگو کا دورانیہ ختم نہیں   ہوگا  کسی کو موبائل پر گفتگو کرنے اور پیغامات پر نظر دوڑانے کی اجازت نہیں   ہوگی۔ یہ مضمون نگار ایک ایسے خاندان سے و اقف ہے جہاں   مل بیٹھنے کے وقت سارے موبائل فون ایک جگہ جمع کردیئے جاتے ہیں   جیسے کسی نے ضبط کرکے ایک طرف  رکھ  دیئے ہوں  ۔ 
یہ کام تربیت چاہتا ہے اور تربیت کا لازمہ یہ ہے کہ جو لوگ نئی نسل کی تربیت کے ذمہ دار ہیں   وہ پہلے اپنی تربیت کریں   یعنی تربیت کے تقاضوں   کو سمجھیں  ۔ تربیت ڈانٹنا ڈپٹنا نہیں   ہے۔ تربیت حکم چلانا نہیں   ہے۔ تربیت نصیحت کرنا بھی نہیں   ہے۔ تربیت دل گدازی پیدا کرنا ہے تاکہ حکم دیئے بغیر تعمیل ہوجائے۔ تربیت حکمت بھی ہے تاکہ یہ احساس رہے کہ کب کیا کہنا ہے۔ تربیت تدبر بھی ہے کہ جو کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے۔ تربیت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس بات کی تمنا دوسروں   سے کی جائے پہلے اُس پر خود عمل کیا جائے۔ موجودہ دور میں   تربیت کے معنی میں   اور بھی کئی چیزیں   شامل ہوگئی ہیں   لہٰذا تربیت کے معنی میں   نفسیاتی گرہیں   کھولنا بھی ہے اور ذہنی مسائل، اگر ہیں   تو، اُن کے اسباب کو سمجھنا بھی ہے۔
فرد سے سماج بنتا ہے مگر فرد اور سماج کے درمیان گھر ہے، ہمسائے ہیں   اور محلہ ہے۔ اس کے بعد سماج آتا ہے۔ فرد سے سماج کا اور سماج سے فرد کا رشتہ اس لئے مستحکم نہیں   ہے کہ درمیانی کڑیوں   یعنی گھر، ہمسائے اور محلے کو غائب کردیا گیا ہے۔ لوگ نئی نسل کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں   جبکہ اُن سے پہلے خود کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے کہ ہمارے ہوتے اُن کی تربیت کہیں   اور سے ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ 
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK