Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹر لسٹ نظر ثانی کا مسئلہ اور انتخابی کمیشن کا آمرانہ رویہ؟

Updated: July 10, 2025, 1:23 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

ووٹر نظر ثانی کے سلسلے میں انتخابی کمیشن کا جو حکم نامہ جاری ہوا ہے اور جس پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے اس کیخلاف جمہوری اور آئینی طریقے سے تحریک جاری رہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 ریاست بہار کے عوام ان دنوں تذبذب کی شکار ہیں کہ ایک طرف ہندوستانی انتخابی کمیشن نے ووٹر لسٹ نظر ثانی کا حکم صادر کیا ہے اور ریاست کے تمام اضلاع میں اس کا عمل شروع بھی ہوگیا ہے۔ دوسری طرف قومی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی کمیشن کے اس حکم کو آمرانہ فیصلہ قرار دے رہی ہیں ۔ظاہر ہے کہ بہار میں آئندہ نومبر میں انتخاب ہونا ہے اورمحض تین ماہ کی مدت میں تقریباً آٹھ لاکھ ووٹروں کی جانچ اور پھر از سرنو ووٹر لسٹ کو شائع کرنا ایک بڑا مسئلہ سمجھا جا رہاہے ۔اب چوں کہ یہ مسئلہ ایک سیاسی موضوع بن چکا ہے اور بالخصوص انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس، راشٹریہ جنتا دل ، بھاکپا مالے ، سی پی آئی، سی پی ایم اور مکیش سہنی کی علاقائی سیاسی جماعت وکاس شیل انسان پارٹی کے ساتھ ساتھ بیرسٹر اسد الدین اویسی کی پارٹی نے بھی انتخابی کمیشن کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور قومی سطح پر بھی اس فیصلے کے خلاف ماحول تیار ہورہاہے۔کئی رضا کار تنظیموں نے انتخابی کمیشن کے اس عاجلانہ اور غیر جمہوری فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ کیا آتا ہے لیکن لاکھ احتجاجی جلسوں اور قانونی چارہ جوئی کے باوجود انتخابی کمیشن کا آمرانہ رویہ بر قرار ہے اور وہ ووٹر لسٹ نظر ثانی کو ضروری قرار دے رہاہے بلکہ اس نے یہ بھی اعلانیہ جاری کیا ہے کہ جن ووٹروں کا نام پہلے سے ووٹر لسٹ میں شامل ہے انہیں بھی نظر ثانی فارم بھرنا لازم ہوگا اور ا گر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔ لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ ضلع انتظامیہ کی طرف سے جن بی ایل او کی بحالی ہوئی ہیں انہیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انتخابی کمیشن کے ذریعہ نافذ کردہ اصول وضوابط کی پابندی کی جائے۔ایسی صورت میں افراتفری ہونا فطری عمل ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست بہار سے باہر سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت میں رہنے والے ووٹروں کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے اورخصوصی طورپر مزدور طبقے کے اندر ایک خوف سا پیدا ہوگیا ہے کہ اگر وہ اس ووٹر نظر ثانی مہم میں شامل نہیں ہوں گے تو شاید ان کی شہریت خطرے میں پڑ جائے گی ۔اگرچہ کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ ایک جمہوری عمل ہے اور اس کو سیاسی چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ جس طرح انتخابی کمیشن نے اچانک فرمان جاری کیا ہے اور محض دو ماہ کی مدت میں نظر ثانی کے عمل کو پورا کرنا اور تیسرے ماہ میں نیا ووٹر لسٹ جاری کرنے کا حکم دیا گیاہے وہ کسی طوربھی جمہوری عمل نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس مہم میں لاکھ کوششوں کے باوجود کروڑوں ووٹروں کا نام ووٹر لسٹ سے باہر ہونا یقینی ہے کیوں کہ اتنے کم وقت میں ریاست سے باہر رہنے والے مزدور طبقے کی واپسی غیر ممکن ہے ۔
 اگر واقعی انتخابی کمیشن کو ووٹر نظر ثانی عمل پورا کرنا تھا تو پارلیمانی انتخاب کے بعد ہی اس کا آغاز کیا جانا چاہئے تھا یا پھر اس اسمبلی انتخاب کے عمل کو پرانے ووٹر لسٹ سے انجام دینا چاہئے تھا۔میرے خیال میں جن سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ حق بجانب ہیں کیوں کہ وہ اس مہم کے مضر اثرات سے کما حقہٗ واقف ہیں کہ ریاست بہار کے کروڑوں مزدور اس مہم میں شامل ہونے سے محروم رہ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی مزدور اتنی کم مدت میں اپنے خاندان کے ساتھ گائوں نہیں پہنچ پائے گا کہ اس کے سامنے آمدورفت کا بھی مسئلہ ہے ۔ بہار آنے وا لی کسی بھی ٹرین میں ایک دوماہ کے بعد ہی ٹکٹ مل پاتا ہے ۔ ایسی صورت میں وہ کس طرح اس مہم میں شامل ہو پائے گا۔جہاں تک ضلع انتظامیہ کے دعوے کا سوال ہے تو وہ بھی اب تک محض کاغذی ہے کیوں کہ انتخابی کمیشن کے دبائو میں ضلع انتظامیہ روز یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ تمام ووٹروں کے گھروں تک بی اہل او ووٹر نظر ثانی فارم پہنچا رہے ہیں جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ اب تک دس فیصد ووٹروں تک بی ایل او کی رسائی نہیں ہو سکی ہے ۔ نتیجہ ہے کہ لوگ باگ اپنے اپنے بی ایل او کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔دراصل بی ایل او کی بھی پریشانی یہ ہے کہ انہیں اپنے محکمہ کے اعلیٰ افسران کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اس لئے پوری ریاست میں ووٹر نظر ثانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہاہے ۔ریاست بہار سیاسی اعتبار سے ایک حساس ریاست ہے اور اسمبلی انتخاب کے مدنظر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں فعال ہیں اس لئے اس مسئلہ پر سیاسی بیان بازی کا سیلاب امڈ آیا ہے لیکن مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آرہاہے ۔میرے خیال میں ملک میں جس طرح کی سیاسی فضا قائم ہوئی ہے اور تمام آئینی ادارے کٹھ پُتلی بن گئے ہیں ایسے بحرانی وقت میں سنجیدہ حکمت عملی سے کام لینا ہوگا اور بالخصوص اقلیت طبقے کو فعال ہونا ہوگا کہ وہ اس مہم میں حصہ لیں اور ووٹر نظر ثانی فارم پُر کرنے کو یقینی بنائیں کیوں کہ اگر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ وقت پر نہیں آیا اور انتخابی کمیشن اگر اپنے آمرانہ رویے پر قائم رہا تو ناخواندہ اور اقلیت طبقے کو سب سے زیادہ خسارہ ہوگا۔حالیہ دہائی میں جس طرح حزب اختلاف کی آواز کو انتخابی کمیشن صدا بہ صحرا ثابت کرتا رہاہے وہ جگ ظاہر ہے کہ کمیشن ایک خاص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہر وہ کوشش کرتا ہے جو غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے ۔ حال ہی میں ہریانہ اور مہاراشٹرمیں اسمبلی انتخاب کے حوالے سے ہزاروں شکایتیں کمیشن تک پہنچیں لیکن نتیجہ صفر رہا ۔ اب وہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکا ہے باوجود اس کے انتخابی کمیشن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
 مختصر یہ کہ ووٹر نظر ثانی کے سلسلے میں انتخابی کمیشن کا جو حکم نامہ جاری ہوا ہے اور جس پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے اس کے خلاف جمہوری اور آئینی طریقے سے تحریک جاری رہے لیکن زمینی سطح پر بیداری مہم کی بھی ضرورت ہے کہ ہر ووٹراس نظر ثانی فارم کو بھرنے کی کوشش کرے کیوں کہ ملک میں جس طرح کی فضا پروان چڑھ رہی ہے اس سے دلت ، پسماندہ اور بالخصوص اقلیت طبقے کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس لئے سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کو فعال کریں کہ وہ ایسے ناخواندہ اور پسماندہ طبقے کے ووٹروںکے معاون بنیں تاکہ ان کے جمہوری حقوق بر قرار رہ سکیں۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔جو لوگ اس غیر آئینی حکم نامے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور احتجاجی جلسے جلوس کر رہے ہیں وہ واقعی قابلِ مبارکباد ہیں کہ اس وقت جب ہر طرف جمہوری تقاضوں اور آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہاہے ایسے وقت میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے تحفظ و استحکام کیلئے سینہ سپر ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK