۲۰۲۵ء میں ’سردی کا موسم‘ ونود کمار شکل کی نظم کم سے کم دہلی میں کہرے کے ساتھ تو نہیں آئی مگر جس طرح آئی وہ اپنے ساتھ تشدد کی نئی تہذیب کے دکھ کے ساتھ آئی۔جس مزدور کو جان گنوانی پڑی اس کے پاؤں سے ربڑ کی چپل بھی نکل کر دور جا پڑی تھی۔
ونود کمار شکل کی یہ نظم ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ نومبر کا مہینہ آگیا اور پھر دسمبر بھی رخصت ہونے کو ہے۔اکتوبر میں نظم اپنی سرد فضا کے باوجود کچھ گرماہٹ کا احساس دلاتی تھی۔اور پھر یہ ہوا کہ خود کمار شکل ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔نظم رہ گئی اور اس کے ساتھ زندگی کی وہ بے سروسامانی بھی جو ایک عام انسان کی زندگی کی طرح ہے۔گرم کوٹ پہ کتنوں کو ملتا ہے۔سردیوں میں عام آدمیوں کے جسم پر گرم کپڑے کس قدر میلے اور اداس دکھائی دیتے ہیں ۔کسی کو ایک مزدور کی بے سروسامان زندگی بھی برداشت نہیں ہوتی اور وہ اس کا نام پوچھتا ہے اور پتہ بھی۔پھر وہی مزدور سڑک کے کنارے ٹھٹھرے ہوئے موسم میں اپنے ٹھٹھرے ہوئے ساکت جسم کے ساتھ پڑا دکھائی دیتا ہے۔یہ تشدد کی نئی قسم ہے یا تشدد کی نئی تہذیب۔چند لوگ جمع ہو کر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،اور ایک مردہ پڑا ہوا جسم کسی کو نہیں دیکھتا۔کچھ لوگ دیکھتے ہیں اور بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔جاں نثار اختر نے کہا تھا۔
گھر کی دہلیز پہ لے جا کے سجائیں اس کو
بیچ راستے میں کوئی لاش پڑی ہے یارو
ونود کمار شکل کی نظم میں چھ بجے کا وقت ہے۔پیڑ کے نیچے آدمی تھا/کپڑے میں آدمی کے دھبے کے اندر وہ آدمی تھا/پیٹ کا دھبہ بالکل پیڑ کی طرح تھا/اور اپنے ردی نسل کے گھوڑے کا دھبہ/ردی نسل کے گھوڑے کی طرح تھا/گھوڑا بھوکا تھا تو/اس کے لیے کہرا ہوا میں گھاس کی اگا تھا/ کہرے کی یہ چادر ابھی ہر طرف پھیلی نہیں ہے،جہاں پھیلی ہے وہاں ممکن ہے کوہ گھوڑے کے لیے گھاس کی طرح ہو۔مگر وہاں تو کوئی اور ہی عالم ہے۔کہرے کی چادر ایک ساکت جسم کے اوپر پھیلی ہوئی ہے اور اسے ہٹانے میں اب کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ۔
ونود کمار شکل نے نظم کا آغاز یہاں سے کیا تھا۔ربڑ کی چپل پہن کر میں بچھڑ گیا/جاڑے میں اترے ہوئے کپڑے کا صبح چھ بجے کا وقت/ربڑ کی چپل گرمیوں کے موسم میں سڑک کی کولتال کے ساتھ چپک جاتی ہے۔ اس چپل کا رنگ بھی کولتال کی طرح ہوا کرتا ہے۔ جیسے کولتال نے چپل کی شکل اختیار کر لی ہو۔
۲۰۲۵ء میں ’سردی کا موسم‘ ونود کمار شکل کی نظم کم سے کم دہلی میں کہرے کے ساتھ تو نہیں آئی مگر جس طرح آئی وہ اپنے ساتھ تشدد کی نئی تہذیب کے دکھ کے ساتھ آئی۔جس مزدور کو جان گنوانی پڑی اس کے پاؤں سے ربڑ کی چپل بھی نکل کر دور جا پڑی تھی۔
تشدد کی تہذیب جب زندگی کی ضرورت بن جائے،تو ایسے میں وہ تہذیبی زندگی بکھر جاتی ہے جسے ہم برداشت اور وسعت کی تہذیب کہتے ہیں ۔نہ جانے کتنی تحریریں اس موضوع پر وجود میں آگئیں مگر تشدد کی تہذیب نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ختم۔تشدد کی مختلف صورتیں ہیں ۔ذرا ذرا سی بات پر جان خطرے میں پڑ جاتی ہے بلکہ جان چلی جاتی ہے۔معاشرے کا شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو تشدد کی زد میں نہ آیا ہو۔تشدد کی تہذیب بھی انسانی معاشرے ہی میں پروان چڑھتی ہے۔لہٰذا اس کے اسباب پر بھی غور کرنے والوں نے غور کیا ہے۔۲۰۰۸ء میں وانی پرکاشن سے آئی تھی ’’ہنساکی سبھبھتا‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ۔راج کشور اس کتاب کے مرتب ہیں ۔اس کتاب میں کراچی اور دوسرے علم کاروں نے جس طرح اس مسئلے پر غور کیا ہے،اسے ایک مرتبہ ضرور دیکھنا چاہیں ۔ تشدد کی شاید ہی کوئی ایسی قسم ہو جس کا یہاں ذکر نہ ہو۔اس سے بڑی بات تشدد کی قسموں کے محرکات اور اسباب پر غور کرنا ہے۔اسی لیے یہ کتاب اپنے موضوع پر بہت اہمیت کی حامل ہے۔
معلوم نہیں ونود کمار شکل جاڑے کے موسم میں کس کو دیکھا تھا۔خود کو دیکھا تھا اور کتنا زمانے کو۔چاہے جس کو جتنا دیکھا ہو اب نظم ہی دیکھنے،اور محسوس کرنے کے تمام سلسلوں اور کیفیتوں کا اظہار بھی ہے اور حوالہ بھی۔مگر ایک اور بھی پہلو ہے جو اس نظم کا بظاہر تو نہیں ہے لیکن اس میں کہیں پوشیدہ ضرور ہے۔یعنی جاڑے میں خاص طور پر پاؤں کی تنی ہوئی رگیں کپڑوں سے چھپ جاتی ہیں جو رکشہ چلاتے ہوئے مزدوروں کی زندگی کا بنیادی حوالہ ہیں ۔یہ پاؤں کی رگیں پورا جسم تو نہیں مگر انہیں سردیوں کے موسم میں چند ہفتوں کے لیے چھپ جانے کا موقع ضرور ملتا ہے۔تاکہ گرمی کا موسم ان کے لیے نئی حرارت کے ساتھ نئی زندگی کا ثبوت فراہم کریں ۔مگر رکشہ پلر کب اپنے پاؤں کی ان تبتی، تنی اور ٹھٹھری ہوئی رگوں کو دیکھتا ہے۔ونود کمار شکل کی نظم میں ردی نسل کے گھوڑے کا ذکر ہے۔’’اس کے لیے کہرا ہوا میں گھاس کی طرح اگاتھا‘‘کہرا ٹہری ہوئی زندگی کا اظہار ہے مگر کسی کے لیے زندگی کی بقا ءکا اشاریہ بھی ہے۔کپڑے کا دھبہ جسم کے دھبے کو چھپاتا ہے اور اسے دکھاتا بھی ہے۔زندگی جاڑے کے موسم میں کسی کے لیے بہت پر مسرت اور خوبصورت ہے اور کسی کے لیے تکلیف دے۔بارش اور سردی کا موسم کئی زندگیوں کو اپنے ساتھ لاتا ہے۔ کبھی سوچئے کہ اس موسم سے کس کو کتنی اور کیسی زندگی ملتی ہے۔گرم کوٹ ہے کہ کبھی پرانا نہیں ہوتا اور جو پرانا ہو جاتا ہے وہ کسی کے لیے نیا ہے۔پہنے ہوئے کوٹ کو بار بار پہننا بہت لوگوں کے لیے سردی کے موسم کی توہین ہے گویا سردی کا ہر موسم کسی کے لیے نئے گرم کوٹ لاتا ہے۔اور پھر پہنے ہوئے کئی گرم کوٹ بازاروں میں پہنچ کر بہت کم قیمت کے ساتھ کچھ لوگوں کے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے ۔نیا گرم کوٹ کسی کے لیے میلے جسم کی طرح ہے یا اس کا جسم بھی میلا کوٹ ہے۔دسمبر کے اس آخری دنوں میں سردی کا موسم کہرےکی چادر کو بننے میں مصروف ہے۔کہیں کچھ بن گئی ہے اور کہیں بنتے بنتے بکھر گئی ہے۔گرم کوٹ بیدی کا افسانہ بھی ہے۔ایک کلر کی غربت سے بھری زندگی کے گرد یہ کہانی گھومتی ہے۔وفا شعار بیوی اپنے شوہر کو سردی سے بچانے کی خاطر اپنی ضروریات کو قربان کر دیتی ہے۔تو یہ وہ سردی کا موسم ہے جس سے ہماری ایک دوسری تہذیب وابستہ ہے۔ ۱۹۵۵ء میں اس افسانے پر فلم بھی بنائی گئی۔گوگول کا افسانہ’’دی اوور کوٹ‘‘سے بیدی کے افسانے کا ایک رشتہ ہے۔ لیکن میرا ذہن ونود کمار شکل کی نظم پر مرکوز ہے۔
’’وہ آدمی نیا گرم کوٹ پہن کر چلا گیا وچار کی طرح‘‘