• Wed, 17 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تبدیلیٔ مذہب قانون پر کئی ریاستوں کو نوٹس

Updated: September 16, 2025, 11:41 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے متنازع قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر۱۰؍ریاستوں کو نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیا ہے

The Supreme Court has created difficulties for many states by issuing notices. (File photo)
سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کرکے کئی ریاستوں کیلئے مشکل پیدا کردی ہے ۔(فائل فوٹو)

عدالت عظمیٰ نے منگل کو کچھ ریاستوں کے انسداد تبدیلیٔ مذہب قوانین کو چیلنج  کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی۔ اس معاملے میں عدالت نے ریاستوں کو نوٹس دے کر جواب داخل کرنے کے لئےکہا ہے۔ یہ نوٹس اتر پردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، ہریانہ، گجرات اور راجستھان سمیت ۱۰؍ریاستوں کو بھیجا گیا ہے۔ ان سبھی ریاستوں  سےکہا گیا ہے کہ وہ ۴؍ہفتوں میں جواب داخل کریں۔ اس معاملے میں آئندہ سماعت ۶؍ ہفتہ بعد رکھی گئی ہے۔قابل ذکر ہے کہ عرضی دہندگان نے الگ الگ ریاستوں میں بنائے گئے ان قوانین کے جواز کو چیلنج پیش کیا ہے جو مذہب تبدیل کرنے پر سزا کا التزام کرتے ہیں۔ عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ  ان متنازع قوانین کا استعمال بین مذہبی جوڑوں کو پریشان کرنے،  اورتہواروں اور مذہبی تقاریب میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
  چیف جسٹس بی آر گوَئی اور جسٹس ونود چندرن کی بنچ نے اس تعلق سے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ، راجستھان اور کرناٹک میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی ان عرضیوں پر ایک ساتھ سماعت کی۔ فی الحال عدالت عظمیٰ نے عبوری روک لگانے سے انکار کر دیا ہے لیکن ریاستوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان  قوانین کی متنازع شقوں پر جواب ضرور مانگ لیا ہے۔ 
 گزشتہ سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ تبدیلیٔ مذہب ایک سنگین معاملہ ہے اور اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے۔ عدالت نے ایک عرضی پر اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی سے تعاون بھی طلب کیا تھا جس میں مبینہ فریب دہی والے تبدیلیٔ مذہب کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو سخت قدم اٹھانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 
 دریں اثناء منگل کو ہونے والی سماعت میںعرضی دہندگان  کے وکلاء نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان متنازع قوانین کا استعمال بین مذہبی جوڑوں کو پریشان کرنے، تہواروں اور مذہبی تقاریب میں رخنہ ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔سینئر ایڈوکیٹ چندر اودے سنگھ، جو سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی طرف سے پیش ہوئے،  نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت بہت ضروری ہے کیونکہ کئی ریاستیں ان قوانین کو مزید سخت بنا رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھلے ہی ان قوانین کو ’مذہب کی آزادی ایکٹ‘ کہا جا رہا ہے، لیکن یہ قانون مذہبی اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو محدود کر رہے ہیں اور بین مذہبی شادیوں اور مذہبی روایات کو ہدف بنا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ۲۰۲۴ء میں اتر پردیش کے قانون میں ترمیم کرکے شادی کے ذریعہ ناجائز مذہب تبدیلی پر بھی سزا بڑھا کر کم از کم ۲۰؍ سال کر دی گئی ہے اور اس میں ’ٹوئن کنڈیشنز‘ (جس طرح پی ایم ایل اے میں ہوتا ہے) شامل کر دی گئی ہیں۔ ترمیم میں یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ تیسرا فریق بھی شکایت درج کرنے کا اہل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین مذہبی شادی کرنے والے لوگوں یا کلیسا میں عام مذہبی تقریب منعقد کرنے والے لوگوں کو جمع بھیڑ کی طرف سے ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایڈوکیٹ ورندا گروور، جو نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی طرف سے پیش ہوئیں۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ گجرات ہائی کورٹ نے۲۰۲۱ء میں گجرات تبدیلی مذہب قانون کی کچھ متنازع دفعات پر روک لگا دی تھی۔ اسی طرح کا اسٹے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بھی دیاہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK