ورلڈ کپ فائنل کیلئے نوی ممبئی کا ڈی وائے پاٹل اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ براڈ کاسٹروںنے ریکارڈ ویورشپ بھی درج کی۔اس سے یقین پیدا ہوتا ہےکہ ویمنس کرکٹ ٹیم مستقبل میں مالی طورپر خود کفیل ہوجائیں گی۔
’’نہ لے گا کوئی پنگا کر دیں گے ہم دنگا /رہے گا سب سے اوپر ہمارا ترنگا /‘‘۔ ’ٹریسٹ وِتھ ڈیسٹینی‘ (تقدیر سے ملاقات ) وہ خطاب تھا جوملک کے ا ولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آدھی رات کو دیا تھا ۔ مذکورہ الفاظ اس نغمہ کے ہیں جو ویمنس ٹیم ا نڈیا نے عالمی کپ جیتنے اور ٹرافی اٹھانے کے بعد گایا تھا ۔ یہ نغمہ جواہر لال نہروکے خطاب کی طرح اپنے اندر کوئی سنجیدہ پہلو تو نہیں رکھتا لیکن نہرواگر آج ہوتے تو وہ پنگا ،دنگا اور ترنگا کے غیر سنجیدہ قافیہ کو پسند ضرورکرتے ۔ خواتین ٹیم کا یہ نغمہ رات میں ۲؍ بجے میں وائرل ہوا جس کے ذریعے عالمی چمپئن خواتین نے انہیں جواب دیا جوورلڈ کپ میں ان کی جیت اور کارکردگی کے تعلق سے شبہ میں تھے ۔
ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کورنے جیت کے بعد کیمرے سےآنکھیں ملا کر کہا تھا ’’ ہمارا مستقبل روشن ہے ۔‘‘ وہ اس بات واقف تھیں کہ اگر ٹیم جنوبی افریقہ سے ہار جاتی تو اسےکیسی کیسی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔ہارنے کی صورت میں ٹیم کی لڑکیاں اگرٹیم کے ترانے پر کوئی چھوٹی ریٖل بھی بناتیں تواس پر انہیں منفی تبصرے ہی سننے کو ملتے۔
فائنل سےپہلے آسٹریلیا کے خلاف ۳۳۰؍ سے زائدرن کے کامیا ب تعاقب سے خاتون ٹیم کا ایک بالکل نیا مزاج کرکٹ شائقین کے سامنے آیاجس کا تعلق مشکل ترین حالات میں بھی مطمئن اور یکسو رہنے کے جذبے سے تھا ۔ یہ پہلی بار تھا جب ٹیم نے ۳۰۰؍ سے زیادہ کا ہدف حاصل کیاہو۔ لیکن ، ان ساری محنتوں پر پانی پھر جاتا اگر ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف ۲۹۸؍ رنوں کا دفاع کرنے میں ناکام رہتی ۔شفالی ورما نے کھیل میں جلدبازی کی اپنی عادت پرقابوپایااورتحمل کا مظاہرہ کیا۔امنجوت کور نےدکھا یا کہ ڈائریکٹ ہٹ کس طرح کیاجاتاہےاور ہرمن پریت کور نے ۱۹۸۳ء میں کپل دیو کی طرح پیچھےکی طرف دوڑتے ہوئےکیچ پکڑ ا اور اس کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کی ٹرافی بھی اٹھالی ۔
جب ویمنس ٹی ۲۰؍ یعنی آئی پی ایل کی طرح خواتین کے پریمئرلیگ پر غورہورہا تھا اوراس کا آغاز بھی کردیاگیا تب بھی سوشل میڈیا پرخواتین کرکٹروں کے تعلق سے طرح طرح کے منفی تبصرے ہی کئے جارہے تھے ۔خواتین کے کرکٹ کھیلنے کی صلاحیت کو نامناسب اور ناکافی قراردیاجا رہا تھا ۔ آمدنی کیلئے کارآمد ہونے کی ان کی قابلیت پرسوال اٹھائے جارہے تھے ۔ یہاں تک کہ انہیں کچن میں واپس جانے کا بھی مشورہ دیا گیاتھا ۔
ٹیم نے جیت کے بعد یہ جو نغمہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں یہ بول بھی تھے ’’ کردے سب کی ہواٹائٹ /ٹیم انڈیا از ہیئر ٹو فائٹ /، اس میں ۹؍ بار کی چمپئن آسٹریلیا کیلئےبالخصوص ایک بڑا پیغام تھا،مگریہ پیغام ان مخالفین اور ناقدین کیلئے بھی تھا جو کرکٹ پر مردوں کی اجارہ داری کے قائل ہیں ۔
۱۹۸۶ء میں جس گیندباز کوجاویدمیاں دادنے آخری گیند پر سکسرمارا تھا ، وہ گیندباز شائقین کے نشانے پر تو ضرور تھے لیکن کسی نے انہیں کرکٹ چھوڑنے کا مشورہ نہیں دیا ۔۱۹۹۹ء کے عالمی کپ کے سپر سکس کے مقابلے میں آسٹریلیا کے خلاف جب ہندوستانی ٹیم کے لیجنڈ کھلاڑی تنڈولکر،گنگولی ، دراوڑ اور اظہر الدین مل کر۵۰؍ رن تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے تب کسی نے نہیں کہا کہ انہیں کرکٹ چھوڑ دینا چاہئے ۔رکی پونٹنگ نے ۲۰۰۳ ءمیں ہندوستان کے خلاف جب پہلے ہی اوور میں رنوں کا انبار لگا دیا تھا اور ۲۰۲۳ء میں جب پیٹ کمنس کی قیادت میں آسٹریلیا نے احمد آباد میں ہوئے عالمی کپ کا خطاب کیا ، تب کسی نے ہندوستانی مردکھلاڑیوں کو کرکٹ سے دست بردار ہوجانے کا مشورہ نہیں دیا۔
کرکٹ سے محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہےکہ اپنی پسندیدہ ٹیم کے ہارنے سے آپ مایوس ہوکر بیٹھ جائیں ۔جیت ہار کھیل کا حصہ ہے۔شکست کی صورت میں دل ٹوٹنے کے نا گزیر لمحےبھی آتے ہیں ۔اس میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خواتین کرکٹرس مردوں کے ذریعے پیدا کی گئی آمدنی پرپل رہی ہیں ۔ ۲۰۲۵ء میں یہ جو لمحہ آیا ، اس کا ۱۹۸۳ء سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ امید کی جاسکتی ہےکہ خواتین کھلاڑیوں کوکھیل ، صلاحیت اور قابلیت کے حوالوں سے اب طنزو تنقیدکا سامنانہیں کرنا پڑے گا ۔
ورلڈ کپ فائنل کیلئے نوی ممبئی کا ڈی وائے پاٹل اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔براڈ کاسٹروں نے ریکارڈ ویورشپ بھی درج کی۔اس سے یقین پیدا ہوتا ہےکہ ویمنس کرکٹ ٹیم مستقبل میں مالی طورپر خود کفیل ہوجائیں گی،اگروہ ابھی نہیں ہیں ۔ ہندوستانی خاتون کرکٹ ٹیم نے اب وہ صورت پیدا کردی ہےکہ والدین اپنی بچیوں کی کرکٹ میں کریئر بنانے کی حوصلہ افزائی کریں ۔ اب عزائم بھی بلند سے بلند تر ہوتے جائیں گے۔ٹیم نے ابھی ایک عالمی کپ جیتاہے،آئندہ سال ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ ہونے والا ہے ۔ ممکن ہے اس طرح مستقبل میں مرد اور خاتون کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں فرق بھی کافی حد تک کم کیا جا سکے گا ۔ لڑکیوں کی یہ ٹیم اپنے حق کیلئے لڑنا جانتی ہے۔
کرکٹ کے میدان پرآسٹریلیا نے ہندوستان کوکئی شکستیں دی ہیں لیکن سیمی فائنل میں ٹیم انڈیا نے جو ہدف کا میاب تعاقب کیا، اس سے جیمیما روڈرگز کی شکل میں نہ صرف ایک نئے سپر اسٹار کا جنم ہوا بلکہ اس جیت نے اس خوف پر بھی ہمیشہ کیلئے پانی ڈال دیاجو آسٹریلیا کے مد مقابل ہندوستانی ٹیم میں ہوا کرتا تھا ۔ روڈرگز نے ہی ایک بار کہا تھا ’’ آسٹریلیا کے ساتھ کچھ زیادہ ہی کھنس ہے۔‘‘ ہندوستان میں یہ مثال ہے کرکٹ سےمحبت کی ۔ باندرہ میں ایک دیوار پرجو جیمیما روڈرگز کی رہائش گاہ سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے، ۱۹۷۵ءکی کلاسیکی فلم ’دیوار ‘کاعکس بنایا گیا ہے اور اس سے ملحقہ سطرمیں یہ لکھا ہے’’انڈیا کے پاس جیمیما ہے۔‘‘ (واضح رہےکہ فلم دیوارکا وہ ڈائیلاگ آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے جب امیتابھ بچن کے اس سوال کے جواب میں کہ تمہارے پاس کیا ہے،ششی کپور کہتے ہیں ’’میرے پاس ماں ہے۔)
(بشکریہ انڈین ایکسپریس )