Inquilab Logo Happiest Places to Work

یہ سڑک چپ ہے کسی سے نہیں پوچھا اس نے

Updated: June 02, 2025, 2:38 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

سڑکیں چاہے جہاں کی بھی ہوں ان کا رویہ مسافر کے ساتھ بدلتا نہیں ہے۔ مسافر بدلتے رہتے ہیں سڑک اپنی فطرت کے ساتھ مسافروں کو گزارتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 سڑک ہماری زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔ سڑک زندگی تو نہیں  مگر زندگی کو رواں  دواں  رکھنے کے لئے اس کا ہونا ضروری ہے۔ سڑک ان کے لئے ہے جنہیں  پیدل بھی چلنا ہے اور سوار بھی ہونا ہے۔ صرف سوار ہو کر سڑک کی زندگی سمجھ میں  نہیں  آ سکتی۔ سڑک کے بارے میں  اب غور کرنے کی کوئی ضرورت شاید باقی نہیں  رہی۔ اب سڑکیں  خوبصورت بھی ہو گئی ہیں  اور ہموار بھی۔ سڑکوں  کے بارے میں  جو ہماری سمجھ پہلے تھی اس کی تعمیر میں  ٹوٹی ہوئی سڑکوں  کا اہم کردار ہے۔ وہ سڑک ہی کیا جو کہیں  کہیں  سے ٹوٹی ہوئی اور روٹھی ہوئی نہ ہو۔ سڑک کا سینہ جب چاک ہو جاتا ہے تو مسافر کا دل بھی چاک ہونے لگتا تھا۔ سڑک کے چاک سینے سے مسافر کو اپنے چاک سینے کا سراغ ملتا تھا۔ سڑک کبھی درمیان سے ٹوٹتی تھی تو کبھی کنارے سے۔ ایک برسات سڑک کو اس کی شکل بگاڑنےکیلئے کافی ہوتی ہے۔ سڑک کی بگڑی ہوئی صورت ایک طرح سے اس کا لازمہ رہی ہے۔ سڑکیں  جب ٹوٹی ہوئی تھیں  تو سفر مشکل بھی تھا اور دیر آشنا بھی۔ درمیان میں  جنگل بھی آ جاتا اور پھر کہانی کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا۔ وہ سفر ہی کیا جو جنگل سے خالی ہو۔ یہ ہمیں  لگتا ہے کہ سڑک کا خیال مسافر کو پریشان کرتا تھا۔ سڑک جیسی تھی، مسافرکا ذہن بھی اسی کے ساتھ وابستہ تھا۔ ذہن میں  احساس کی کار فرمائی بھی تھی۔ اب سڑک کو دیکھنے والے تو بہت ہیں  لیکن اسے محسوس کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں ۔
 سڑکیں  چاہے جہاں  کی بھی ہوں  ان کا رویہ مسافر کے ساتھ بدلتا نہیں  ہے۔ مسافر بدلتے رہتے ہیں  سڑک اپنی فطرت کے ساتھ مسافروں  کو گزارتی ہے۔ دنیا بھر میں  سڑک کے تعلق سے جو نظمیں  کہی گئی ہیں  انہیں  ایک مرتبہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ یہ اسلئےضروری ہے تاکہ آج کی تیز رفتار اور شور سے بھری ہوئی دنیا میں  تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ایک جامد اور بظاہر بے روح شے کو محسوس کیا جا سکے۔ مشکل وقت تو احساس پر آیا ہے۔ سڑک کیا کر سکتی ہے اگر مسافر اپنی رفتار سے آگے نکلنا چاہے۔ ہموار راستوں  کا سفر غیر ہموار راستوں  کے مقابلے میں  کبھی مشکل ہو جاتا ہے۔ٹوٹی ہوئی سڑک رک کر اور ٹھہر کر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ آج پھر اپنی بستی کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے مسافروں  کو اپنی گاڑیوں  کے ساتھ ٹوٹی ہوئی سڑک کا احترام کرتے ہوئے دیکھا۔ گاڑی ٹھہر ٹھہر کر آگے بڑھتی جیسے سڑک اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو اور مسافر کچھ سننا چاہتا ہو۔ یہ بھی دیکھا کہ پرجوش مسافروں  نے ٹوٹی ہوئی سڑک کو اپنی رفتار سے کچلنا چاہا جیسے کوئی طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں  عام انسانوں  کو گاڑی سے کچل ڈالے۔کبھی سڑک کے بارے میں  غور کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا پہلا شخص تھا جو تیز رفتار گاڑی کی زد میں  آیا۔ سڑک پر گاڑیوں  سے کچلنے اور زخمی ہونے والوں  کی تاریخ یا فہرست اگر بنائی جائے تو سڑک کا بہت ہی خوفناک چہرہ سامنے آ سکتا ہے۔ جب سے سڑک کی ہموار سطح کو دیکھ کر گاڑی کی رفتار تیز ہوئی ہے، منزل قریب ضرور آگئی مگر انسانی زندگی کا ایک معنی میں  نقصان بھی ہوا ہے۔ رفتار مسافر کیلئے ہے اس مسافر کیلئے نہیں  جو سڑک کے کنارے چل رہا ہے یا کہیں  پڑا سویا ہوا ہے۔ ہر دن کسی تیز رفتار گاڑی سے کوئی کچلا جاتا ہے اور دوسرا دن آ جاتا ہے۔ پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ یہ معمول کی زندگی ہے اور معمول کا سفر ہے۔ سڑکیں  پہلے بے نشان تھیں ۔ مسافر اپنی تہذیب اور شعور کے ساتھ سڑک سے گزرتا تھا، اسے کہاں  سے کتنا مڑنا ہے اس کا فیصلہ ظاہری نشان کے بغیر ہو جاتا تھا۔ سڑک کی چوڑائی آج کی طرح کہاں  تھی۔ دل بھی کشادہ رہا ہوگا یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی کوئی شخص گاڑی سے نکل کر پیدل چلنے والے سے معذرت کرتا ہے کہ غلطی سے گاڑی قریب آ گئی۔
 جب گاڑی کم تھی اور سڑک بہت کشادہ نہیں  تھی، انسانی زندگی کو خطرہ بھی کم تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ ایک مسافر کی حیثیت سے اور سوار مسافر کی حیثیت سے ہمارا بے حس ہو جانا ہے۔ گاڑی کے نیچے کون سی شے آرہی ہے، اس سے وہ سروکار جو پہلے تھا وہ باقی نہیں  رہا۔ سڑک ہے کہ ہموار اور روشن ہوتی جا رہی ہے اور دل ہے کہ تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ سڑک کی درد مندی اور اداسی کو کرشن چندر نے اپنی کہانی’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘میں  پیش کرنے کی اولین کوشش کی تھی۔کرشن چندر کی اسی کہانی کے ساتھ سڑک اردو میں  آئی۔بعد کو بلراج مین را نے ’’سڑک ماضی کی‘‘ کے عنوان سے کہانی لکھی۔ ان دونوں  کہانیوں  میں  سڑک کے تعلق سے فکر اور احساس کی سطح پر یکسانیت کے باوجود فرق بھی ہے۔سڑک سب کچھ دیکھتی، سنتی اور محسوس کرتی ہے مگر کچھ کہتی نہیں  ہے۔کرشن چندر نے اس بات کو بار بار کہانی میں  دہرایا ہے۔مین را نے سڑک کی خاموشی کو اس کا سکون بتایا اور پھر اسے اپنی ذات سے وابستہ کر کے دیکھا کہ جب سڑک کی اداسی اور خاموشی اس کا سکون ہے تو میری اداسی اور خاموشی میرا سکون کیوں  نہیں ۔ یہ دونوں  کہانیاں  عام زندگی سے تحریک پا کر وجود میں  آئی ہیں  لیکن ان کہانیوں  کو پڑھتے ہوئے جس سڑک کا خیال ذہن میں  ابھرتا ہے وہ آج کی سڑک سے بہت مختلف ہے۔ سڑک پر اتنی بھیڑ کہاں  تھی اور سڑک نے کب اتنا بوجھ اٹھایا تھا۔ سڑک کی ٹوٹی ہوئی صورت میں  زندگی کے آثار زیادہ تھے۔ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے ٹوٹی ہوئی صورتوں  کا احترام تھا اس امید کے ساتھ کہ یہ کبھی سڑک بن جائے گی۔ بنتے بنتے کتنا وقت گزر جاتا اور مسافر جوان سے بوڑھا ہو جاتا چنانچہ ایسے مسافر بھی ملے جو یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ میں  بوڑھا ہو گیا اور سڑک ہے کہ اب بھی ٹوٹی پھوٹی ہے۔

 سڑک بھی مسافر کی طرح بوڑھی ہوئی ہوگی لیکن مسافروں  نے اسے لازمانی بنا دیا۔ عام آدمی کی سڑک کبھی خاص آدمی کی سڑک سے الگ ہو جاتی ہے۔ کہیں  ایک ہو کر بھی دو معلوم ہوتی ہے۔ انسانی آبادی طبقاتی نظام کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ سڑکوں  کا پھیلتا ہوا سلسلہ طبقاتی نظام کی زد میں  شاید اس طرح آ نہیں  سکا۔ مخصوص راستے جو مخصوص افراد سے وابستہ ہیں  وہ بھی دراصل طبقاتی نظام کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے مسافر کی رفتار یوں  بھی بہت مہذب ہو جاتی ہے۔ سڑک کا کنارہ اس حاشیے کی طرح ہے جو بنیادی تحریر یا متن سے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ مگر ناگزیر سفر کا حوالہ ہے۔ سڑک کے کنارے چلتے ہوئے ایک عمر گزر جاتی ہے اور کبھی منزل بہت قریب ہو کر بھی دور ہو جاتی ہے۔ سڑک کتنی لمبی اور کشادہ ہوگی اس بارے میں  پہلے سوچا ضرور گیا ہوگا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے سڑک لمبی ہو جاتی ہے اور کشادہ بھی۔ راہی معصوم رضا کی نظم کی چند سطریں  کچھ یوں  ہیں ۔
یہ سڑک چپ ہے/کسی سے نہیں  پوچھا اس نے/کون ہو/کس لیے آئے ہو/کدھر جاؤ گے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK