امریکہ کی معیشت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور اس کیلئے کوئی فوری چیلنج نہیں ہے تب ٹیرف کے معاملے میں اتنی دھاندلی کیوں؟ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: August 03, 2025, 1:33 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
امریکہ کی معیشت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے اور اس کیلئے کوئی فوری چیلنج نہیں ہے تب ٹیرف کے معاملے میں اتنی دھاندلی کیوں؟ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
امریکہ کی مجموعی آبادی ۳۴؍ کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ بالکل اُتنی ہی ہے جتنی کہ ہمارے ہاں یوپی یا بہار کی ہے۔ عالمی آبادی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عالمی آبادی کا ۴؍ فیصدہے مگر اس قلیل آبادی کو عالمی ضابطہ (ورلڈ آرڈر جسے رو‘ل بیسڈ آرڈر کہا جاتا ہے) کا، سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا رہا ہے۔
امریکہ اور اس کےیورپی حلیفوں کے وضع کردہ اس ضابطے کے تحت عالمی تعاون اقوام متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اداروں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر امریکی عوام اپنے ملک کے صدر کو ’’آزاد دُنیا کا سربراہ‘‘ (لیڈر آف دی فری ورلڈ) قرار دیتے ہیں ۔ ضابطہ ٔ مذکور ہی کے تحت چلنے والے ادارے ’’انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ‘‘ (آئی ایم ایف) کے فراہم کردہ اعدادوشمار سے واضح ہے کہ امریکی شہریوں کی فی کس آمدنی ۹۰؍ ہزار ڈالر ہے۔ اس کا موازنہ ہندوستان سے نہیں کیا جاسکتا۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندوستان بہت پیچھے اور امریکہ کا تیسواں حصہ ہے۔ یہاں کی فی کس آمدنی ۳؍ ہزار ڈالر ہے۔ امریکی معیشت کو گزشتہ چند دہائیوں میں خاصا فائدہ ملا ہے بالخصوص اس لئے کہ وہاں کی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات (مثلاً ہوائی جہاز، فون، کمپیوٹرس) اور سوشل میڈیا کمپنیوں کی خدمات کو دُنیا بھر میں پھیلانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حالیہ برسوں میں روزگار کی شرح میں زوال کے باوجود امریکہ میں روزگار کی قلت نہیں ہے کیونکہ بے روزگاری ۴؍ فیصد ہی ہے۔ بالفاظ دیگر آمدنی اور روزگار کے معاملے میں امریکہ آج بھی اچھی حالت میں ہے۔ہندوستان میں روزگار کی شرح سے اس کا موازنہ کیا جائے تو اس کی حالت اور بھی بہتر دکھائی دیتی ہے۔
اس کے باوجود امریکہ بقیہ دُنیا سے ناخوش ہے اور اس کے موجودہ صدر کا کہنا ہے کہ دُنیا اُن کے ملک کو لو‘ٹ رہی ہے۔ انہوں نے اس ’’لو‘ٹ‘‘ کو ختم کرنے کیلئے مختلف ملکوں کے خلاف ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ اُن کیلئے امریکی بازار مشکل ہوجائے۔ امریکہ ہندوستان کا سب سے بڑا مارکیٹ ہے لہٰذا ۲۵؍ فیصد محصول یا ٹیکس کی وجہ سے امریکہ میں ہندوستانی اشیاء اور مصنوعات مہنگی ہوجائینگی، جس کے سبب ان کی مانگ کم ہوگی اور ہمارے برآمد کاروں کو نقصان اُٹھانا پڑے گا۔محصول کی شرح میں تخفیف نہ ہوئی تو یہ طے ہے کہ ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔
اگر یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ صدر ٹرمپ کے عائد کردہ محصول سے امریکی عوام کتنے مطمئن ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس موضوع پر کوئی بامعنی مباحثہ نہیں ہورہا ہے کہ اس سے کتنے ملکوں کے معاشی مفادات پر ضرب لگے گی اور یہ کہ غریب ملکوں کا کیا بنے گا۔ امریکہ نے محصول (ٹیرف) کے پورے نظام کو درہم برہم کردیا اور اس کی گنجائش ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن کے ضابطوں سے نکالی جس کے خلاف عالمی عدالت میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ اس بات پر تعجب کیا جانا چاہئے کہ امریکہ نے اتنا زبردست محصول مخالف رویہ کیوں اپنایا ہے جبکہ محصول کی جن شرحوں کے خلاف ٹرمپ نے دھاوا بولا ہے وہ سابقہ صدور کے دور میں بھی جاری تھیں ۔ ایسا کرکے امریکہ اور اُس کے صدر ٹرمپ عالمی مفادات کو مجروح کررہے ہیں ۔
جس عالمی ضابطے کا ذکر ابتدائی سطور میں کیا گیا ہے اُسی سے فائدہ اُٹھا کر امریکہ نے غزہ میں نسل کشی کی گویا اجازت دے رکھی ہے۔ وہ امریکہ جو دُنیا کو جبر و استبداد اور آمریت و مطلق العنانیت سے آزادی دلانے کا علمبردار ہے، اسرائیل کو غزہ میں انجام دیئے جانے والے جرائم سے روکنے کو تیار نہیں بلکہ اس کا تحفظ کررہا ہے۔ اقوام متحدہ میں رُکن ملکوں نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر نسل کشی کے اس سلسلے کو روکنا چاہا مگر امریکہ نے قرارداد کو ویٹو کرکے اکیسویں صدی کے اس ہولوکاسٹ کو جاری رکھنےکے معاملے میں اسرائیل کی پشت پناہی کی۔
امریکہ کے ان اقدامات سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح ہے: (۱) امریکہ نے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اب ہر وہ ملک جو طاقت حاصل کرلے گا وہ دوسرے ملکوں پر اسی طرح یلغار کرے گا اور اُن کے مفادات کو ٹھیس پہنچائے گا۔جنوبی ایشیائی ممالک امریکہ کی اس دھاندلی کے خلاف جو مزاحمت کررہے ہیں وہ بہت کمزور ہے۔ ’’برکس‘‘ میں دراڑیں پڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں جس سے امریکہ کو اپنی دھاندلی جاری رکھنے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ (۲) اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی بالکل انفرادی نوعیت کی سفارت کاری کے نتائج اور ثمرات کا جائزہ لیں ۔ ہم نے فلسطین کے تعلق سے اپنے دیرینہ موقف کو بالائے طاق رکھ دیا اور یہ محض اس لئے ہوا کہ ہم اسرائیلی لیڈر کے ساتھ معانقہ کرنے کیلئے بے چین رہے۔ ہمارا فلسطینی موقف ایک طرح کا ادارہ جاتی اتفاق رائے تھا۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے امریکی صدر کیلئے جتنا کچھ کیا، ضیافت سے لے کر اُس کیلئے ووٹ مانگنے تک، اُس کا کیا نتیجہ نکلا؟ (۳) آخری بات یہ سوال ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو امریکہ یا اس کے صدر کو اس قدر برگشتہ کررہی ہے؟ اس کی معیشت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اس کے باوجود اتنی دھاندلی کیوں ؟
یہ بھی پڑھئے : آگے آگے ایک ہیولا پیچھے پیچھے دُنیا ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک، بالخصوص چین، اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں جنہیں گلوبل ساؤتھ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ان ملکوں کی یہی اُٹھان جاری رہی تو وہ دن آسکتا ہے جو گزشتہ ایک صدی میں نہیں آیا۔ وہ یہ کہ امریکہ دُنیا کی سب سے بڑی معیشت نہیں رہا۔ یہ بات مغربی ملکوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اگر کوئی اور طاقت امریکہ کے سامنے کھڑی ہوگئی تو واشنگٹن وہ سب نہیں کرسکے گا جو وہ شمالی امریکہ، آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ کے ساتھ کرتا آیا ہے یا وہ جو کچھ فلسطین کے ساتھ کررہا ہے۔
جب بقیہ دُنیا مغربی ملکوں کی برابری کی پوزیشن میں آجائے گی تو واشنگٹن کی وہ طاقت گھٹ جائیگی جو اسے غلبہ عطا کرتی ہے۔ اُسے یہ طاقت اُسی عالمی ضابطے کے تحت ملتی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ مگر اس سے پہلے کہ ایسا ہو، فی الحال دُنیا نہایت خطرناک دور سے گزر رہی ہے بالخصوص اُن ملکوں کیلئے حالات نہایت سخت ہیں جنہیں غربت سے نکلنے میں اب بھی کافی وقت ہے ۔