انبالہ سے تعلق رکھنے والے ناصرایک صدی پہلے آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔ اُن کی شاعری میں دکھ کا عنصر حاوی ہے مگر اس سے اُمید کا پہلو نکلتا ہے۔
آ ج دسمبر کی سات تاریخ ہے۔ اس تحریر کی اشاعت کے ساتھ آٹھ دسمبر کی صبح روشن ہو چکی ہوگی۔ آٹھ دسمبر۱۹۲۵ء کو آٹھ دسمبر۲۰۲۵ء تک پہنچنے میں اتنا ہی وقت لگا ہے جتنا لگنا چاہئے تھا۔ ناصر کاظمی کی تاریخ پیدائش، آٹھ دسمبر کو ایک خاص معنویت بخشتی ہے۔ وہ ۸؍ دسمبر کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ انہیں صرف چھیالیس سال کی زندگی ملی۔انبالہ کی سر زمین کتنی نازاں ہوگی کہ اس کی خاک سے ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جس کی مٹی اور مٹی کی بو باس اس کے وجود کا پیراہن تھی۔ اس کی خبر ہر اس شخص کو ملی جس نے ناصر کا کلام سنا اور پڑھا ہے۔ ناصر کاظمی کو بھی اس کا احساس تھا تبھی تو یہ کہا:
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
ناصر کاظمی اپنے دور کے اہم ترین لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان رہے لیکن ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کی۔ ان کی شاعری میں سڑک، اسٹیشن اور رات کے پچھلے پہر زندگی کی عام سچائیوں کا اظہار ہی تو ہے۔ انہوں نے عملی طور پر اس بے گھری کا احساس دلایا جس کا رشتہ عام انسانوں کی بے گھر زندگی سے ہے۔ سیاست کا گہرا شعور انہیں اسی زندگی سے حاصل ہوا جو بنیادی سہولتوں سے محروم رہی ہے ۔ ناصر کاظمی کو ان لوگوں نے بھی سنا ہے جو ادب اور شاعری سے گہرے طور پر وابستہ نہیں ہیں ۔ غلام علی اور دوسرے موسیقاروں نے اِن غزلوں کو عام انسانوں تک اس ذمہ داری کے ساتھ پہنچایا کہ جس کی امانت ہے اُسے مل جائے۔ کون ہے جس نے دل سے اٹھنے والی لہر کو محسوس نہیں کیا: ’’دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی، کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی، یاد کے بے نشاں جزیروں سے، تیری آواز آرہی ہے ابھی‘‘۔یہ اشعار اکثر لوگوں کو یاد ہیں ۔
دل سے اٹھنے والی لہر وہ بھی ہے جو ابھی اٹھی نہیں ۔اور اسے مناسب وقت کا انتظار ہے ۔یہ نہ سمجھا جائے کہ دل سے کوئی لہر اٹھی اور وہ گم ہو گئی۔ اس لہر کو دیکھنا ہو تو ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں کھڑے لوگوں کو دیکھ لیجئے۔ ان کیلئے تازہ ہوا کچھ اور ہے۔ ایک عام آدمی ’’بے نشاں جزیروں ‘‘کو نہ سمجھ سکے مگر وہ’’ تیری آواز‘‘کے ساتھ بے نشاں جزیروں کو دیکھ لیتا ہے۔ شاعری کا یہ راگ ایک دل سے کب نکلا تھا مگر اس راگ کو جس زندگی سے تقویت ملی وہ زندگی کسی ڈرائنگ روم کی نہیں تھی۔ عام زندگی کا دکھ ناصر کاظمی کا دکھ بن جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناصر کاظمی کو تقسیم اور ہجرت کے تعلق سے فطرت نے اسی مخصوص تہذیب کی بازیافت کیلئے دنیا میں بھیجا تھا۔ یہ تہذیب یادداشت کی تہذیب تھی جس پر مشکل وقت آن پڑا ہے۔ اس مشکل وقت کا اندازہ ناصر کاظمی کو بھی تھا۔ معلوم نہیں انبالہ کی سر زمین اب اس تعلق سے کیا سوچتی ہے!
ناصر کاظمی کے یہاں زندگی کا شعور اتنا زمینی ہے کہ وہ اپنی سطح سے بلند ہونا ہی نہیں چاہتا۔ناصر کاظمی کی شاعری کو بہت لوگوں نے اس زمینی سطح سے بلند کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے ایک خاص دائرہ میں رکھ کر دیکھا جا سکے مگر ہر مرتبہ ناصر کی شاعری اس گھیرے کو توڑنے میں کامیاب ہوئی۔اب صورتحال یہ ہے کہ ناصر کاظمی کا دکھ رات کے سناٹے اور تنہائی سے نکل کر عام زندگی میں کچھ اس طرح شامل ہو گیا ہے کہ جیسے اسے یہیں آنا تھا۔ اُن کی شاید ہی کوئی ایسی غزل ہو جس میں یہ زمینی سطح موجود نہ ہو۔ اپنی ذات کب تک کسی کیلئے سب سے زیادہ اہم اور بڑی ہو سکتی ہے۔ آخر کار اسے ایک بڑی آبادی کے ساتھ ہو جانا ہے۔ یہ آبادی اس ویران زندگی سے نکل کر آباد ہوئی ہے جسے لوگ ناصر کاظمی کی دنیا جانتے ہیں ۔مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اداسی سے بھری یہ دنیا زندگی اور عام زندگی کی گرماہٹوں کی تلاش میں بھٹکتی رہی ہے۔انہوں نے جب یہ کہا تھا کہ ’’کیا کہوں کس طرح سر بازار عصمتوں کے دیے بجھائے گئے‘‘ تو صورتحال اتنی خراب نہیں ہوئی تھی۔ ’’سر بازار‘‘کی ترکیب ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنائی گئی۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں جو رات کا پچھلا پہر ہے، وہ دراصل زندگی کا پہلا پہر بھی ہے۔ رات صبح سے مل رہی ہوتی ہے اور گزری ہوئی رات کا اندھیرا ناصر کے ساتھ ہو جایا کرتا تھا۔پرندے اپنی آوازوں کے ساتھ رات کے ختم ہوتے سفر کا جو اعلان کرتے ہیں ، انہی آوازوں سے ناصر کاظمی کو آتی ہوئی صبح کی خبر ملتی تھی جیسے کوئی مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والا آنکھ کھلتے ہی آسمان کی طرف دیکھنے لگے کہ کتنا وقت ہوا ہے۔
ناصر کاظمی نے پرندوں اور فطرت کی دوسری چیزوں سے وقت کو پہچانا تھا۔اچھے وقت کی تلاش میں لوگوں نے زندگیاں گزار دیں اور اچھا وقت نہیں آیا۔ ناصر کاظمی کی ایک غزل جس کی ردیف’’صبر کر صبر کر‘‘ہے اسے پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے ماں اپنے بچے سے کہہ رہی ہو اور خود کو سمجھا رہی ہو۔ یہ ٹکڑا ہماری تہذیب ہے ہم اپنے عقیدے کی روشنی میں مشکل وقت کو کچھ اسی طرح روشن کرتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر=غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی کی پیدائش کو سو سال ہو گئے۔ ان کی زندگی بلکہ ان کے عہد کی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ تقسیم اور ہجرت ہے۔ وہ ۲؍ مارچ ۱۹۷۲ء کو رخصت ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کی صورتحال کا علم جن لوگوں کو ہے ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہیں مسائل کو اصل اور بڑے سیاق میں دیکھنے کا نہ سلیقہ اور نہ شعور۔ ناصر کاظمی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔اور سب سے بڑی جو چیز سیکھی جا سکتی ہے وہ اداسی کی تہذیب اور دکھ کا شعور ہے۔ اس کی ضرورت ہمارے ادب کو بھی ہے اور صحافت کو بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ناصر کاظمی کے تعلق سے اب ایک ایسا زاویہ اختیار کیا جائے جس کی تائید خود اُن کی شاعری سے ہوتی ہے۔ انہیں ادبی صحافت کا تجربہ بھی تھا۔ انہوں نے ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر جو باتیں کیں ان کا رشتہ بھی عام زندگی کے تماشوں سے ہے۔ ایک ادیب کی حیثیت سے اخبار اور اخبار کا تراشہ ان کے لیے غیر اہم نہیں تھا۔ اُن کے اس شعر کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے:
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا