• Wed, 11 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ سب کیا ہوا،کب ہوا اور کیونکر ہوا؟

Updated: August 13, 2024, 1:41 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

آج زور زبردستی سے بھی کوئی حاکم اپنی حکومت نہیں چلا سکتا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے یہی غلطی ہوئی۔ ان کے دل میں راج کرنے کی خواہش اس بُری طرح گھر کر گئی تھی کہ انہوں نے ملک کے عوام کو بھی پس پردہ کردیا تھا۔انہوں نے راج کرنے کیلئے اپنے ہر حلیف کی کمر توڑد ی تھی۔اس کی سزا تو انہیں ملنی ہی تھی!

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سوشل میڈیا سے اتفاق کیا جائے یا نہیں ، اس کے نقصانات کو سامنے رکھا جائے یا فوائد کو، اس کے اثرورسوخ کو مکمل طور پر تسلیم کیا جائے یا جزوی طور پر، یہ بحث کا موضوع ہے جس پر ماضی میں  بحث ہوئی، حال میں  ہورہی ہے اور مستقبل میں  بھی ہوگی مگر ایک بات بالکل صاف ہے کہ اس متوازی میڈیا کی حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا، اس کے اثرورسوخ کو کم نہیں  آنکا جاسکتا۔ یہ میڈیا غیر معمولی کام کررہا ہے۔ یہ عوام میں  رابطے کا ایسا ذریعہ ہے کہ جس کے سبب تحریکات جنم لے رہی ہیں  اور تحریکات کے نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال بنگلہ دیش ہے جہاں  طلبہ کی ایسی تحریک اُٹھی کہ کافی طاقتور سمجھی جانے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت، جو پندرہ سال جاری رہی،  پلک جھپکتے برخاست ہوگئی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں  کہ اس میں  سوشل میڈیا کا طاقت کا کوئی کردار نہیں  ہے؟
  پرانی کہاوت ہے کہ انسان کی یادداشت بہت کمزور ہے۔وہ بہت جلد ان باتوں  اور حقائق کو بھول جاتا ہے،لیکن یہ سوشل میڈیا ہی کی برکت ہے کہ وہ انسان کو چیزیں  بھولنے نہیں  دیتا۔ اگر کوئی شخص کسی بات کو بھول بھی جاتا ہےتو سوشل میڈیا اسے بتا دیتا ہے کہ اس نے کب اورکیا کہا تھا۔ یہ سب باتیں  ہمیں  اس وقت یاد آئیں  جب ہم نے بنگلہ دیش کے حالات پر توجہ دی۔ بظاہر یہ عجیب بات لگتی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں  طلبہ کی زوردار تحریک چلی اور اسے چلانے میں  بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا کا بھی اہم رول رہا۔ بنگلہ دیش کا سوشل میڈیا بنگالی زبان میں  ہے، انگریزی وہاں  کے متوسط اور اعلیٰ طبقے کے افراد ہی جانتے ہیں  لیکن جب سوشل میڈیا نے یہ اطلاع دی کہ شہروں میں  طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہو گئی ہے اور اس نے ڈھاکہ کی طرف لانگ مارچ کا ارادہ کیا ہے تو سارے ملک میں  ایسی زبردست سنسنی پھیلی کہ بنگلہ دیش میں  کرفیو لگ گیااور یہ خبر پھیلنے لگی کہ اب شیخ حسینہ کا چل چلاؤ ہے۔
  یہ بھی عجب بات تھی کہ بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے لیکن اس کی معیشت بہتر ہے۔ اس کا غیر ملکی زرمبادلہ بھی اتناکمزور نہیں  ہے۔ کہتے ہیں  کہ جب حالات بگڑنے لگے، تب بھی اس کے پاس چالیس لاکھ ڈالر موجود تھے، پھر یہ سب کیوں  ہوا؟ایک اور بات جان لیجئے کہ بقول ایک راوی صرف پیٹ بھرنے سے کام نہیں  چلتا، عوام اب اپنے ذہن اور اس کی خواہش بھی پوری کرنا چاہتے ہیں ۔ آج زور زبردستی سے بھی کوئی حاکم اپنی حکومت نہیں  چلا سکتا۔ شیخ حسینہ سے یہی ایک غلطی ہوئی۔ ان کے دل میں  راج کرنے کی خواہش اس بری طرح گھر کر گئی تھی کہ انہوں  نے ملک کے عوام کو بھی پس پشت کردیا تھا۔انہوں  نے اقتدار کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنے ہر حریف کی کمر توڑی۔ مانا کہ جماعت اسلامی ان کے خلاف تھی، نظریہ کسی کا کچھ بھی ہوسکتا ہے مگراس پر اپنی ذاتی خواہشات کو نہیں  تھوپا جاسکتا۔انہوں  نے کتنوں  کو ہی پھانسی پر چڑھا دیا، انہوں  نے صرف جماعت اسلامی سے ہی نہیں ، ہر مخالف سے دشمنی کی۔ یہ باتیں  عوام کو ناگوارگزریں ۔ شیخ حسینہ کی ایک کمزوری یہ بھی تھی کہ انہوں  نے اعلیٰ  عہدے صرف اپنوں  کو دیئے۔ طلبہ نے انہیں  صرف ۴۵ ؍منٹ کی مہلت دی۔آرمی چیف کو انہوں  نے حکم دیا لیکن جب ان کے فوجیوں  نے عوام پر گولیاں  چلانے سے انکار کردیا تو ان کے پاس فرار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں  تھا۔
 ہمیں  حیرت اس وقت ضرور ہوئی لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ احتجاج کرنے والوں  نے شیخ مجیب کا مجمسہ بھی توڑ پھوڑ دیا۔  شیخ مجیب سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی، وہ بھی مخالفت برداشت نہیں  کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی فوج نے انہیں  شہید کردیا تھا، یہ کہانی طویل ہے، ہم اس وقت اس کو بیان نہیں  کرنا چاہتے۔فی الحال یہ کیفیت ہے کہ شیخ حسینہ بنگلہ دیش سے نکل چکی ہیں  اور وہاں  ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں  ایک حکومت حلف لے چکی ہے جو کہتی ہے کہ تین ماہ کے اندر الیکشن ہوجائے گا۔ ہمیں  اس کی امید نہیں  ہے کیونکہ اس کام میں چھ سات مہینے بھی لگ سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد یونس حلف برداری کے وقت آبدیدہ ہوگئے تھے کیونکہ انہیں  بھی شیخ حسینہ نے جھوٹے مقدمات چلا کر بنگلہ دیش سے باہر جانے پر مجبور کیا تھا۔ 
 بہرکیف، محمد یونس کی تاجپوشی سے قبل شیخ حسینہ کوراہِ فرار اختیار کرنی پڑی۔ اب  وہ ہندوستان میں  اس طرح ہیں  جیسے نہیں  ہیں ۔ نئی دہلی نے اُنہیں  باقاعدہ پناہ نہیں  دی ہے۔ حسینہ کی بہن ریحانہ نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ کے لئے ا ب بنگلہ دیش میں  کوئی گنجائش نہیں ۔ شیخ حسینہ کے بیٹے نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام پر اب بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، ہماری تین نسلیں  بنگلہ دیش پر قربان ہوگئیں  لیکن ہمیں  جو نتیجہ ملا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔
 شیخ حسینہ کے ہندوستان آنے کے بعدنہ مودی جی ان سے ملنے گئے نہ کوئی اخبار نویس ان سے انٹرویو کیلئے پہنچا حالانکہ یہ کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش میں  جو ہوا ہے اس میں  آئی ایس آئی کا بھی ہاتھ ہے۔ سوشل میڈیا کا اثر دنیا میں  ہر جگہ پڑ رہا ہے۔ ہم عرب دنیا میں  عرب بہار دیکھ چکے ۔ عوام اپنی رائے کا اظہار کرنے کیلئے ان ملکوں  میں  بھی باہر نکل آئے جہاں  سیاسی معاملات پر باہر نکلنا جرم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج پوری عرب دنیا میں  سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام کو اپنی رائے ظاہر کرنے میں  آسانیاں  ہورہی ہیں ۔ ساری عرب دنیا میں  شیخوں  اور شاہوں  کے خلاف جذبات امڈ رہے ہیں ۔ آپ کو بہت حیرت نہ ہونا چاہئے اگر عرب علاقے بھی عوام کے دباؤ کی زد میں  آجائیں ۔ ویسے،  یہ بھی جان لیجئے کہ اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب بھی سوشل میڈیا کا کمال ہوگا اسی لئے ہم ایک بار پھر آپ کو بتاتے ہیں  کہ قدرت نے اپنی رائے دینےکیلئے سوشل میڈیا کو اتنا طاقتور بنایا ہے  کہ اکثر ملکوں  میں  اس کا بول بالا ہے۔ یہ میڈیا یقیناً قدرت کا انعام  ہے جو ایسے دور میں  ملا ہے جب اصل میڈیا حد درجہ جانبدار ہے۔ کئی ملکوں  میں  یہی ہورہا ہے۔ وہ حکومت کا پٹھو بن گیا ہے اسی لئے ہندوستان میں  اسے گودی میڈیا کہا جانے لگا ہے۔
 اخیر میں  عرض کردیں  کہ  بنگلہ دیش میں  جو حکومت بنی ہے اس میں  طلبہ کے دو لیڈر بھی شامل ہیں  یہ ایک بہت اچھی بات ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK