• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سیاست، ادب دونوں یک جان ہوں تو؟

Updated: November 22, 2025, 2:00 PM IST | Shahid Latif | mumbai

بہت سے ملکوں میں یہ مسئلہ ہے۔ لوگ شعبۂ سیاست کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اچھے لوگ سیاست میں نہیں جائینگے تو سیاست کی اصلاح کیسے ہوگی؟ اس راہ میں دشواریاں ہیں مگر کچھ لوگوں نے الگ تاریخ لکھی ہے۔

INN
آئی این این
اگر ادیب سیاستداں  ہو یا سیاستداں  ادیب ہو تو سیاست کو فائدہ پہنچے گا یا ادب کو یا دونوں  کو؟ اِس سوال پر شاید کبھی غور نہیں  کیا گیا۔ اگر کوئی طالب علم غور کرنا چاہے تو اُسے تحقیق کی راہ پر گامزن ہوکر یہ دیکھنا ہو گا کہ ادب تخلیق کرنے والے سیاستدانوں  نے ادب اور سیاست کو ایک ہی خانے میں  رکھا یا دو الگ خانوں  میں  اورسیاست کو ادب سے  فائدہ پہنچایا یا ادب کو سیاست سے؟ اُس طالب علم کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا بحیثیت سیاستداں  اُن کے تخلیق کردہ ادب نے سیاسی تجربات و مشاہدات سے کسب فیض کیا ہے یا نہیں  کیا؟ ایک سیاستداں  ادیب عوامی زندگی کے معاملات و مسائل کا جتنا درک رکھتا ہے اُتنا عام ادیب نہیں  رکھتا۔ سیاستداں  ادیب سیاسی مقاصد کے تحت روزانہ خلقت کے رابطے میں  رہتا ہے اور اس ذریعہ سے نت نئے عوامی مسائل اُس کے علم میں  آتے رہتے ہیں ۔ اگر وہ، خود ادیب ہونے کے ناطے ادیبوں  جیسا ہی دردمند دل رکھتا ہے تو عوامی معاملات و مسائل کی آگاہی اُس کے ذہن و دل پر کتنا اثر انداز ہوتی ہے، زمینی سچائیوں  کے تجزیئے سے اُس کے ادب میں  کتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی زبان کے ادب کو کتنا ثروت مند بناتا ہے، ان تمام سوالوں  کا جواب تحقیق کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے۔
ادب اور سیاست میں  بظاہر بعد المشرقین یا بڑی خلیج دکھائی دیتی ہے مگر کیا واقعی اتنی بڑی خلیج ہے؟ وابستگانِ ادب سیاست سے فائدہ تو اُٹھانا چاہتے ہیں  مگر سیاست کے قریب نہیں  جانا چاہتے یا یہ تاثر دیتے ہیں  کہ وہ سیاست کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اس کے برخلاف سیاست اپنے مفادات کے سبب وابستگانِ ادب پر ڈورے ڈالنے سے کبھی نہیں  چوکتی چنانچہ موقع کی مناسبت سے اہل ادب کو نوازتی بھی ہے۔ دو الگ طریقوں  کے طرز عمل کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اِن میں  رشتہ ٔ  قرب و بعد یا محبت و نفرت (لوَ اینڈ ہیٹ رِلیشن شپ) پایا جاتا ہے۔ ادیب سیاستدانوں  یا سیاستداں  ادیبوں  میں  کئی بڑے نام بھی گزرے ہیں ۔ انگریزی ادب میں  تلاش کیا جائے توابراہم لنکن اور ونسٹن چرچل کا نام فوراً ذہن میں  آتا ہے۔ آخر الذکر کو ۱۹۵۳ء کا نوبیل انعام برائے ادب دیا گیا تھا۔ ذہن پر زور دیا جائے تو تھیوڈور روزویلٹ (امریکہ کے سابق صدر ) اور جیفری آرچر کے ساتھ واکلیو ہیول بھی یاد آتے ہیں ۔ ہیول، چیکوسلواکیہ کے آخری اور چیک ری پبلک کے اولین صدر بنے۔ ہندوستان کے ادیب سیاستدانوں  یا سیاستداں  ادیبوں  کو یاد کیا جائے تو اِس مضمون نگار کی ذاتی رغبت و عقیدت کے سبب جو نام بہت اہم ہیں  اُن میں  مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے نام شامل ہیں ۔ اس فہرست میں  ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا نام بھی ہے اور موجودہ عہد کے کانگریسی رُکن پارلیمان ششی تھرور کا بھی۔ اس ضمن میں  ادب کے طالب علم یہ سوال ضرور کرسکتے ہیں  اور ایسا کرنے میں  حق بجانب بھی ہوں  گے کہ فہرست سازی کے وقت تخلیقی اور غیر تخلیقی ادب کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے مگر اس مضمون کا دائرہ چونکہ محدود ہے اس لئے اس تخصیص کا متحمل نہیں ۔ علاوہ ازیں  اس مضمون میں  ابھی ایک اور شخصیت (پون کمار چاملنگ) کا نام آنا ہے اس لئے اختصار کی راہ اپنائی گئی ہے۔ 
کون ہیں  پون کمار چاملنگ؟ ان صاحب (تصویر دیکھئے بائیں  کالم میں ) پر کبھی بھی لکھا جاسکتا تھا مگر ابھی دو دِن پہلے بہار میں  نتیش کمار نے دسویں  مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف لیا ہے اس لئے پون کمار چاملنگ کو یاد کیا جارہا ہے۔ چاملنگ سکم کے وزیر اعلیٰ رہے اور اس منصب پر اب تک کی سب سے طویل مدت (۲۴؍ سال، ۱۶۵؍ دن) کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ کارنامہ تو اُن کا ہے ہی، اُن کے بارے میں  یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں  کہ ادب اور سیاست کے حوالے سے ان کے بارے میں  نہ جاننا شمال مشرق کی ایک اہم ریاست کو نظر انداز کرنے جیسا ہوگا۔
چاملنگ ادیب نہیں  شاعر ہیں  جن کا تخلص کرن ہے۔ طویل عرصے تک وزارت اعلیٰ پر رہے مگر طویل عرصے تک شاعری بھی کرتے رہے۔ چونکہ نیپالی زبان میں  لکھتے ہیں  اسلئے یہ مضمون نگار اُن کے کلام کا جائزہ لینے سے قاصر رہا مگر اُن کے بارے میں  تحقیق کرتے ہوئے علم ہوا کہ شاعری سے اُن کی وابستگی کم و بیش پچاس سال پر محیط ہے۔ اُن کی پہلی نظم ’’بیر کو پریچئے‘‘ ۱۹۶۷ء میں  منظر عام پر آئی تھی۔ اُن کے تین مجموعہ ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں ۔ اُنہوں  نے کتابوں  کی طباعت کا بھی ذمہ لیا اور بتایا جاتا ہے کہ ۵۵؍ نئے مصنفوں  کی تقریباً ۱۰۰؍ کتابیں  شائع کرچکے ہیں ۔ اُنہیں  سکم ساہتیہ پریشد نے بہترین نظم کیلئے ’’چنتن پرسکار‘‘ اور ’’بھانو پرسکار‘‘ دیا جبکہ  علاوہ کولکاتا پوئٹس فاؤنڈیشن نے لائف ٹائم ایوارڈ سے نوازا۔ 
چاملنگ کی ماحولیات سے بڑی دوستی رہی۔ اسی دوستی نے اُنہیں  وزارت اعلیٰ کے اختیارات کا فائدہ اُٹھا کر سکم کو مکمل نامیاتی ریاست بنانے کی طرف راغب کیا۔ چونکہ یہ ایک سیاستداں  کا عہد نہیں  بلکہ ’’مردِ ماحولیات‘‘ کا عزم تھا اس لئے تیرہ سال کی محنت شاقہ کے بعد ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو سکم مکمل نامیاتی ریاست کا اعزاز پانے والی ملک کی پہلی ریاست بنی۔ ایسے دور میں  جب سیاستدانوں  اور اہل اقتدار یہ سمجھتے ہیں  کہ ماحولیات کی حفاظت اور ترقیاتی پیش رفت  دونوں  بیک وقت ممکن نہیں ، ان پر ماحولیاتی تقاضوں  سے چشم پوشی کا الزام بھی لگتا رہتا ہے ، اس ایک وزیر اعلیٰ نے سکم کو ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ بھی بنایا اور ریاست کو ترقیاتی سفر پر گامزن بھی کیا۔ چاملنگ کے اقتدار کی کہانی عجب ہے۔ ۲۵؍ سال وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایوانِ اسمبلی میں  وہ اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے مگر یہ الگ قصہ ہے۔ کیا اُن کے مخلصانہ ترقیاتی سفر کی وجہ یہ تھی کہ اس سیاستداں  کے سینے میں  شاعر کا دل تھا؟ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں  بھی مگر شاعر ہونے کے فوائد سے انکار نہیں  کیا جاسکتا، بقول جگر:
راز جو سینۂ فطرت میں  نہاں  ہوتا ہے
سب سے پہلے دل شاعر پہ عیاں  ہوتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK