Inquilab Logo

ایک مرتبہ پھر نفرت کی سیاست!

Updated: April 27, 2024, 1:02 PM IST | ram puniyani | Mumbai

بی جے پی کی انتخابی مہم یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر مذہب کارڈ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد سے ان میں تیزی آگئی ہے مگر ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال ٹھوس حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

انتخابی مہم میں  قوم پرستی، فرقہ واریت اور نفرت کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوتوا وادی دو باتوں  پر ووٹروں  کا ذہن موڑنے کی کوشش کررہے ہیں ، اول، ہندوستان کا شاندار ماضی جہاں  صرف اکثریتی مذہب تھا۔ دوم، تاریخ کی تحریف، خاص طور پر قرون وسطیٰ کی جہاں  مندروں  کی تباہی اور زبردستی اسلام قبول کروانا سب سے بڑا جھوٹ رہا ہے۔ اس سے قبل بابری مسجد تنازع کو ہوا دی جاتی رہی تھی اور اب اسے گوشت کھانے اور کھلانے کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ 
 حال ہی میں  آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کا مچھلی کھاتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہوا جو ۸؍ اپریل کا ہے۔ ہندو کیلنڈر کے مطابق ساون میں  گوشت نہیں  کھایا جاتا جو ۹؍ اپریل سے شروع ہوا ہے۔ مگر ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے تیجسوی یادو پر خوب تنقیدیں  ہو رہی ہیں ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نفرت اور فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کو تیز کرنے کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے فن میں  مہارت حاصل کر چکے ہیں ۔ انہوں  نے کہا کہ گزشتہ سال آر جے ڈی لیڈر لالو پرساد اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ساون میں  گوشت پکایا اور کھایا تھا۔ پھر انہوں  نے ایک داؤ کھیلتے ہوئے ساون کے دوران گوشت کھانے کو مغلوں  کے ذریعہ مندروں  کی تباہی کے ساتھ جوڑدیا۔ انہوں  نے کہا کہ ’’جب مغلوں  نے یہاں  حملہ کیا تو وہ حکمران بادشاہ کو شکست دے کر مطمئن نہیں  تھے لہٰذا انہوں  نے مندروں  کو مسمار کردیا۔ انہوں  نے اسی عمل میں  لطف پایا۔ اسی طرح ساون میں  یہ ویڈیو دکھا کر وہ (اپوزیشن لیڈر) ملک کے مغلیہ ذہنیت کے حامل افراد کو پیغام دینا چاہتے ہیں ۔‘‘ مودی کے مطابق یہ ویڈیوز ان کے سیاسی حریفوں  نےووٹ بینک کی سیاست کیلئے اپ لوڈ کئے تھے! بادشاہوں  کی طرف سے مندروں  کی تباہی کے معاملے پر ممتاز مورخین جیسے رچرڈ ایٹن اور دیگر نے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ مندروں  کی تباہی ہندو بادشاہوں  نے بھی کی تھی۔ اسی طرح مسلمان بادشاہوں  نے ہندو مندروں  کو عطیات بھی دیئے تھے۔ کشمیر کے مورخ کلہانہ کی کلاسیک ’’راج ترنگینی‘‘ بیان کرتی ہے کہ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ راجہ ہریش دیو نے ہندو مندروں  سے سونے اور چاندی کے بنے ہندو دیوتاؤں  کی مورتیوں  کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے ایک خصوصی افسر مقرر کیا تھا جبکہ اورنگ زیب ہندو مندروں  کو چندہ دیتے تھے۔
 فرقہ وارانہ قوم پرستی کے کھیل میں  سچائی کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ ایسی فرقہ وارانہ ذہنیت پر مبنی تشریحات حقیقت سے بہت دور ہیں ۔ کانگریس نے اپنا انتخابی منشور ’’ نیائے پتر‘‘ جاری کیا جس کی بنیاد معاشرے کے کمزور طبقوں  کیلئے مثبت انصاف پر مبنی ہے مگر مودی نے فوری طور پر کہا کہ اس منشور پر پہلے کی مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اندھ بھکتوں  نے بھی یہی کہنا شروع کردیا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یوپی میں  مجرم کو جیل یا ’’جہنم‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں  نے حاجی ملنگ کا مسئلہ بھی سامنے لایا جس کے بارے میں  دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ہندوؤں  کی عبادت گاہ ملنگ گڑھ ہے۔ یہ بابا بودن گری درگاہ کی مہم کے خطوط پر ہے جس نے کرناٹک میں  بی جے پی کو تین دہائیوں  قبل طاقت بخشی تھی۔
 مودی خوف پھیلا رہے ہیں  کہ اگر اپوزیشن انڈیا اتحاد اقتدار میں  آتا ہے تو وہ دولت کو ’’دراندازوں ‘‘ میں  دوبارہ تقسیم کر دے گا۔ یہ اشارہ ہے بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں  کی طرف جنہیں  ’دوسروں ‘ کی دولت دی جائے گی۔ اسی دوران وہ کہتے ہیں  کہ کانگریس آپ کی دولت ’’زیادہ بچوں  والوں ‘‘ کو دے گی۔ ان باتوں  میں  واضح طور پر یہی کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کانگریس مسلمانوں  کو مطمئن کرنا چاہتی ہے۔
 آسام میں  نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی جانچ کے دوران ’دراندازوں  کا خوف‘ بے نقاب ہوا تھا۔ ۱۹؍ لاکھ لوگوں  میں  سے جن کے پاس کاغذات نہیں  تھے، ۱۳؍ لاکھ ہندو تھے۔ یاد رہے کہ دعویٰ یہ تھا کہ یہاں  بنگلہ دیشی دراندازوں  کے اڈے ہیں  (وزیر داخلہ امیت شاہ کے الفاظ میں  ’دیمک‘)۔
 جہاں  تک ’زیادہ بچے پیدا کرنے والوں ‘ کا تعلق ہے، تازہ ترین شرح پیدائش یہ بتاتی ہے کہ یہ مسلم خواتین میں  کم ہو رہی ہے اور فی الوقت اوسطاً ایک مسلم خواتین کی شرح پیدائش ہندوؤں  میں  قومی اوسط سے معمولی حد تک زیادہ ہے۔ اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو وہ جلد ہی کافی قریب ہو سکتے ہیں ۔
 یہ بھی کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’’قومی وسائل پر پہلا حق مسلمانوں  کا ہے۔‘‘ یہ بیان سچر کمیٹی کی رپورٹ (۲۰۰۶ء) پیش ہونے کے بعد کا تھا، جب کمیٹی نے بتایا تھا کہ مسلمانوں  کی معاشی، سماجی اور سیاسی حالت بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے جواب میں  منموہن سنگھ نے جو کہا وہ بالکل مختلف تھا۔ انہوں  نے کہا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں : زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی بنیادی ڈھانچے میں  اہم سرمایہ کاری، اور عام بنیادی ڈھانچے کی ضروری عوامی سرمایہ کاری کی ضروریات کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقات، اقلیتیں  اور خواتین اور بچوں  کیلئے فلاح و بہبود کے پروگرام۔‘‘
 ہندو دایاں  بازو سیاسی پروپیگنڈے کے مطابق حقائق کو کس طرح مسخ کرسکتا ہے، یہ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے۔ مسلمانوں  کے خلاف نفرت پھیلانا اور ان لوگوں  کی مذمت کرنا جو عقلی بنیادوں  پر مثبت اقدام کی بات کرنے کی جرأت کرتے ہیں ، تقسیم کی سیاست پر پروان چڑھنے والی اس سیاسی تشکیل کیلئے ’’منفی‘‘ ہیں ۔ 
 برسوں  کے دوران ، ہندو دائیں  بازو کے پروپیگنڈے کے آلات مضبوط ہوئے ہیں ۔ اس کے میکانزم اس حد تک پھیل چکے ہیں  کہ وہ اس معاملے میں  مذہبی اقلیتوں ، خاص طور پر مسلمانوں ، کو ویلن بنا کر پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ جمہوریت کے اصولوں  اور آئین کی اقدار پر قائم رہنے والوں  کی ’’ہندو مخالف‘‘ شبیہ بناتا ہے۔ فی الحال طاقتور میڈیا اسی پارٹی کی پشت پناہی کر رہا ہے جو ملک کی متنوع تہذیب کے بالکل خلاف ہے۔ اس کا اختتام ایک بڑی عوامی تحریک ہے یعنی آزادی کی جدوجہد۔ اب وقت آگیا ہے کہ الیکشن میں  انڈیا اتحاد کے حلقے اکثریتی سیاست کے جھوٹ کا سچا جواب دیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK