بر سر اقتدار پارٹی کے ذریعہ یہ اعلان کیا جانا ہی ایک بڑا کارنامہ ہے اور اس کا سہرا اپوزیشن کے سر تو جاتا ہی ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے راہل گاندھی کے مطالبے کو صدا بہ صحرا ثابت ہونے نہیں دیا۔
EPAPER
Updated: May 08, 2025, 3:43 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai
بر سر اقتدار پارٹی کے ذریعہ یہ اعلان کیا جانا ہی ایک بڑا کارنامہ ہے اور اس کا سہرا اپوزیشن کے سر تو جاتا ہی ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے راہل گاندھی کے مطالبے کو صدا بہ صحرا ثابت ہونے نہیں دیا۔
ان دنوں قومی سطح پر یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلامیہ موجودہ نریندر مودی کی قیادت والی قومی جمہوری حکومت نے جاری ضرور کیاہے لیکن اس اعلان پر حکومت کو مجبور کرنے کے لئے کانگریس کی قیادت والے انڈیا اتحاد اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جد وجہد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بلا شبہ اس اعلامیہ کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اس اعلان کے پسِ پردہ سیاست کی شطرنجی چال کئی دہائیوں سے چلی جارہی تھی۔ آزادی سے قبل ۱۹۳۱ء میں انگریزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کرائی تھی لیکن آزادی کے بعد سے ہی یہ مطالبہ ہونے لگا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے اور بالخصوص سماج وادی لیڈروں کے ذریعہ یہ دبائو بھی بنایا جانے لگا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں جس ذات کی جتنی آبادی ہے اس کے حساب سے قومی ترقیاتی اسکیم تیار کی جائے اور سیاست میں بھی اس کی اتنی حصہ داری طے ہونی چاہئے۔ بالخصوص رام منوہر لوہیا کا تو نعرہ ہی تھا کہ’’ جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری۔‘‘ اس کے بعد سوشلسٹ تحریک جیسے جیسے پروان چڑھی ویسے ویسے لوہیا کا نعرہ گونجنے لگا مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا۔لیکن اس نعرے کی وجہ سے ہی جب جنتا پارٹی حکومت بنی تو بی پی منڈل کی قیادت میں کمیشن کی تشکیل ہوئی اور جب وشوناتھ پرتاپ سنگھ وزیر اعظم ہوئے تو منڈل کمیشن کا نفاذ بھی ہوا۔
ریاست بہار میں کرپوری ٹھاکر کی قیادت میں پسماندہ طبقے کے لئے خصوصی رعایت کا سرکاری حکم نامہ جاری ہوا لیکن قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ بر قرار رہا۔مرکز میں کانگریس کی قیادت والی حکومت نے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان تو کیا لیکن کسی تکنیکی وجوہ سے وہ عیاں نہیں ہوئی اور ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ جاری رہا۔ حالیہ ایک دہائی میں کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے اس مطالبے کو پر اثر بنایا اور انڈیا اتحاد کی طرف سے موجودہ نریندر مودی حکومت پر یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ یہ حکومت ذات پر مبنی مردم شماری کرانا نہیں چاہتی ہے اور اس کی مخالفت بھی کر رہی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی کے اس مطالبے کا مذاق اڑایا گیا۔ دراصل سنگھ پریوار ذات پر مبنی مردم شماری کے لئے ذہنی طورپر تیار نہیں تھا اور اس لئے نریندر مودی کی حکومت بھی ایک دہائی سے ٹال مٹول کر رہی تھی۔ لیکن بہار میں جب نتیش کمار راشٹریہ جنتا دل اتحاد کی حکومت چلا رہے تھے اس وقت انہوں نے ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی اور اس کی رپورٹ کو شائع بھی کردیا۔ اس کے بعدسے ہی راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو اور بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کا مطالبہ ہونے لگا کہ قومی سطح پر بھی ذات پر مبنی شماری ہونی چاہئے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی ذات شماری کی رپورٹ شائع کرنے کی مخالفت نہیں کی البتہ قانونی پیچیدگیاں پیدا ضرور کی گئیں ۔
بہر کیف! اب جب کہ نریندر مودی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد نے یہ اعلان کردیاہے کہ آئندہ مردم شماری میں ذات شماری کو بھی یقینی بنایا جائے گا تو اب قومی اور ریاستی سطح پر اس بات کی مقابلہ آرائی ہو رہی ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا سہرا کس کے سر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت نے اعلامیہ جاری کیا ہے اور اگر وہ وقت پر مردم شماری کرا لیتی ہے اور اس کی رپورٹ جاری کر دیتی ہے تو اس کا سیاسی فائدہ حکمراں جماعت کو بھی ضرور ملے گا لیکن اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ حکومت کو یہ اعلان مجبوراً جاری کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ اسے یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر موجودہ حکومت اس کی حمایت نہیں کر ے گی تو پسماندہ طبقے کا ووٹ اس سے الگ ہو جائے گا۔کچھ لوگ اس اعلامیہ کی ٹائمنگ کو لے کر بھی تبصرہ کر رہے ہیں کہ اس وقت ہمارا ملک حسّاس دور سے گزر رہاہے اس لئے یہ اعلان کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس کے ذہن کو ایک اہم مسئلے سے منحرف کیا جاسکے۔وجہ جو بھی ہو یہ اعلان ملک کی ایک بڑی آبادی کے مفاد میں ہے اوراس دیرینہ مطالبے کا پورا ہونا بھی ضروری تھا کہ کسی بھی ملک میں سرکاری اسکیم کی منصوبہ بندی میں اس بات کا خیال رکھا جاتاہے کہ اس اسکیم سے کس آبادی کو کتنا فائدہ مل سکے گا۔
ہمارے ملک میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کیلئے پہلے سے ہی مخصوص سیٹیں ہیں اور ان کے لئےمختلف اسکیمیں بھی بنائی جاتی رہی ہیں ۔ اگر ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ سامنے آجاتی ہے تو یہ حقیقت بھی عیاں ہو جائے گی کہ کس ریاست میں کس ذات کی آبادی کتنی ہے اور اسی کے مطابق سرکاری فلاحی اسکیمیں بنائی جائیں گی اور اس کا خاطر خواہ اثر سیاست پر پڑے گا کیوں کہ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ اب ہمارے ملک کی سیاست کا محور ومرکز صرف اور صرف مذہب اور ذات ہوگیا ہے۔ہر ایک سیاسی جماعت پارلیمانی حلقے اور اسمبلی حلقوں کے لئے امیدوار طے کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ اس حلقے میں کس ذات کا کتنا ووٹ ہے اور اسی کی بنیاد پر ٹکٹ دئیے جاتے ہیں اس لئے ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد نہ صرف ملک کی سماجی تصویر بدلے گی بلکہ ذات کی سیاست کرنے والوں کی تقدیر بھی بدلے گی۔
لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ اعلامیہ حقیقت کی شکل اختیار کر سکے گا ؟کیوں کہ ۲۰۲۱ء میں ہی قومی مردم شماری ہونا تھی لیکن اب تک اس کا آغاز نہیں ہوا ہے اس لئے ذات پر مبنی مردم شماری کا آغاز اور پھر اس کے نتائج کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا غلط فہمی کے ساتھ ساتھ خوش فہمی کا شکار ہونا بھی ہے۔کیو ں کہ حالیہ برسوں میں جس طرح جارحانہ انتقامی سیاست پروان چڑھی ہے اور مختلف سرکاری اعلانات کو صرف ایک جملہ کہہ کر بر سر اقتدار جماعت نے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے ایسے وقت میں ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست کو صرف اور صرف دور سے ہی دیکھتے رہئے کہ ابھی ملک میں جس طرح کی سیاسی فضا تیار ہوئی ہے اس میں اور کتنے پر کشش اعلامیے جاری ہوں گے۔البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں حزب اختلاف کے لیڈر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جمہوریت میں اگر ایماندارانہ کوشش جاری رہتی ہے تو اس کا نتیجہ مفید بخش ہی ہوتا ہے۔ بر سر اقتدار پارٹی کے ذریعہ یہ اعلان کیا جانا ہی ایک بڑا کارنامہ ہے اور اس کا سہرا اپوزیشن کے سر تو جاتا ہی ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے راہل گاندھی کے مطالبے کو صدا بہ صحرا ثابت ہونے نہیں دیا۔