• Fri, 28 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیوں خودکشی کر رہے ہیں طلباء؟

Updated: November 28, 2025, 1:56 PM IST | shamim Tariq | mumbai

سی بی ایس ای گائڈ لائنس یا رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ ہر اسکول میں ’ریڈریسل کمیٹی‘ ہونا چاہئے اسکے باوجود کافی اسکولوں میں ایسی کمیٹیاں نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چھیڑ چھاڑ اور فقرہ بازی کیخلاف سرزنش یا مفاہمت کا اقدام نہیں کیا جاتا۔ بچوں کا معمول سمجھ کر ایسی باتوں کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بے لگام ہوتے جاتے ہیں۔

INN
آئی این این
مجھے ان تمام اساتذہ پر ناز ہے جنہوں  نے مجھے پڑھایا اور سوچنے، سمجھنے اور صحیح موقع پر صحیح بات کہنے کی ترغیب دی۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اچھے بُرے ہر شعبے میں  ہوتے ہیں  مجموعی حیثیت سے بھی میں  پیشۂ تدریس سے وابستہ تمام لوگوں  کا قدر دان ہوں  مگر وہ تمام خبریں  مجھ پر بجلی بن کر گریں  جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی سے ریوا (مدھیہ پردیش) تک اسکولوں  کا ایسا ماحول تیار ہوا ہے یا اساتذہ نے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے تنگ آکر طلباء نے خودکشی کی ہے۔ ’بدسلوکی‘ کا لفظ گراں  گزرے تو اس کو کسی دوسرے لفظ سے بدل دیجئے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ اساتذہ نے طلباء کے درد کو نہیں  سمجھا۔ ایسا نہیں  ہے کہ زبان، رنگ، نسل، سماجی حیثیت برادری کی بنیاد پر اسکولوں  کے باہر تبصرے نہیں  کئے جاتے۔ حال ہی میں  لوکل ٹرین پر سوار ہونے کے سلسلے میں  تو تو مَیں  مَیں  یا ہاتھا پائی اور ایک مراٹھی بولنے والے نوجوان کے بھیڑ کے مطالبے پر مراٹھی نہ بولنے کے سبب پیٹے جانے کے بعد خودکشی کرنے کا سنگین واقعہ پیش آیا ہے اور افسوس ہے کہ اس واقعے کے بعد نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے بجائے سیاست تیز کی جا رہی ہے۔ بی جے پی نے ’’ٹھاکرے اسمارک‘‘ پر مظاہرہ کیا ہے اور اس کی حلیف شندے سینا کے سربراہ ایکناتھ شندے نے جو ریاست ِ مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ بھی ہیں ، خودکشی کرنے والے طالب علم کے والد کو ویڈیو کانفرنس میں  ہر قسم کی امداد کا یقین دلایا ہے۔ دوسری طرف ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ زبان کی بنیاد پر لوگوں  کو تقسیم کر رہی ہے مگر تعلیم گاہوں  میں  اس قسم کا ماحول بہت شرمناک ہے۔
دہلی میں  کیا ہوا؟ دسویں  کے طالب علم نے میٹرو کے سامنے کود کر جان دے دی۔ الزام ہے کہ اساتذہ اس کو کئی مہینے سے ہراساں  کر رہے تھے۔ ریوا میں  پھانسی لگا کر جان دینے والی طالبہ نے خودکشی سے پہلے کی تحریر (سوسائڈ نوٹ) میں  لکھا کہ اساتذہ اس کو مارتے اور اس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے۔ راجستھان (کرولی) کے نویں  جماعت کے طالب علم نے مرنے سے پہلے لکھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے استاذ کو جیل بھیجا جائے۔ جے پور میں  بھی جو ہوا اس کو اسکول کی لاپروائی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام واقعات کے پس پشت مجموعی تشدد، فرقہ وارانہ سلوک یا اسی قسم کا کوئی دوسرا معاملہ نہیں  ہے بلکہ طلبہ یا طالبہ نے اس لئے خودکشی کی کہ ان کے اساتذہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔ بدسلوکی زبان سے بھی ہوتی ہے اور دوسری طرح بھی۔ ان نوجوانوں  کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ تو اساتذہ، بچوں  کے ساتھی یا تحقیق و تفتیش کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں  مگر اس قسم کا انتہائی قدم جو جوان ہوتے بچوں  نے اٹھایا وہ معمولی سرزنش کے بعد نہیں  اٹھایا جاتا۔ جے پور والے معاملے میں  ۹؍ سال کی بچی اپنے اساتذہ کو بتاتی رہی کہ دوسرے بچے اسے پریشان کرتے ہیں  مگر انہوں  نے پریشان کرنے والے طالب علموں  کی سرزنش نہیں  کی۔ سرزنش کا مطلب جسمانی تشدد یا مار پیٹ ہی نہیں  ہے۔ ان نوجوانوں  کو ان کے والدین کے حوالے بھی کیا جاسکتا تھا، ان سے ضمانت کے طور پر کوئی رقم بھی جمع کروائی جاسکتی تھی مگر ایسا کچھ نہیں  کیا گیا۔ سی بی ایس ای گائڈ لائنس یا رہنما خطوط میں  کہا گیا ہے کہ ہر اسکول میں  ’ریڈریسل کمیٹی‘ ہونا چاہئے اس کے باوجود کافی اسکولوں  میں  ایسی کمیٹیاں  نہیں  ہیں ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چھیڑ چھاڑ اور فقرہ بازی کے خلاف سرزنش یا مفاہمت کا اقدام نہیں  کیا جاتا۔ بچوں  کا معمول سمجھ کر ایسی باتوں  کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بے لگام ہوتے جاتے ہیں ۔ اکثر اساتذہ بھی غریب و پسماندہ سماج کے طلبہ کے خلاف ایسے جملے بولتے یا ایسا سلوک کرتے ہیں  کہ بے لگام بچوں  کو شہ ملتی ہے اور وہ بدتہذیبی نہیں  چھوڑتے۔
اسکولوں  میں  طلباء کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ان کے ذہن و ضمیر سے عمر بھر نہیں  جاتا۔ اور اگر بُرے جملے اور بُرے سلوک اساتذہ کے ہوں  تو زخم اور زیادہ کاری ہوتے ہیں ۔ کئی سروے رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ بچوں  اور بڑوں  کے بُرے سلوک اور جملے کے اثرات بچوں  پر عمر بھر باقی رہتے ہیں ۔ کیمپس یا اسکول کا مقصد بچوں  یا طالب علموں  کی ہمہ جہت ترقی ہے مگر کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بچوں  اور نوجوانوں  کی کیمپس میں  ہمہ جہت ترقی ہو۔ اس کیلئے طلباء کے ساتھی اور اساتذہ ہی نہیں  والدین بھی ذمہ دار ہیں ۔ اساتذہ کی تو ذمہ داری ہے ہی کہ وہ بچوں  کے دکھ درد کو سمجھیں ۔ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں  کو اسکول بھیج کر لاتعلق نہ ہوجائیں ۔ منشی پریم چند کے دو لڑکے ایک ہی ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں  رہتے تھے مگر وہ دونوں  کو الگ الگ لفافوں  میں  خط بھیجتے تھے۔ ایک ہی لفافے میں  خط بھیجنے کا یہ مطلب لیا جاسکتا تھا کہ والد کو اس لڑکے سے زیادہ محبت ہے جس کا نام لفافے کے اوپر لکھا ہوا ہے لہٰذا وہ ایسا سمجھنے کا موقع ہی نہیں  دیتے تھے۔ مَیں  لوکل پر سفر بھی کرتا ہوں  اور نوعمری سے بھی گزرا ہوں ۔ لوکل ٹرینوں  میں  پورا گینگ سفر کرتا ہے اور اکثر دروازے پر کھڑا رہتا ہے اسکولوں  میں  چند ایک آوارہ، بھوکے پیٹ یا دولت و غنڈہ گردی کے مارے طلباء داخلہ لیتے ہیں  اور سو پچاس لڑکوں  کا مستقبل بگاڑ کر اسکول کے باہر ہوجاتے ہیں ۔ کچھ لڑکے یا طلباء دباؤ میں  ایسی حرکتیں  کرتے ہیں  جو انہیں  نہیں  کرنا چاہئے تھا۔ اوپر جو واقعات لکھے ہوئے ہیں  وہ سب اسی کا نتیجہ ہیں ۔ کچھ شرپسند ایسے بھی ہوتے ہیں  جو آپ کا ریزرویشن ہوتے ہوئے آپ کو سیٹ پر نہیں  بیٹھنے دیتے۔ محکمۂ ریل کی ذمہ داری ہے کہ جس کو ریزرویشن دے اس کو صحیح جگہ بٹھانے کا بھی انتظام کرے۔ کبھی کبھی کچھ کمیٹیوں  کا ذکر آتا ہے کہ وہ مسافروں  کی راحت کیلئے بنائی گئی ہیں ۔ مگر یہ نہیں  معلوم کہ یہ کہاں  ہیں  اور کیا کرتی ہیں ؟ ابھی کچھ عرصہ پہلے بائیکلہ اسٹیشن پر میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور پولیس نے میری مدد کی تھی۔ ہر محکمے میں  اچھے لوگ ہیں  مگر ایسے لوگوں  کو فعال ہونے کی ضرورت ہے جو اچھے قانون بھی بنا یا بنوا سکیں ، تبھی ان واقعات کو لگام دی جاسکے گی جو اوپر لکھے گئے ہیں ۔ طلباء اور اساتذہ کا رشتہ انتہائی حساس رشتہ ہے۔ بیشتر اساتذہ طلباء کیساتھ اچھا ہی معاملہ کرتے ہیں  مگر انہیں  میں  کچھ کالی بھیڑیں  بھی ہیں  جو اساتذہ کو بدنام کرتی ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK