ہیروں کی صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ کووڈ وبائی مرض کے بعد قدرتی ہیروں کی فروخت میں تیزی سے کمی آئی ہے لیکن عالمی منڈی میں اب بھی قدرتی ہیروں کی بھرمار ہے۔
EPAPER
Updated: August 19, 2025, 1:21 PM IST | Jumana Shah | Mumbai
ہیروں کی صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ کووڈ وبائی مرض کے بعد قدرتی ہیروں کی فروخت میں تیزی سے کمی آئی ہے لیکن عالمی منڈی میں اب بھی قدرتی ہیروں کی بھرمار ہے۔
کیا بے روزگاری ایک پیشہ ورانہ خطرہ ہے؟ اس کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہےکیونکہ ان دنوں سورت میں ہیروں کی صنعت سے وابستہ مزدور اور ملازمین کچھ ایسے ہی بحران میں مبتلا ہیں ۔ مشینوں پر کام کرنے والوں کیلئے یہ پیشہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ جولائی میں ساگر مکوانہ نامی۲۱؍ سالہ پولشر نے نوکری چھوٹنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ ستمبرآتے آتے۳۰؍ سالہ نکنج ٹانک بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کے بعدموت کی آغوش میں چلاگیا ۔ اس کے پسماندگان میں ۲؍ بچے اور ایک بیوہ ہے۔ مئی میں ، ہیرے کی صنعت سے وابستہ ۴۵؍ سالہ کپل نیماوت نامی ایک مزدورکی موت ہوگئی ۔ اس کے ۲؍بچے ابھی اسکول میں ہیں ۔ ڈائمنڈ ورکرز یونین آف گجرات(ڈی ڈبلیو یو جی) نے گزشتہ تین سال میں ۱۰۰؍ سے زیادہ اموات کی اطلاع دی ہے جن میں صرف گزشتہ سال خودکشی کے ۵۵؍ وا قعات شامل ہیں ۔
سوال یہ ہےکہ ہم اس حالت میں کیسے پہنچے؟ ہیروں کی صنعت شدید بحران کا شکار ہے۔ کووڈ وبائی مرض کے بعد قدرتی ہیروں کی فروخت میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔ لیباریٹری سے تیار کئے جانے والے ہیرے (ایل جی ڈی) جو کہ ۷۰؍ فیصد سستے ہوتےہیں ، — زیادہ مقبول ہو گئے ہیں ، اس کے علاوہ عالمی منڈی میں اب بھی قدرتی ہیروں کی بھرمار ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ، مینوفیکچررز کو پیداوار میں زبردست کمی کرنی پڑی ہے۔
معاشی بحران کے وقت مسائل گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ آج سورت کےکم وبیش ۸؍ لاکھ تاجر پریشان ہیں جو اکثر سوراشٹر اور دیگر جگہوں سے نقل مکانی کرتے ہیں جو گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر کے تقریباً ۱ء۲؍ ملین کارکنوں کا ایک بڑا حصہ ہیں ۔ سورت کی پانچ دہائیوں پرانی ڈائمنڈ پالشنگ انڈسٹری کی تاریخ میں شاید پہلی بار۵۰۰؍ مزدوروں نے مارچ میں ۲؍ روزہ ہڑتال کی تھی۔ ان کامطالبہ اجرت میں ۳۰؍ فیصد اضافے کا تھا۔ مئی میں ، گجرات حکومت نے صنعت کے لئے ایک امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا جو در اصل اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ صنعت واقعی مشکل میں تھی۔ تصدیق شدہ ڈائمنڈ پالش کرنے والوں کے بچوں کی ۱۳۵۰۰؍ روپے کی اسکول فیس معاف کر دی گئی، ساتھ ہی چھوٹے یونٹس کے لئے بجلی اور سود پر سبسڈی بھی لیکن ڈی ڈبلیو یو جی کے نائب صدر بھاویش ٹانک نے اسے فضول قرار دیا۔ ان کے مطابق’’ زیادہ تر کمپنیاں غیر رسمی کنٹریکٹ کی بنیاد پر کاریگروں کو ملازمت دیتی ہیں ۔ اس لئے یہ ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا کہ آپ ایک حقیقی ملازم ہیں ۔‘‘
فیس پیکیج سےعملی طور پر نوجوان، غیر شادی شدہ مزدور اور ملازمین فائدہ نہیں اٹھا پاتےکیونکہ اس میں انہیں کوَر نہیں کیا جاتا ۔ یہاں یہ فرض کر لیا جاتا ہےکہ ان پرکوئی منحصر نہیں ہے۔ اس تعلق سے ٹانک کہتے ہیں ’’غیر شادی شدہ پالشر پر چھوٹے بہن بھائیوں اور بوڑھے والدین کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہیں ملنے والی امداد کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی زیرکفالت بہن بھائی ہیں جو اسکول جا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ، چھوٹی اکائیوں کے لئے مراعات سب سے زیادہ متاثر ہونے والے کاریگروں تک نہیں پہنچ پاتی ہیں کیونکہ صنعت سمجھ چکی ہے کہ ہیروں کی سپلائی کم کی جانی چاہئے۔ اب وہ سرکاری فائدہ تو اٹھا لیں گے لیکن کام کے اوقات یا اجرت میں اضافہ نہیں کریں گے۔‘‘
بحران ایسی شکل اختیار کرچکا ہے کہ کاریگروں کا زندہ رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا کم از کم ایک چوتھائی تربیت یافتہ کاریگر سوراشٹر کے امریلی اور بھاؤ نگر اضلاع میں اپنے گائوں لوٹ گئے ہیں جہاں نرمدا کے پانی کی آمد سے ان کے کھیت پھر لہلہا اٹھے ہیں ۔ یعنی وہ کاشتکاری کو بطورپیشہ از سرنو اپنا سکتے ہیں ، لیکن، ٹانک کہتے ہیں ’’آب و ہوا کے خطرات اور پیداوار کی مارکیٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معمولی کسانوں کیلئے کاشتکاری کو خطرناک بنا دیتی ہے۔‘‘
ان کے لئے پھر کون سا اضافی کام یا متبادل ہو؟ کیا لیبارٹری سے تیار کردہ ہیروں کی صنعت میں ہی انہیں چھوٹا موٹا کام دے دیاجائے؟ ایل جی ڈی کونسل آف انڈیا کے صدر ششی کانت شاہ کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کے تقریباً ہر دوسرے گاؤں میں ایک درجن یا اس سے زیادہ ’گھنٹیاں ‘ (ہیرے پالش کرنے والے پہیے) ہیں ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہیروں کے تاجر وہاں تربیت یافتہ عملہ رکھ کر پیداواری لاگت کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اگرچہ اب تقریباً ہر برآمد کنندہ اور تاجر تجربہ گاہ میں تیار کردہ ہیروں کا کاروبار کرتے ہیں ، شاہ کہتے ہیں کہ کچھ اسے قبول کرتے ہیں اور زیادہ تر نہیں مانتے۔ ایل جی ڈی کونسل کے مطابق صرف سورت میں ۱۴؍ سے۱۵؍ ہزار ایل جی ڈی مشینیں ہیں ۔ ممبئی میں ایسی ۴۰۰؍ مشینیں ہیں ،۲۰۰؍ جے پور میں ، دہلی میں ۲۵؍ جبکہ حیدرآباد میں ۲۰۰؍ مشینیں لگانے کا منصوبہ ہے ۔ غیر ملکی تعلیم یافتہ نوجوان نسل، نئی کمپنیوں اور مختلف برانڈ ناموں کے ساتھ، لیباریٹری سے تیار کردہ ہیروں کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن۳۰؍ سے زیادہ بڑے ہیروں کے تاجروں کے پاس قدرتی ہیروں کا ذخیرہ ہے جس کی مالیت ۲۰۰؍کروڑ روپے ہے۔ اس لئے وہ روایتی نظام کا جارحانہ انداز میں دفاع کرتے ہیں ۔
قدرتی ہیروں کی مارکیٹنگ کیلئے وسائل کو لیبارٹری میں تیار کئے جانے والے ہیروں کی تشہیر کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک مہم ہے جس کے کچھ نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ ایک سست عالمی منڈی میں ، ہندوستان نے قدرتی ہیروں کی دوسری بڑی منزل کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن شاہ کا خیال ہے کہ مستقبل لیبارٹری سے تیار کیے گئے ہیروں میں ہے۔ بقا تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے اہم ہے، چاہے وہ تاجر ہوں یا صنعت کار۔
(بشکریہ انڈیا ٹوڈے)