• Sun, 28 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا نئے سال (۲۰۲۶ء) میں کچھ بدلے گا؟

Updated: December 28, 2025, 2:02 PM IST | Aakar Patel | mumbai

سال رفتہ (۲۰۲۵ء) میں راجستھان آٹھویں ریاست تھی جہاں بین المذاہب شادی پر بَین لگایا گیا۔ بی جے پی آئیڈیالوجی کے نفاذ کیلئے سرگرم ہے اور ایسا لگتا ہے نئے سال میں بھی یہی ہوگا۔

INN
آئی این این
نیت  بے حسی کی حلیف ہے۔ نیت زمین سے جڑی رہنا چاہتی ہے، بے حسی سمجھوتہ کرتی ہے۔ نیت کیا ہے؟ بی جے پی کا یہ عزم کہ اسے اپنی آئیڈیالوجی کو نافذ کرنا ہے۔ اس کے پاس حکومت ہے اور ملک کے عوام کی ایک خاص تعداد اس کی ہمنوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں  جو اس آئیڈیالوجی کے نفاذ کے تعلق سے بے قرار ہیں ۔ ہرچند کہ ان لوگوں  کی تعداد کم ہے۔ یہ مٹھی بھر ہیں  جس کا ثبوت انتخابات سے ملتا ہے مگر  نیت کو انہوں  نے اپنی طاقت بنا لیا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس آئیڈیالوجی کو نہیں  مانتے، وہ زیادہ تعداد میں  ہیں  یعنی اکثریت میں  ہیں  مگر بے حسی ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ 
بے حسی ان معنوں  میں  کہ جو کچھ بھی ’’نیت‘‘ کے بل بوتے پر کیا جاتا ہے یہ لوگ اُس کے خلاف مزاحمت نہیں  کرتے۔ ان میں  ایسے لوگ بھی ہیں  جو حقیقت جانتے ہیں  اور خطرات سے بھی آگاہ ہیں  مگر اُن کا خیال ہے کہ حکومت کے پیدا کردہ مسائل کو آئینی اداروں  کے ذریعہ حل کیا جائے۔ ان کے خیال میں ، یہ اپوزیشن، پارلیمنٹ اور عدالتی نظام کا فرض ہے کہ پیدا شدہ مسائل کو ختم کریں  مگر ان اداروں  یعنی اپوزیشن، پارلیمنٹ اور عدالتی نظام کے ذریعہ مسائل حل نہیں  ہوپارہے ہیں ۔ نئے سال میں  بھی کوئی حل نہیں  نکل سکتا۔ 
جو لوگ اس نوع کی سیاست پر غور نہیں  کرتے اُن کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بی جے پی کی آئیڈیالوجی کیا ہے۔ کون سے نظریات ہیں  جنہیں  وہ نافذ کرنا چاہتی ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ پارٹی ملک کے عوام کی بیشتر تعداد کو اور اُن کے ساتھ مسلمانوں  اور عیسائیوں  کو تختۂ مشق بنانا چاہتی ہے۔ آئیڈیالوجی کا کوئی بڑا مقصد نہیں  ہے۔ اس کا کوئی فائدہ بھی کسی کو حاصل نہیں  ہوسکتا۔ بس اتنا ہے کہ اگر آئیڈیالوجی کا مکمل نفاذ ممکن ہوا تو  اس کے ذریعہ عوام کو ہانکنے کا موقع مل جائیگا۔ اس کے لیڈران نے آئیڈیالوجی کے نفاذ کیلئے منافرت انگیزی کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ منافرت پھیلانے کاجنون تھکتا نہیں  ہے۔ اسے ہر بار کوئی نیا محاذ مل جاتا ہے جس کے سبب اسے نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ نئے سال میں  بھی اس جنون کے مظاہر دیکھنے کو مل سکتے ہیں ، خدانخواستہ۔
۲۰۲۶ء کے بارے میں  مذکورہ بات اتنے وثوق سے اس لئے کہی جارہی ہے کہ سال رفتہ (۲۰۲۵ء) کو ہم نے دیکھا کہ کس طرح بی جے پی اُسی راستے پر رہی جو اس نے ایک دہائی پہلے اختیار کیا تھا۔ راجستھان، ہندو ؤں  اور مسلمانوں  کے درمیان شادی کو بین کرنے والی آٹھویں  ریاست بنی۔ یہ تین ماہ پہلے، ستمبر میں ، ہوا۔ وہ ستمبر ہی کا مہینہ تھا (۱۹۳۵ء میں ) جب جرمنی نے یہودیوں  اور عیسائیوں  کے درمیان شادی پر پابندی عائد کی تھی۔وہاں  اس کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ ایسی شادیاں  ’’نسلی تخریب‘‘ کا سبب بنتی ہیں ۔ یہ جواز سن کر دُنیا دہل گئی تھی۔ ہمارے ملک میں  ہندومسلم  شادیوں  کو بین کرتے وقت ایسا کوئی جواز نہیں  پیش کیا گیا بلکہ نہایت شاطرانہ طریقے سے قانون کے ذریعہ یہ کام کیا گیا۔ قانون کے ذریعہ سرکاری افسر کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ شادی کرنے والوں  کا مقصد دیکھیں  کہ آیا تبدیلیٔ مذہب مقصد ہے یا کچھ اور۔ قانون میں  جو دیگر شرائط رکھی گئی ہیں  وہ وہی ہیں  جو گزشتہ برسوں  میں  بی جے پی کے ذریعہ متعارف کرائے گئے دیگر قوانین میں  پائی جاتی ہیں ۔
ابتداء میں  مَیں  نے ’’نیت‘‘ کی بات کی ہے۔ سب سے پہلے نیت کا اظہار ۲۰۱۸ء میں  اتراکھنڈ میں  کیا گیا تھا جہاں  اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ منظور کیا گیا۔ اس قانون میں  ایک ندرت تھی۔ وہ یہ کہ اس کے ذریعہ ہندوسے مسلم کی یا مسلم سے ہندو کی شادی کو روکنا تھا مگر اسے قابل تعزیر بنا دیا گیااور یہ استثنیٰ رکھا گیا کہ جو لوگ اپنے ’’آبائی مذہب‘‘ میں  لوٹنا چاہتے ہیں  اُن پر اس قانون کا اطلاق نہیں  ہوگا۔ آبائی مذہب یعنی کیا اس کی تشریح نہیں  کی گئی مگر، مَیں  سمجھتا ہوں  کہ، قارئین کو اس کا معنی سمجھانا ضروری نہیں  ہے۔
یہ قانون وضع کیا گیا، منظور کیا گیا اور اس کا نفاذ بھی ہوگیا۔ عدالت نے اسے روکا نہیں ۔ ’’نیت‘‘ کا جادو چل گیا اور اس کو نظیر سمجھتے ہوئے دیگر ریاستو ں نے بھی اسی طرح کے قوانین بنا لئے۔ ہماچل پردیش نے ۲۰۱۹ء میں ، اترپردیش نے ۲۰۲۰ء میں ، مدھریہ پردیش اور گجرا ت نے ۲۰۲۱ء میں  اور کرناٹک نے ۲۰۲۲ء میں ۔  کرناٹک میں  حکومت بدل چکی ہے مگر قانون نہیں  بدلا۔ نیت بے حسی پر حاوی ہے۔ راجستھان اس فہرست کی آٹھویں  ریاست بنا اور      یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آخری ریاست ثابت نہیں  ہوگا۔
باخبر قارئین اس حقیقت کو پہلے بھی محسوس کرتے رہے ہوں  گے کہ چند ہی سال میں  بین المذاہب شادی کس طرح ممنوع ہوئی اور اسے روکنے یا بدلنے کی کوشش کسی جانب سے نہیں  ہوئی۔ یہی معاملہ بڑے جانور کے ذبیحہ اور گوشت کا ہوا۔ بی جے پی ۲۰۱۴ء میں  اقتدار میں  آئی اور ۲۰۱۵ء میں  بیف رکھنا قابل سزا جرم قرار پایا۔ مہاراشٹر اور ہریانہ یہ قانون بنانے والی اولین ریاستیں  تھیں ۔ یہ قانون اور اس کے اطراف پھیلے ہوئے بیانئے نے ایک نئے قسم کے تشدد کو جنم دیا۔ وہ ہے بیف کے نام پر لنچنگ (ہجومی تشدد)۔ بحیثیت صحافی مَیں  نے دہائیوں  میں  بیف لنچنگ کی اصطلاح نہیں  سنی تھی مگر اب یہ عام بات ہوگئی ہے اور قانون بھی نافذ ہے۔ وہ بھی عام بات ہے۔اس کے خلاف بیداری ہونی چاہئے تھی مگر بے حسی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آئیڈیالوجی کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے اور ’’نیت‘‘ کے مطابق کام ہورہا ہے۔ریاست ِ گجرات جو کل تک لیباریٹری تھی اب فیکٹری بن گئی ہے۔ یہاں  ۲۰۱۷ء میں  مویشیوں  کے ذبیحہ کو جرم قرار دیا گیا اور سزا عمر قید رکھی گئی۔ جو لوگ اربوں  روپے چرا لیتے ہیں  اُن کیلئے عمر قید تجویز نہیں  کی جاتی مگر مویشیوں  کے ذبیحہ کے مرتکب کیلئے یہی سزا رکھی گئی۔ چند ہفتوں  پہلے یو پی حکومت نے دادری کے محمد اخلاق کے مجرموں  کا کیس واپس لینا چاہا۔فاضل جج نے بڑی ہمت دکھائی اور انکار کردیا مگر ایسی ہمت کا مظاہرہ کم کم ہی ہوتا ہے، عموماً بے حسی ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ بے حسی کی وجہ سے بہت سے رجحانات، بہت سے اقدامات معمول بنتے جارہے ہیں ۔ ’’نیت‘‘ اپنی جگہ برقرار ہے اور رہے گی کیونکہ اسے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے مگر بے حسی ہے جو اسے موقع فراہم کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK