سپریم کورٹ پیر کو اراولی پہاڑیوں اور رینج سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرے گا۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں اس معاملے میں ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 4:02 PM IST | New Delhi
سپریم کورٹ پیر کو اراولی پہاڑیوں اور رینج سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرے گا۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں اس معاملے میں ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔
سپریم کورٹ پیر کو اراولی پہاڑیوں اور رینج سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرے گا۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں اس معاملے میں ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا سوریہ کانت کی سربراہی اور جسٹس جے کے مہیشوری اور اے جی مسیح پر مشتمل بنچ `’ان ری: ڈیفینیشن آف اراولی ہلز اینڈ رینجز اینڈ انسلری ایشوز‘ ٹائٹل معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سنوائی کرے گی۔ واضح رہے کہ اراولی سلسلہ چار ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ زمین کی قدیم ترین ارضیاتی تشکیلات میں سے ایک ہے۔ یہ ہندوستان کے سب سے پرانے فولڈ پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ یہ جنگلی حیات، نباتات اور حیوانات سے مالا مال ہے اور پورے شمالی ہندوستان کی آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع پر نمایاں اثر ڈالتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ ایس آئی آر کے بعد یوپی میں۲؍ کروڑ ۸۹؍ لاکھ ووٹروں کے نام حذف ہونا طے‘‘
سپریم کورٹ نے اراولی رینج کی ازسرنو وضاحت کرنے کیلئےمرکز کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ اس سے ملک بھر میں ایک نیا سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے دہلی سے گجرات تک۶۵۰؍ کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلے میں بلا روک ٹوک کان کنی سے بڑا ماحولیاتی نقصان ہوگا۔ شمالی ہندوستان کی مختلف ریاستوں پر مشتمل اراولی رینج کی نئی تعریف کے منفی اثرات کے بارے میں بحث جاری ہے۔ ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ اس نئے نظام کو لاگو کرنے سے اراولی رینج کا تحفظ کمزور ہو سکتا ہے جس کے دور رس نتائج نہ صرف دہلی، ہریانہ، راجستھان اور گجرات بلکہ پورے ہمالیائی خطے میں محسوس کئے جا سکیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی فساد: میکانکی تفتیش، غیر معتبر بیانات، ۵؍ مسلم مقدمے سے بری
نومبر میں سپریم کورٹ نے۱۳؍ اکتوبر کو اراولی رینج کی ازسرنو وضاحت کیلئے ایک تجویز کو منظوری دی۔ اس تعریف کے تحت ارد گرد کی زمین سے صرف ۱۰۰؍میٹر یا اس سے اوپر کی زمینی شکلوں کو اراولی کی پہاڑیاں مانا جائے گا۔ مزید برآں اگر دو یا زیادہ پہاڑیاں ایک دوسرے سے۵۰۰؍ میٹر کے اندر ہیں، تو انہیں بھی اراولی سلسلے کا حصہ سمجھا جائے گا۔ یہ تعریف مرکزی حکومت کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر طے کی گئی تھی۔ تاہم، ماہرین ماحولیات کو تشویش ہے کہ یہ نئی تعریف ۱۰۰؍میٹر سے کم اونچائی والی زیادہ تر پہاڑیوں کو محفوظ زون سے خارج کر دے گی۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان علاقوں میں کان کنی، تعمیرات اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اسی تشویش کے پیش نظر ملک بھر میں ماہرین ماحولیات نے ’’اراولی بچاؤ ‘‘مہم شروع کر دی ہے۔ اس تنازع کے درمیان ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی مرکزی وزارت نے اس ہفتے کے شروع میں کہا کہ اس نے ریاستوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اراولی میں کان کنی کی کسی بھی نئی لیز پر مکمل طور پر پابندی عائد کریں۔