کوئی کچھ بھی کہے، دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مصنوعی ذہانت، فطری ذہانت کو پچھاڑ سکتی ہے۔ اسلئے کہ جو مصنوعی ہے وہ انسان کی تخلیق ہے اور جو فطری ہے انسان کے خالق کی تخلیق ہے۔ اس مضمون میں ایک ایسے نوجوان کے بارے میں بھی پڑھئے جو ۴۰۰؍ زبانیں جانتا ہے۔
EPAPER
Updated: August 23, 2025, 1:31 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
کوئی کچھ بھی کہے، دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مصنوعی ذہانت، فطری ذہانت کو پچھاڑ سکتی ہے۔ اسلئے کہ جو مصنوعی ہے وہ انسان کی تخلیق ہے اور جو فطری ہے انسان کے خالق کی تخلیق ہے۔ اس مضمون میں ایک ایسے نوجوان کے بارے میں بھی پڑھئے جو ۴۰۰؍ زبانیں جانتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا شور اور غلغلہ اس وقت چاروں طرف ہے اور ہر شخص اس کے بارے میں پڑھ رہا ہے، سن رہا ہے، بول رہا ہے، سوچ رہا ہے، محظوظ ہورہا ہے، اس کے پیدا کردہ امکانات پر غور کررہا ہے اور ظاہر کئے گئے خدشات سے خوف کھا رہا ہے۔ چونکہ ا س کے نت نئے کمالات سے تجارتی مقاصد وابستہ کرلئے گئے ہیں اس لئے آئندہ کئی سال کے منافع کا اندازہ بھی لگا لیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوران فطری ذہانت کو فراموش کردیا گیا ہے۔ پوچھئے کہ کیا مصنوعی ذہانت کو سمجھنے کی کوشش سے پہلے فطری ذہانت کو مکمل طور پر سمجھ لیا گیا؟ جواب شاید ہی ملے۔ اُن ماہرین کی بات الگ ہے جو فطری ذہانت کو سمجھنے کی کوشش کو آج بھی نامکمل مانتے ہیں مگر بہت سوں کی توجہ اب صرف مصنوعی ذہانت پر مرکوز ہے۔ یہی ہوگا کیونکہ دُنیا کا طور یہی ہے، وہ یہی کرتی آئی ہے۔ فطری ذہانت میں پیسے کا سوال نہیں ہے یا کم ہے۔ مصنوعی ذہانت میں بہت ہے۔ کتنا ہے اس کیلئے یہ جان لینا کافی ہوگا کہ اسی سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یو این ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۳۳ء میں مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ ۴ء۸؍ ٹریلین (کھرب) ڈالر ہوگی جو دس سال پہلے (۲۰۲۳ء میں ) ۱۸۹؍ بلین (ارب) ڈالر تھی۔
یہ چند باتیں محض تمہید کے طور پر آگئی ہیں ورنہ اس مضمون کا موضوع مصنوعی ذہانت نہیں ، فطری ذہانت ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تاریخ کو کتنا بھی پہلے سے جوڑیں ۷۵؍ سال سے زیادہ نہیں ہوئے ہیں جبکہ فطری ذہانت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہےکہ کب سے ہے اور فرش کے نیچے، فرش کے اوپر حتیٰ کہ عرش تک اس کی فتوحات کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ دُنیا کی اب تک کی تمام ایجادات فطری ذہانت ہی کا نتیجہ اور تحفہ ہیں ۔ خود مصنوعی ذہانت فطری ذہانت کی پیدا کردہ ہے۔ دُنیا کے پہلے انسان سے لے کر موجودہ انسان تک فطری ذہانت ہی دُنیا کو مستفید کرتی آئی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ اس دوران اگر مصنوعی ذہانت نے فطری ذہانت پر حاوی ہونے یا آپے سے باہر ہونے کی کوشش کی تو اس کا علاج بھی فطری ذہانت ہی کرے گی اور یہ طے ہے کیونکہ جو چیز فطرت سے ہم آہنگ ہوتی ہے، باقی رہتی ہے اور جو ہم آہنگ نہیں ہوتی یا انحراف کرتی ہے، فنا ہوجاتی ہے۔ قدرت کی عطا کردہ ذہانت یا یوں کہہ لیں کہ انسانی دماغ برسہا برس کے مطالعہ اور مشاہدہ کے باوصف آج بھی پوری طرح سمجھا نہیں جاسکا ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ بعض لوگوں کا حافظہ بہت مضبوط ہوتا ہے، بعض کا نہیں ہوتا۔ بعض کو پرانی باتیں یاد رہتی ہیں ، نئی یاد نہیں رہتیں ۔ بعض کو نئی یاد رہتی ہیں پرانی یاد نہیں رہتیں ۔ بعض دور اندیش ہوتے ہیں بعض نہیں ہوتے۔ بعض تیز فہم ہوتے ہیں اور بعض اس صلاحیت سے محروم رہتے ہیں ۔ بعض کی ذہانت کتابی ہوتی ہے بعض کی عملی۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ذہانت اور حافظہ ایک نہیں ہیں ۔ جو ذہین ہے ضروری نہیں کہ اس کا حافظہ اچھا ہو اور جس کا حافظہ اچھا ہے ضروری نہیں کہ وہ ذہین ہو۔ یہ بھی پیش نظر رکھئے کہ بعض لوگ تحصیل علم میں بودے یا غبی قرار پاتے ہیں مگر دیگر اُمور میں تیز فہم اور ذکی ہوتے ہیں اور بلا کی ذہانت کا ثبوت دے جاتے ہیں ۔ بعضوں کی تعلیمی اور علمی ذہانت اُن کے کمالات کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے اور بعض اپنی ذہانت کی کسر محنت کے ذریعہ پوری کرکے نام کماتے ہیں کہ محنت کی ضرورت کا اشارہ بھی تو ذہانت ہی سے ملتا ہے۔ اسی لئے ایک مغربی مفکر کا یہ قول دل کو چھو‘ لیتا ہے کہ ’’غیر معمولی ذہانت (عبقریت، جینئس) انسان کی وہ صلاحیت ہے جسے حوصلہ بام عروج پر پہنچاتا ہے۔‘‘
اس پس منظر میں چنئی کے ۱۹؍ سالہ طالب علم محمود اکرم (تصویر دیکھئے نیچے) کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا جس کی ذہانت کو مغربی ملکوں تک نے تسلیم کیا ہے۔ اس کا ثبوت وہ انعامات و اعزازات ہیں جو اتنی کم عمری میں اُسے حاصل ہوگئے ہیں ۔ اُس کی حیرت انگیز صلاحیت ذہانت کی پیداوار تو ہے مگر ا س میں رغبت و محنت کا بڑا دخل ہے۔ اگر آپ اس کے بارے میں پڑھ چکے ہیں تو اسے قند مکرر کے طور پرملاحظہ کرلیجئے کہ محمود اکرم کے نام پر دُنیا کی سب سے زیادہ ۴۰۰؍ زبانیں لکھنے، پڑھنے اور ٹائپ کرنے کا ریکارڈ ہے۔ وہ ۴۶؍ زبانیں روانی سے بول سکتا ہے۔۸؍ سال کی عمر میں اسے پہلے سب سے کم عمر کثیر لسانی (ینگیسٹ ملٹی لنگوئل) ٹائپسٹ کا ایوارڈ ملا تھا۔ جب وہ ۱۰؍ سال کا ہوا تب دوسرا عالمی اعزاز اُس کا انتظار کررہا تھا۔ یہ اعزاز تب حاصل ہوا جب اُس نے محض ایک گھنٹے میں ہندوستانی قومی ترانہ ۲۰؍ زبانوں میں لکھ دیا۔ جرمنی میں اُسے تیسرا عالمی اعزاز (جرمنی ینگ ٹیلنٹ ایوارڈ) دیا گیا۔ اُسے اِس ایوارڈ کا حقدار تب قرار دیا گیا جب اُس نے صرف تین منٹ میں زیادہ سے زیادہ زبانوں کا ایک ایک جملہ لکھنے کا مقابلہ جیت لیا۔
یہ بھی پڑھئے: سائبر فراڈ: حکومت کا انتباہ اور ہماری ذمہ داریاں
سوچئے تو یقین نہیں آتا کہ اتنی کم عمری میں اتنی زبانوں پر قدرت کیسے ہوسکتی ہے! مگر یہ واقعہ ہے۔ انٹرنیٹ پر محمود اکرم کو سرچ کیجئے اور دشواری ہو تو اس کے نام کے آگے Polyglotبھی لکھ دیجئے، محمود میاں سے ملاقات ہوجائیگی، اُن کی تصویر تو آپ نے دیکھ ہی لی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انگریزی میں ایسے شخص کو، جو کثیر اللسان ( کئی زبانوں کا جاننے والا ہو) پالی گلاٹ کہتے ہیں ۔
وہ چاہے کسی بھی ملک کا شہری ہو، عام طور پر تین چار زبانیں جانتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ محمود اکرم کو زیادہ سے زیادہ زبانیں جاننے کا شوق اُس کے والد (شبلی موزِ پر ّین) سے وراثت میں ملا جو خود بھی ۱۶؍ زبانیں جانتے ہیں ۔اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ محمود کی اپنی محنت کا صلہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ذہانت سے زیادہ اہمیت رغبت اور محنت کی ہے۔ وفورِ شوق و جذبہ کسی انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے جو پیدا بھی کی جاسکتی ہے، ضروری نہیں کہ قدرتی طور پر ودیعت ہوئی ہو۔ ایسا انسان بڑے سے بڑا معرکہ سر کرسکتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ کوئی روبوٹ یا سپر کمپیوٹر محمود اکرم کے برابر زبانیں جانتا ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اتنی کم عمری میں اتنے کمالات ممکن ہیں ، ناممکن نہیں ۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔