Inquilab Logo Happiest Places to Work

سائبر فراڈ: حکومت کا انتباہ اور ہماری ذمہ داریاں

Updated: August 22, 2025, 1:27 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ابھی تک کے انکشافات میں ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی پولیس افسر یا بینک افسر کو گرفتار کیا گیا ہو۔ کیا مقامی افسروں کی سرپرستی اور تائید و تعاون کے بغیر ایسا کوئی فراڈ کیا جاسکتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وزارت داخلہ کی رپورٹ میں  انکشاف ہوا تھا کہ جنوری تا مئی ۲۰۲۵ء تک ملک میں  ۷؍ ہزار کروڑ کا سائبر فراڈ ہوا تھا۔ اب ایک اخباری اطلاع یا خبر کے مطابق ممبئی کے پولیس کمشنر دیوین بھارتی جی نے اخبار نویسوں  کو بتایا کہ سائبر فراڈ کے روزانہ دو ہزار کال آتے ہیں  اور ممبئی پولیس تقریباً ۶۰؍ لاکھ روپے روز منجمد (فریز) کر رہی ہے۔ پولیس کمشنر نے یہ بھی کہا کہ ۲۴X۷؍ خصوصی ٹیم فراڈ روکنے کے کام میں  لگی ہوئی ہے۔ انہوں  نے یہ بھی کہا کہ ممبئی کے باشندے فراڈ کے ۲؍ گھنٹے کے اندر ۱۹۳۰؍ پر اپنی شکایت درج کرائیں ۔
 ہمیں  ممبئی کے پولیس کمشنر صاحب کی باتوں  سے اتفاق ہے ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کے حق میں  ہیں ۔ ہماری ہمدردی کسی بھی گھس پیٹھئے، دہشت گرد یا کسی قسم کا فراڈ کرنے والے کے ساتھ نہیں  ہے، البتہ کچھ مشاہدات و تجربات ہیں  جن کا یہاں  پیش کیا جانا ضروری ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں  گزرا اس ملک میں  سی آئی اے کا ہوّا تھا، اس کے بعد آئی ایس آئی کا شہرہ شروع ہوا۔ ’داعش‘ سے تعلق کی بنیاد پر بھی کچھ لوگ گرفتار کئے گئے۔ اب سائبر فراڈ کا معاملہ سامنے ہے۔
 پولیس اور وزارت داخلہ نے جو اقدامات کئے ہیں  یا سائبر فراڈ کے سلسلے میں  جو اقدام کرنے کا مشورہ دیا ہے اس کو قبول کرنے اور ان کی قدر کرنے کے باوجود یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی بوڑھے شخص کا چیک پر دستخط کرتے ہوئے ہاتھ کانپ جائے تو چیک واپس کر دیا جاتا ہے لیکن اگر کسی ایسے شخص کو اس کی بیٹی بیٹے پوتی پوتے کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر چیک لکھوائی جائے یا آر ٹی جی ایس میں  جمع کیا جائے تو وہ چیک کیسے کیش ہوجاتا ہے؟ اس میں  فراڈ کرنے والوں  کے بڑے پیمانے پر ملوث ہونے کے امکان اور انکشافات کو مسترد نہ کرتے ہوئے بھی یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ اگر بینک میں  دستخط کی تصدیق کرنے والے افسروں  میں  سے کچھ کو جوابدہ بتایا گیا ہوتا یا ان کی جمع کی گئی رقم فریز کی گئی ہوتی تو یہ سلسلہ تھم سکتا تھا۔
 ممکن ہے جنوب مشرقی ایشیاء سے چلنے والے تین اہم فراڈ نیٹ ورکس کی شناخت کی گئی ہو جن میں  پہلا ہے اسٹاک ٹریڈنگ یا سرمایہ کاری فراڈ، دوسرا ہے ڈجیٹل گرفتاری جہاں  فرضی افسر بن کر شہریوں  کو گرفتار اور خوفزدہ کیا جاتا ہے اور تیسرا ہے ٹاسک بیسڈ انویسٹمنٹ اسکیم جس میں  کمائی کا جھانسہ دے کر پیشگی رقم بٹوری جاتی ہے مگر ابھی تک کے انکشافات میں  ایک بھی ایسا نہیں  ہے کہ کسی پولیس افسر یا بینک افسر کو گرفتار کیا گیا ہو۔ کیا مقامی افسروں  کی سرپرستی اور تائید و تعاون کے بغیر ایسا کوئی فراڈ کیا جاسکتا ہے؟ وزارت داخلہ کی رپورٹ میں  ایسا کوئی اشارہ نہیں  ہے۔
 رپورٹ جب خود کہتی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو سائبر فراڈ کے ذریعہ اگلے ۱۲؍ مہینوں  میں  ہندوستانی شہریوں  کو ایک لاکھ کروڑ تک کا نقصان ہوسکتا ہے تو اس کے روکنے کے وہ اقدامات کیا کافی ہیں  جو بیان کئے گئے ہیں ۔ رہی بات ۱۹۳۰؍ پر دو گھنٹہ میں  فون کرنے کی تو بہتوں  کو تو معلوم ہی نہیں  ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ جب ان کو معلوم ہوتا ہے اور وہ پولیس اور بینک افسران سے شکایت کرتے ہیں  یا ۱۹۳۰؍ پر فون کرتے ہیں  تب بھی کیا ہوتا ہے؟ اس میں  دو رائے نہیں  کہ عالمی سطح پر ریکٹ چلایا جا رہا ہے مگر اس میں  بھی دو رائے نہیں  ہوسکتی کہ ملک اور مقامی سطح پر کچھ افسروں  کے اس کا حصہ بنے بغیر یہ کام نہیں  ہوسکتا۔ ہمارے ملک میں  ایماندار افسروں  کی کمی نہیں  ہے اگر ایسے معاملات انہیں  سونپے جائیں  اور کہا جائے کہ جس بینک کا معاملہ ہے اس کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے تو یہ معاملہ رک سکتا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ بیان بھی اخبارات میں  شائع ہوچکا ہے کہ جعلسازی جس میں  دھمکا کر وصولی کرنا بھی شامل ہے ایسے افراد اور گروہ کر رہے ہیں  جو تکنیکی طور پر انتہائی منظم اور چینی مافیا کے زیر اثر ہیں ۔ یہ بھی تسلیم کہ چینی مافیا ہمارے نوجوانوں  خاص طور سے بے روزگار نوجوانوں  کو مجبور کرکے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے مگر یہ کہہ کر بھارتی باشندوں  کو بے یارو مددگار تو نہیں  چھوڑا جاسکتا کہ چینی مافیا مختلف ملکوں  اور مرکزوں  سے سرگرم ہے۔ یہاں  پھر یہ بات دہرائی جانا ضروری ہے کہ بینک افسران کی ذمہ داریوں  کا تعین اور اس میں  کوتاہی کرنے والوں  کی سرزنش ضروری نہیں  ہے۔

یہ بھی پڑھئے : الیکشن کمیشن کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج، وقت کا تقاضا

 سائبر فراڈ ناسور بنتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس میں  خود ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ جو اختیارات کا حامل ہے، پوری طرح شامل ہے۔ وہ شکایت کرنے والے سے ایسے ایسے سوالات کرتا ہے کہ شکایت کنندہ گھبرا جائے۔ حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بار بار عوام سے یہ کہنے کے بجائے کہ وہ یہ کریں ، یہ کریں  بینک افسران کو ذمہ دار ٹھہرائیں  کہ اگر کوئی فراڈ ہوا تو وہ نہ صرف ذمہ دار ہوں  گے بلکہ انہیں  نقصان کی تلافی بھی کرنا پڑے گی۔
 یہ کہنا تو کافی نہیں  ہے کہ اگر سائبر فراڈ جاری رہا تو آئندہ مہینوں  میں  ایک لاکھ کروڑ تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں  کالم نگار کے کئی لوگوں  سے مکالمے ہوئے ہیں  اور انہوں  نے جو جملے کہے وہ یہاں  دہرائے نہیں  جاسکتے۔ یوں  بھی کالم نگار کا کام پولیس، حکومت، بینک افسران اور عام لوگوں  میں  فاصلہ یا غلط فہمی پیدا کرنا نہیں  ہے اس کی خواہش ہے کہ غلط فہمیاں  دور ہوں  اور کسی طرح بھی قانون کا راج ہو۔ لیکن کیا یہ بیان دینا یا رپورٹ جاری کرنا کافی ہے کہ سائبر فراڈ وہ کر رہے ہیں  جو چینی مافیا کے زیر اثر ہیں ۔ اگر سب کچھ چینی مافیا کر رہا ہے تو ہم کیا کر رہے ہیں ؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بدگمانی پھیلانے والوں  کو بے اثر کرنے کے ساتھ حکومت کو بھی مجبور کریں  کہ وہ صحیح رخ پر کام کرے۔ اگر کسی شخص سے ایسے اکاؤنٹ میں  چیک لیا جاتا ہے جو اس نے کھولا ہی نہیں  ہے اور وہ چیک کیش بھی ہوتا ہے تو یہ چینی مافیا کا کام ہے یا ذمہ داران کا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK