Inquilab Logo Happiest Places to Work

سنڈے اسپیشل: اس بار عام بجٹ سے آپ کو کس طرح کی امیدیں ہیں؟

Updated: February 06, 2025, 3:52 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

What a common man wants from a common budget is to see if there is any reduction in the prices of essential commodities. Photo: PTI
عام بجٹ سے ایک عام آدمی یہی دیکھنا چاہتا ہے کہ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی آتی ہے یا نہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی

عام بجٹ کا کیا فائدہ ہے؟ 


 وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے آٹھواں بجٹ پیش کیا اور یہ ریکارڈ بھی ان کے نام کا ہے مگر میں تو کہوں گا کہ ایسے بجٹ کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ اس کے بارے میں وزیر مالیات نے پہلے کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی ہے ہی نہیں ہمیں توکہیں مہنگائی نظر نہیں آتی ہے۔ تو ہم ایسی وزیرمالیات سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں ؟ عام بجٹ کا کیا فائدہ ہے؟ جہاں دیکھئے ہرچیز مہنگی ہوگئی ہے۔ گھر کا بجٹ کنٹرول سے باہر ہے۔ ہمیں امید تھی کہ بجٹ کو دھیان میں رکھ کر غریبوں کے فائدے کیلئے لایا جائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 
امتیاز احمد ملک( زکریا بندر، سیوڑی ممبئی)
 مہنگائی کا اثر عام آدمی کی جیب پر پڑے گا


  وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے یکم فروری کو پارلیمنٹ میں عام بجٹ پیش کیا۔ اس سے پہلے کسی بھی وزیرمالیات کو مسلسل ۸؍ مرتبہ عام بجٹ پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بجٹ سے عوام کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ وزیر مالیات کو چاہئے تھا کہ ایسا بجٹ پیش کریں جو ہر اعتبار سے معیشت کی سمت طے کرنے میں معاون ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ عوام کی رائے اس کے خلاف ہے۔ چونکہ خوردنی اشیاء پر بھی بھاری ٹیکس لگایا گیا ہے، اس لئے ضروری تھا کہ نئے بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح کم کی جاتی جس سےمہنگائی بھی قابو میں رہتی۔ آج ملک میں چاروں طرف مہنگائی کا شور ہے اور عوام کا معیشت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کرپشن، معاشی پالیسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے جیسی سرمایہ کاری ہونی چاہئےویسی نہیں ہورہی ہے۔ روپیہ اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیاہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی لاگت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں توقعات سے زیادہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ روپے کی گراوٹ روکنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے اور ہر دن گراوٹ کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور غیرملکی سرمایہ کاری پر لگام لگ چکی ہے۔ عالمی منڈی میں پھر ایک بار خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کے داموں میں اضافہ یقینی ہے۔ یہ اضافہ پہلے سے بڑھتی مہنگائی کی آگ کو مزید بھڑکادے گا۔ اس کا اثر عام آدمی کی جیب پر پڑے گا۔ 
سلطان احمد پٹنی (بیلاسس روڈ، ممبئی) 
حسب معمول متوسط طبقہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا


   قرض بڑھتا جارہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپیہ دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ سرکار کی جانب سے درپیش سخت پالیسیوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ ان نامساعد حالات میں مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ سے ہم کس طرح کی امیدیں رکھ سکتے ہیں۔ انکم ٹیکس، جی ایس ٹی اورکارپوریٹ ٹیکس سے حکومت کو آمدنی ہوتی ہے جس میں ریاستوں کی حصہ داری کے علاوہ مرکزی حکومت کی جانب سے مجوزہ منصوبوں پر اخراجات کرنے ہوتے ہیں۔ متوسط طبقہ کے افراد کی آمدنی کم اور اخراجات بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ مجبورا ً ایک عام شہری کو مذکورہ چیزوں کو خریدتے وقت اپنی ماہانہ محدود آمدنی میں کٹوتی کرنی پڑرہی ہے جس سےبازاروں میں ان چیزوں کی کھپت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری بدستور بڑھ رہی ہے جس پر قابو پانا حکمراں جماعت کے لئے مسئلہ بن رہا ہےچونکہ ملک میں ہر سمت نفرت کا ماحول ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ بٹور کر ملک کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ متوسط طبقہ کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ اپنی محدود آمدنی میں وہ خوشحال زندگی بسر کرسکیں۔ کچھ روپے بچت کرسکیں لیکن ملک کے پیچیدہ حالات میں ان کاجینا دوبھر ہوگیا ہے۔ متوسط طبقہ کی افراد کی تمام خواہشات، تمناؤں اورامیدوں کو پس پشت ڈال کر مرکز کی حکومت کو یہ فکر لاحق ہے کہ وہ اپنی حکومت کو کیسے بچاپائیگی جو بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہےکہ ملک کےمتوسط طبقے ہی کو تمام مشکلات کا سامنا کر نا پڑے گا۔ 
زبیر احمدبوٹکے( نالاسوپارہ ویسٹ)
عام بجٹ ’سراب‘ نہ ہو


  آج سونا متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہورہا ہے۔ وزیر مالیات سے امید کی جاسکتی ہے کہ ٹیکس میں کمی کرکے غریبوں کی بھی زیور بنانے کی آرزو پوری کردیں گی۔ گھریلو گیس سلنڈر اور کمرشیل گیس سلنڈر کے دام کم ہوجائیں گے، ایسی امید ہے۔ وزیر مالیات کچھ ایسی اسکیموں کا اعلان کریں گی جس سے بے روزگاری کے بے لگام گھوڑے کو لگام لگے گی۔ مہنگائی کا عفریت ہر ایک کو نگلے جارہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ’وشوگرو‘ بننے سے پہلے عوام کی خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیتا رمن بجٹ پیش کریں گی۔ ہم ایک خوشحال اور تابناک ہندوستان کے متمنی ہیں۔ ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ اس مرتبہ عام بجٹ ایسا پیش ہوگا کہ سماج کا ہرطبقہ مطمئن ہوگا۔ جی ایس ٹی کو آسان کیاجائے گا۔ انکم ٹیکس میں رعایت مل سکتی ہے۔ جہاں فوج اور اسلحہ جات پر آمدنی کا ایک بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے وہیں ہم امید کرتے ہیں کہ تعلیم کی مد میں بھی ایک بڑا حصہ خرچ ہوگا تاکہ ملک عزیز کو ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کی فوج مل سکے اور ملک کی ترقی میں چار چاند لگ جائیں۔ 
محمد یعقوب ایوبی (موتی پورہ، مالیگاؤں )

 بجٹ محض خانہ پری رہ گیا ہے


 ہر سال کی طرح امسال بھی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا عام بجٹ ماسوا روایت کی پاسداری کے اور کچھ نہیں !! عام بجٹ کے اعلان سے ایک عام شہری کو کوئی سروکار نہیں اسے تو صرف دو وقت کی روٹی جٹانے کی فکرہوتی ہے۔ ہر عام بجٹ میں عام آدمی ہی پستا ہے اور کارپوریٹس کے مفاد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے بجٹ تیار کیا جاتا ہے۔ مختلف قسم کے ٹیکس عام آدمی سے وصول کئے جاتے ہیں ۔ جس کے سبب اشیائے خوردنی اور بنیادی ضروریات کی چیزیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں ۔ اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ 
کمر توڑے ہے مہنگائی کا پتھر
ذرا اے بھوک ہفتہ وار ہوجا (حضرت قیوم راز مارولوی)
صابر مصطفےٰ آبادی، ساودہ، جلگاؤں 
کچھ حذف واضافہ کے علاوہ کچھ نہیں 


 موجودہ حکومت کےسابقہ تمام بجٹوں کا اگر تجزیہ کیا جائے، تو بآسانی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہےکہ یہ بجٹ بھی سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ، متوسط طبقے کیلئے کچھ حذف و اضافہ، اکثریتی طبقہ کی منھ بھرائی و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اقلیتی کاز کو زک پہچانے والے اقدامات اور غریبوں کیلئے کچھ اسکیموں کی سوغات پر مبنی ہے، وزیر خزانہ نے آٹھویں مرتبہ بجٹ پیش کیا ہےلیکن ان کے بنائے ہوئے بجٹ میں ملک کی تعمیر و ترقی کا کوئی خاکہ نہیں ہے۔ جوش جذبے سے خالی یہ صرف اعداد و شمار کا ایک پلندہ ہے، وہ مختلف محکموں کیلئے صرف بجٹ تجویز کرتی ہیں باقی کام دفتر وزیر اعظم کرتا ہے۔ عام آدمی کو مہنگائی سے راحت، بہتر نظام صحت، روزگار کے مواقع اور معیاری و قابل رسائی تعلیمی نظام چاہیے، لیکن کیا یہ سب ہوگا۔ یقینا اس کا جواب’نہیں ‘ ہے۔ 
سعید الرحمٰن محمد رفیق، گرین پارک روڈ شیل تھانے
بجٹ سے زیادہ توقعات نہیں 


  بجٹ سے غریب اور متوسط طبقے کیلئے خاص طور پر وزرات اقلیتی امور کیلئے کچھ زیادہ توقعات نہیں ہیں ۔ حکومت یکم فروری ۲۰۲۵ء کو مرکزی بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہےجو پچھلے بجٹ کی طرح نہ ہو بلکہ متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرے جوآبادی کا۸۰؍ فیصد حصہ ہے اگر موجودہ حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کرے تو ہو سکتا ہے کچھ راحت ملے جس کی امید کم ہی نظر اتی ہے : 
 انکم ٹیکس ریلیف: حکومت ٹیکس فری آمدنی کی حد کو بڑھا کر۱۰؍لاکھ سے۱۵؍ لاکھ کے درمیان کرنے پر غور کر رہی ہے جو موجودہ۷ء۷۵؍ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس ایڈجسٹمنٹ کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مستحکم اجرتوں کے درمیان متوسط طبقے کے ٹیکس دہندگان پر مالی دباؤ کو کم کرنا جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایندھن(پیٹرول ڈیزل وغیرہ)کی قیمتوں میں تخفیف کرکے متوسط طبقے کو راحت دی جائے ۔ 
 ملازمت کی تخلیق اور معاشی نمو: توقع ہے کہ بجٹ میں معاشی ترقی کو تیز کرنے کیلئے روزگار پیدا کرنے اور سرمائے کے اخراجات پر توجہ دی جائے۔ اس میں الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیموں کی ممکنہ توسیع شامل ہے۔ تعلیمی شعبوں میں خصوصی طور پر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہمارے طلبہ غیر ممالک کا رخ نہ کریں۔ 
  ان متوقع اقدامات کا مقصد متوسط طبقے کو مالی ریلیف فراہم کرنا اور معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو ۔ جہاں تک اقلیتوں کی فلاح بہبود کا تعلق ہے، سابقہ بجٹ کی طرح اس بار فنڈ میں تخفیف نہ ہو بلکہ اضافہ کیا جائے تاکہ ملک کی۲۰؍ فیصدآبادی مختلف اسکیموں کے ذریعے مستفید ہو اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ 
 سید معین الحسن انجینئر، ویمان نگر، پونے
۲۰۲۵ ء کےبجٹ سے توقعات 


۲۰۲۵ء کا بجٹ یکم فروری ۲۰۲۵ء کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاناہے۔ زیادہ تر ماہرین اور ٹیکس دہندگان انکم ٹیکس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی امید کر رہے ہیں ان میں سےچند درج ذیل ہیں ۔ 
 انکم ٹیکس میں کٹوتی:اس وقت ملک میں آج عام آدمی اور تنخواہ دار مڈل کلاس طبقہ سب سےزیادہ متاثر ہے۔ امید ہےکہ نئے ٹیکس نظام کے تحت انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی، پرانے نظام میں مزید فوائد اورمختلف چھوٹ اورکٹوتیوں میں اضافہ کیاجائیگا۔ 
 زرعی بجٹ میں اضافہ:امید کی جارہی ہےکہ حکومت زراعت کیلئے۱۵؍ فیصدبجٹ بڑھائیگی۔ اس میں کسانوں کی آمدنی بڑھانے، افراطِ زر کو کنٹرول کرنےاور اجناس جیسے دالوں، تیل کے بیجوں، سبزیوں اور دودھ کی پیداوار کو فروغ دینے کے منصوبے شامل ہوں گے۔ 
صحت :صحت و زندگی کے انشورنس کے پریمیم پر دستیاب کٹوتیوں میں اضافے کےعوام کی خواہش مند ہیں۔ 
روزگار کے مواقع میں اضافہ : روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے مینوفیکچرنگ، تعمیرات، اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرکاری منصوبے متوقع ہیں۔ حکومت لیبر انڈسٹریز کیلئے اسکیمیں متعارف کرا سکتی ہے۔ 
مالی خسارے میں کمی اور اخراجات کا توازن:توقع ہےکہ حکومت ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ مالی خسارے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرے گی۔ اس میں دیہی ترقی اور روزگار کے منصوبوں کیلئے خاطر خواہ فنڈز مختص کیے جا سکتے ہیں۔ 
پرویزاحمد(جلگاؤں )
بجٹ سے راحت کی امید نہیں کرنی چاہئے


 ہماری مرکزی حکومت فروری ۲۰۲۵ء کے پہلے ہفتہ میں بجٹ پیش کرنے والی ہے۔ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کو مسلسل۸/ واں عام بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو جائےگا۔ اس طرح وہ اپنا ہی ریکارڈ توڑیں گی جسے انہوں نے گزشتہ سال قائم کیا تھا۔ ان کی سابقہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام الناس کے حق میں امیدیں وابستہ کرنا خواب خرگوش کے مترادف ہوگا۔ ڈالر کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالنا انکے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اشیائےخور و نوش کی مہنگائی پر قابو پانے میں انکی ناکامی صاف جھلکتی ہے۔ ملک کے دو سب سے بڑے کارپوریٹ گھرانے کی صحت کا خاص خیال رکھنا اس حکومت کی ترجیحات میں سے ہے۔ لہٰذا خط افلاس سے نیچے اور متوسط طبقے کے عوام کو آنے والے بجٹ سے کسی راحت کی امید نہیں کرنی چاہئے کیونکہ حکومت کا پیسہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے، یہ حکومت کو ہی معلوم ہوتاہے، عوام تو بس ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ 
افتخار احمد اعظمی، سابق مدیر `ضیاء، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ
ہندوستانی معیشت روبہ زوال ہے


 ۲۰۱۹ء میں جب سے نرملا سیتارمن وزیر مالیات بنی ہیں تب سے لے کر آج تک ہندوستانی معیشت روبہ زوال ہے۔ حالانکہ ہر برس وہ پورے ملک کی عوام کو ’منگیری لال کے حسین سپنے ‘ دکھاتی رہتی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے عزیز ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنے ارادے واضح کر دئیے ہیں اور فروری میں نریندر مودی کے امریکہ آنے کی بات کہہ کر فروری میں پیش ہونے والے بجٹ پر سیدھا اثر انداز ہوئے ہیں۔ مگر ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری فائنانس منسٹر آنے والے بجٹ میں کسی بھی ٹیکس کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں کریں گی اور جی ایس ٹی میں کچھ کمی کریں گی۔ ورنہ الیکشن جیتنے کیلئے بی جےپی جو ریوڑیاں بانٹ رہی ہے وہ ٹیکس کی صورت میں سود سمیت وصول کرنےکی تیاری بھی کرے گی۔ ہم بس اتنا سا خواب دیکھ سکتے ہیں کہ آنے والا بجٹ مڈل کلاس و غریب عوام پر کوئی زیادہ بوجھ ڈالنے والا نہ ہو اور کارپوریٹ سیکٹر پر عنایت کرنے والا نہ ہو تو بہتر ہوگا۔ 
ایڈوکیٹ سلیم یوسف شیخ، بھیونڈی
کئی طرح کی امیدیں اور توقعات ہیں 


ٹیکس سلیب میں تبدیلی کی امید:ملازمت پیشہ افراد کی اس بار بجٹ سے بڑی توقعات ہیں، خاص طور پر ٹیکس سلیب میں تبدیلی کے حوالے سے۔ عوام کی خواہش ہے کہ حکومت ٹیکس فری انکم کی حد کو بڑھا کر ۱۰؍ لاکھ روپے کر دے۔ فی الحال۱۰؍ لاکھ روپے سے زیادہ سالانہ آمدنی پر۳۰؍فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے جو۱۵؍ لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدنی پر بھی اسی شرح سے لاگو ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ یہ چاہتا ہے کہ ٹیکس فری آمدنی کی حد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ان کی قوت خرید بڑھے اور بچت میں اضافہ ہو سکے۔ 
مہنگائی اور عوامی توقعات:مہنگائی کی بلند شرح نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ اشیائے ضروریہ اور خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے محنت کش خاندانوں کا بجٹ متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے میں عوام کی امید ہے کہ حکومت بجٹ میں ایسے اقدامات شامل کرے گی جن سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔ 
متوسط طبقے کی بڑی امیدیں :وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے یکم فروری کو پیش کئے جانے والے بجٹ سے متوسط طبقے کو بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ پچھلے دو تین بجٹ میں متوسط طبقے کو کوئی بھی بڑا ریلیف نہیں ملا۔ اب بجٹ۲۰۲۵ء میں ٹیکس سلیب میں تبدیلی سے متوسط طبقے کو بڑا ریلیف ملنے کی امید ہے۔ اس قدم سے نہ صرف عوام کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے بلکہ سست روی کا شکار معیشت کو نئی توانائی بھی ملے گی۔ 
جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کی ضرورت: عوام کی یہ خواہش ہے کہ حکومت جی ایس ٹی کی شرح کو پچاس فیصد تک کم کرے، تاکہ افراط زر پر قابو پایا جا سکے اور عوام کو مہنگائی سے کچھ راحت مل سکے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمار ے ملک کےدنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے کے باوجود عوام کی حالت بدتر ہی رہی ہے، ایسے میں عوام کو حکومت سےنتیجہ خیز اقدامات کی توقع زیادہ ہے۔ 
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
 تمام طبقات کی بجٹ سے توقعات وابستہ ہیں 


 قارئین کرام جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے بجٹ پیش کیا جا چکا ہوگا۔ بجٹ سے کیا مراد ہے؟ حکومتی بجٹ سے مراد مالیات کا وہ پورا نظام جس میں ایک حکومت خرچ کرتی ہے اور وصول کرتی ہے۔ ۔ اب تک کے بجٹوں میں وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نہ تو مہنگائی کم کرسکی ہیں نہ ہی معیشت کو اِس قابل بنا سکی ہیں کہ اس کا شہرہ ہو۔ موجودہ حالت میں جس طرح عوام مہنگائی سے نبر دآزماہیں اور جس دور سے گزر رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کو اس بجٹ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ رسوئی گیس اور کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس کم کیا جائے تاکہ مہنگائی سے کچھ راحت مل سکے۔ آج اشیائے ضروریہ بالخصوص گاڑیاں تو اتنی مہنگی ہوگئی ہےکہ اس مہنگائی کے دور میں غریب آدمی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، حتیٰ کہ موبائل سے فون کرنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے پر بھی ٹیکس ہے۔ ریچارج کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اس بجٹ میں تمام طبقات کے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر بجٹ پیش کرے تاکہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے اور عوام بہتر سہولیات کے ساتھ اپنی معاشی زندگی گزار سکے۔ 
غلام جیلانی، دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونہ

انکم ٹیکس کی چھوٹ میں اضافہ ہونا چاہئے


 ہمیں عام بجٹ سے متعلق توقع ہے کہ حکومت ریلوے کی سہولیات میں بہتری لائے گی، ٹکٹوں کی قیمتوں کو کم کرے گی اور جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس میں رعایت فراہم کرے گی۔ جی ایس ٹی کا موجودہ نظام ایک طرح سے عوام پر ظلم ہے۔ انکم ٹیکس کی بات کریں تو حکومت نے فی الحال ۵؍ لاکھ روپے تک کی آمدنی پر چھوٹ دی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس چھوٹ کی حد میں اضافہ کرے گی۔ انکم ٹیکس کی چھوٹ کم از کم ۷؍ لاکھ کی آمدنی تک ہونی چاہئے۔ ریلوے کی سہولیات میں بہتری اور ٹکٹوں کی قیمتوں کو کمی بھی ہونی چاہئے۔ منماڑ سے مالیگاؤں اور دھولیہ ریلوے لائن کا مطالبہ بھی پچھلے ۵۰؍ سال سے ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ موجودہ حکومت اس پر کیا کارروائی کرتی ہے؟
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل ( کُرلا ممبئی)
ہمیں بجٹ سے کوئی خاص توقع نہیں 


  ہمیں موجودہ موجودہ حکومت اور موجودہ بجٹ سے کوئی خاص توقع نہیں ہے۔ ایک بار نہیں بلکہ بار بارنرملا سیتارمن ایک ناکام وزیر مالیات ثابت ہوچکی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹیکس اور جی ایس ٹی لگانے کے علاوہ کچھ اورجانتی بھی نہیں ہیں۔  ان کے بجٹ کی دو خاص باتیں ہوتی ہیں۔ اول :‏امیروں کی پنشن میں اضافہ اور دوم: غریبوں کی ٹینشن میں اضافہ۔ اس کے سوا ان کے بجٹ میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ووٹ تو بے روزگار طبقہ بھی دیتا ہے لیکن ان کی بے روزگاری دور کرنے کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ایک اچھے نظام حکومت میں عام طبقے کی بھی نمائندگی ہوتی ناکہ صرف ایک مخصوص طبقے کی لیکن ایسالگتا ہے کہ اس حکومت میں مہنگائی کم کرنے اور عام آدمی کو راحت پہنچانے کے بارے میں غور ہی نہیں کیا جاتا۔ 
رضوان قاضی (کوسہ، ممبرا)
عام آدمی کو بڑی راحت کی ضرورت


 جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ آج کے وقت میں مہنگائی آسمان چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے آج ملک میں ایک ایسا طبقہ ہیں جس کیلئے گھر چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ اگر ہم اس طبقے کے بارے میں غور کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس طبقے کو حکومت کی طرف سے ایک بڑی راحت کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو متوسط طبقہ کہلاتا ہے۔ اس کی بھی اپنی پریشانیاں ہیں۔ اگر ہم موجودہ ٹیکس کے نصاب کی بات کریں تو اس میں ۲؍ زمرے ہیں، ایک نیا اور ایک پرانا۔ نئے زمرے میں سرمایہ کاری کیلئے کوئی رعایت نہیں ہے، اسلئے ان کی آمدنی کی سطح کو بڑھا کر ۱۰؍ لاکھ کر دی جائے تو راحت ہو گی۔ اسی طرح پرانے ٹیکس زمرے کیلئےآمدنی کی سطح کو بڑھا کر ساڑھے ۷؍ لاکھ کیا جانا چاہئے۔ خیر دیکھئے کیا ہوتا ہے؟
جواد عبدالرحیم قاضی (ساگویں، رتناگیری)
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہو 


 کسی بھی ملک میں عوام کیلئے حکومت کا عام بجٹ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کیلئے اس کی حکومت کا منصوبہ کیا ہے؟ میں امید کرتی ہوں کہ ہماری حکومت بھی مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سبسیڈ یز میں اضافہ کرے گی، ٹیکس میں کمی اور بنیادی ضروری اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ 
  اس بار عام بجٹ میں صنعتی، زراعتی اور سروس سیکٹر کی ترقی کیلئے بھی اسکیمیں شامل ہونی چاہئے تاکہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ میرے خیال سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے گی تاکہ معیار زندگی بہتر ہو۔ دراصل یہی وقت کا تقاضا ہے۔ آج دنیا جس رُخ پر چل رہی ہے، اس میں یہ بہت ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ٹیکس نظام کو آسان اور منصفانہ بنایا جایا جائے گا تاکہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر بوجھ کم ہو۔ توقع ہے کہ اس بار مرکزی حکومت بجٹ خسارے کو کم کرنے اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلئے بھی مضبوط اور منظم منصوبہ بندی کرے گی۔ 
شیخ ناظمہ محمد یوسف ( لیکچرر، ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
 بجٹ غریبوں اور متوسط طبقے کے حق میں ہوگا


 عام طور پر بجٹ پیش ہونے سے قبل عوام کو یہ امید رہتی ہے کہ اس سال بجٹ بہت ہی اچھا ہوگا۔ غریبوں اور متوسط طبقے کے حق میں ہوگا۔ اسی لئے اس بجٹ میں سرمائے کے اخراجات میں اضافہ کئے جانے کی توقع ہے اور اس بات کی بھی امید کی جا رہی ہے کہ ملازمتیں پیدا کرنے میں پیش رفت ہوگی، جس کی اشد ضرورت ہے۔ اس بجٹ سے اس بات کی بھی توقع کی جا رہی ہے کہ درآمدات اور مقامی پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کم ہوگی۔ 
  بجٹ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اس مرتبہ بجٹ میں درمیانی آمدنی والے افراد کے ٹیکس سلیب پر نظر ثانی کی جائے گی اور خام مال کی قیمتوں میں اُتارآنے سے تعمیراتی لاگت اور مکانات کی قیمتوں کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ میری ناقص رائے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بار حکومت، لوگوں کو روزمرہ کی ضرورتو ں اور بالخصوص اشیائے خو ر دونی کے داموں میں مناسب کمی کے بارے میں سوچے۔ سرمایہ داروں کا بڑا طبقہ جو مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتاہے، اس پر سخت نظر رکھی جائے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ 
 پرنسپل محمدسہیل لوکھنڈ والا(سابق رکن اسمبلی، ممبئی)
 دیہی ترقی پرخصوصی توجہ دی جانی چاہئے


  ہمارا ملک دیہاتوں میں بستاہے۔ اس بارعام بجٹ میں دیہی ترقی پرخصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ گاؤں کی ترقّی اسی وقت ممکن ہے جب کسان خوشحال ہوں۔ زراعت سے متعلق لوازمات بيج، کھاد اورجراثیم کش ادویات کی قیمتوں پربجٹ میں خصوصی راحت دی جانی چا ہئے اور ایمانداری سے ایم ایس پی کا نفاذ ہونا چاہئے۔ کسان اورفصل کے بیمہ کی رقم کو بڑھانا چاہئے۔ زراعت کیلئے استعمال ہونےوالے ٹریکٹر، بجلی، آب پاشی اور شمسی توانائی کے آلات ودیگر لوازمات کی خریداری پرٹیکس میں خصوصی راحت دی جانی چاہئے۔ زراعت کے معاون پیشے جیسے جانورپالنا، مچھلی کی افزائش اوردودھ کی پیداوار وغیرہ کو فروغ دینے کیلئے بھی مرکزی حکومت کو بجٹ میں ایک بڑی رقم مخصوص کرنی چا ہئے۔ امید کی جاتی ہے کہ گاؤں میں صحت اورتعلیم و روزگار کی بہترین فراہمی کرنے والا یہ بجٹ ہوگاتاکہ گاؤں سے شہروں کی جانب ہونے والی نقل مکانی کم سے کم ہو۔ 
 اسی طرح ٹیکس ادا کرنے والے نوکری پیشہ افرادکو ٹیکس سلیب میں بھی راحت دی جانی چاہئے۔ وقت پر ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ بدعنوانی، رشوت خوری اورغبن پر لگام کسنے والا بجٹ ہو۔ تجارتی گھرانوں کو بڑے بڑے قرض دے کر انہیں معاف کرنے کی روش ترک کی جانی چاہئے اور فراڈ کرکے غیر ممالک میں پناہ لینے والے تجارتی افراد سے قرض وصولی کی جانی چاہئے۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
اب تو صرف مالداروں کیلئے بجٹ ہوتا ہے


  ملک کے عوام کو، عام بجٹ کے مواقع پرپہلے کی سرکاروں سے کچھ امیدیں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے ہی سے بجٹ پر بحثیں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ بجٹ والے دن لوگوں کے انٹرویو لئے جاتے تھے۔ اسٹیشن کے باہر موجودہ نیوز وینوں کے پاس کھڑے نیوز اینکروں کے ذریعےٹی وی پر وِنود دُوا اور دیگر کو سننے کیلئے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو جایا کرتی تھی۔ ایک تیوہار سا دن لگتا تھا۔ عام بجٹ اور ریل بجٹ الگ الگ پیش کئے جاتے تھے۔ ہر ایک کو اس بجٹ سے امیدیں وابستہ ہوا کرتی تھیں لیکن اب وہ دن پرانے ہوگئے۔ اب تو صرف مالداروں کے حق میں ہی بجٹ آتا ہے۔ تبھی تو اسپیشل ریل گاڑیاں مالداروں کیلئے چلا کرتی ہیں۔ آج احمد آباد سے ممبئی کیلئے جاپان کے تعاون سے سپر فاسٹ ٹرین چلانے کیلئے تو بجٹ ہے لیکن غریبوں اور مزدوروں کیلئے چلنے والی ٹرینوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں کیا امید کی جائے۔ 
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
بجٹ عوامی مفاد کے خلاف ہی ہوگا


  یہ بجٹ بھی مایوس کن اور عوامی مفاد کے خلاف ہی ہوگا۔ اسلئے کہ بجٹ پیش ہونے سے قبل ہی بنیادی ضروریات اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ایس ٹی، ٹیکسی اور آٹو رکشا کے کرائے میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ہماری معیشت دنیاکی پانچویں سب سے بڑی معیشت ضرور ہے مگر امریکہ میں ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے، عالمی معیشت جتنا متاثر ہوگی، اس سے کہیں زیادہ ہندوستان کی معیشت، لاکھوں ہندوستانیوں کو ملک بدری کے خطرے سے ہوگی۔ اگر ٹرمپ حکومت اور امریکی عدالت گوتم اڈانی کو اپنی تحویل میں لیتی ہے تو ملک کی ساری معیشت لڑکھڑا جائے گی۔ ملک کی سیاسی بساط ہی یکسر بدل جائے گی کیونکہ مودی حکومت کے رویے سے لگتا ہے کہ یہ ملک اپنی حکومت سے نہیں بلکہ اڈانی سے چل رہا ہے۔ اب کل پتہ ہی چل جائے گا کہ حکومت پر عوام کا اثر ہے یا اڈانی کا؟
انصاری محمد صادق (حسنہ عبدالملک مدعو ویمنس ڈگری کالج، کلیان)
 اس بار بھی بجٹ ` اڈانی اور امبانی نواز ہوگا


  موجودہ حکومت کے سابقہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے یہی امید ہے کہ اس بار بھی بجٹ ` اڈانی اور امبانی نواز ہوگا۔ اس میں تنخواہ دارطبقے کو نظر انداز کیا جائے گا اور سرمایہ کاروں کے مفاد کا خیال رکھا جائے گا۔ سیتا رمن اب تک ۷؍ مرتبہ بجٹ پیش کرچکی ہیں۔ ان کے پیش کردہ بجٹ سے مہنگائی کم نہیں ہوئی ہے۔ متوسط طبقہ بہت زیادہ پریشان ہے۔ معمولی اشیاء جیسے پنسل، مسکہ اورپھلوں کے جوس وغیرہ پر۱۲؍ فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ بجٹ میں ریل کرائے میں کمی کے ساتھ ہی جی ایس ٹی کی شرح میں بھی کمی ہونی چاہئے۔ اسی ساتھ انکم ٹیکس کی حد بھی بڑھائی جانی چاہئے۔ 
 شاہد ہنگائی پوری علیگ( سکون ہائٹس، ممبرا)
نوجوان طبقے کو روزگار کے نئے مواقع کی امید ہے 


 اس بار عام بجٹ سے عوام کو مہنگائی کم کرنے، روزگار کے مواقع بڑھانے اور معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی امید ہے۔ خاص طور پر متوسط طبقہ اور غریب طبقہ یہ توقع رکھتا ہے کہ حکومت ٹیکسوں میں رعایت اور سبسیڈی دینے اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کیلئے پالیسیاں اپنائے گی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری ہوگی، زراعت کیلئے امدادی پیکیج جاری ہوگا اور کاروبار کو فروغ دینے کیلئے آسان قرضوں کی فراہمی بھی اہم توقعات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، نوجوان طبقہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور اسٹارٹ اپس کو سپورٹ کرنے کیلئے مراعات کا منتظر ہے۔ 
 عام بجٹ کیلئے درج ذیل نکات امید کی کرن بن سکتے ہیں۔ 
 مہنگائی اور روزگار: عوام کو سب سے زیادہ امید مہنگائی پر قابو پانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جو ضروری اشیاء کی قیمتوں کو قابو میں رکھ سکیں اور نوجوانوں کیلئے روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کریں۔ 
تعلیم اور صحت: تعلیم کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبے کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی بہتری، اسکالرشپ پروگرام اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی عوام کیلئے اہم مطالبات ہیں۔ 
زراعت اور دیہی ترقی: ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا زراعتی ملک ہے۔ کسانوں کو مالی مدد، جدید ٹیکنالوجی اور مارکیٹ تک رسائی فراہم کرنا زراعت کے شعبے کو مستحکم کر سکتا ہے۔ 
ٹیکس میں رعایت: متوسط طبقہ چاہتا ہے کہ انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تاکہ اس کی مالی مشکلات کم ہوں۔ اس کے علاوہ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو بھی ٹیکس میں رعایت ملنی چاہئے۔ 
ماحولیاتی مسائل: بجٹ میں ماحولیات کے تحفظ کیلئے بھی اہم اقدامات متوقع ہیں، جیسے کہ صاف توانائی کے منصوبے، جنگلات کی حفاظت، اور شہروں کی صفائی کیلئے خصوصی فنڈز وغیرہ۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول بھیونڈی)

 قارئین کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں کے ساتھ خبروں کی تہہ میں جانا انقلاب کا خاصہ رہا ہے۔ اس کیلئے ہم مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرین کی رائے اور تجزیاتی مضامین بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف موضوعات پر قارئین بھی اظہار خیال کریں۔ اس سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایک موضوع دیا جائے گا، جس پر آپ کی تحریریں (آپ کی تصویر کے ساتھ) سنڈے میگزین میں شائع ہوں گی۔ 
اس ہفتے کا عنوان
 گزشتہ دنوں راج ٹھاکرے نے انتخابی عمل پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح آئے کہ ہارنے والوں کی کیا بات کریں، خود جیتنے والے بھی حیران ہیں۔ (خبر ملاحظہ کریں روزنامہ انقلاب، ۳۱؍ جنوری، صفحہ ۴؍) ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
 راج ٹھاکرے کے بیان کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟
 اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۹؍فروری) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع ہوں گی (ادارہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK