Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’یہ تو سورہے تھے، انہیں  کس نے جگایا؟‘‘

Updated: August 24, 2025, 12:59 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

لوگ سوال کررہے ہیں کہ اناہزارے خاموش کیوں ہوگئے ہیں ؟ ۲۰۱۴ء تک وہ خوب آندولن کرتے تھے۔ اسی لئے بہتیروں نے ’’جاگو انا‘‘ کی گہار لگائی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

خواتین و حضرات!آپ سب کو ہمارا سلام۔ سوشل میڈیا کے گلیاروں کا ہفتے بھر کا احوال سنانے کو ہم تیار ہیں۔ یہ لیجئے موضوعات کے مرتبان سے پہلی چٹھی برآمد ہوئی۔ اس پر درج ہے ’اناہزارے‘کا نام۔ یہ مہاشئے ایک بار پھر میڈیا اور سوشل میڈیا میں موضوع بحث ہیں۔ لوگ سوال کررہے ہیں کہ اناہزارے خاموش کیوں ہوگئے ہیں ؟ ۲۰۱۴ء تک وہ خوب آندولن کرتے تھے۔ اسی لئے بہتیروں نے ’’جاگو انا‘‘ کی گہار لگائی۔ کچھ نے انا کی برسوں  کی چپی پر چبھتے سوال بھی کردئیے۔ پھر کیا، انا نے یہ بیان داغ کر پیچھا چھڑانا چاہا کہ ’’آپ کہہ سکتے ہیں کہ انا جاگئے، لیکن آپ خود مت جاگئے۔ ‘‘ معترضین اس بیان سے مطمئن نہیں ہوئے۔ پھر اس کے بعد ان کا ایک اورویڈیو گردش میں آیا۔ جس میں ایک سماجی کارکن انہیں راہل گاندھی کی ووٹ چوری مہم کے متعلق بتا رہے ہیں۔ جس میں انّا ہوں ہاں کئے بناء چپ چاپ سن رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو منجیت گھوشی نامی صارف نے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’انا ہزارے کو ووٹ چوری پر جانکاری دی گئی کہ کیسے راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کی دھاندلی کو دیش کے سامنے رکھا ہے۔ اس پر انّا بس ہوں ہاں کرتے نظر آئے، اس بزدل انسان نے دیش کو برباد کیا ہے۔ دیش کو انہوں نے اور ان کی گینگ نے بربادکیا ہے، اور اب سورہے ہیں۔ ‘‘اس پوسٹ کے ذیل میں تبریز قیصر نے تبصرہ کیا کہ ’’جس کام کیلئے روڈ پر اترے تھے وہ ہوگیا، اب وہ چھٹی پر ہیں ‘‘کپل ڈانگ نے لکھا کہ ’’ویسے ان کے لوک پال بل کا کیا ہوا؟ انہیں تو ایکدم چاہئے تھا یوپی اے کے دور اقتدار میں، ان سے پوچھئے کہ کہ کیا بل بن گیا ہے؟‘‘ساحل پٹھان نے فیس بک پوسٹ میں ان کا مذکورہ بالا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے طنزاً لکھا کہ ’’یہ تو سورہے تھے، انہیں کس نے جگایا؟ذمے دار کون ہے بتاؤ؟‘‘پرشوتم چھجر نے فیس بک پوسٹ میں لکھاکہ ’’ایک نوبیل انعام تو انا ہزارے کو بھی ملنا چاہئے۔ پچھلے بارہ سال سے سورہے ہیں۔ ‘‘رُدرا دیب مکھرجی نے ایکس پر لکھا کہ ’’بی جے پی نے آئینی اداروں کو کمزور کرکے خود کو آمرانہ حکومت میں بدلنے کیلئے طاقت پائی ہے، جبکہ یوپی اے عوام کو بااختیار بنارہی تھی۔ اصل قصوار تو اناہزارے اور کیجریوال تھے جنہوں نے بی جے پی کی شہ پر ملک کو گمراہ کیا۔ ‘‘اے کے نامی صارف نے طنز کیا کہ ’’ ایک وقت تھا جب انا ہزارے کو سسٹم میں اتنی شفافیت چاہئے تھی کہ وزیراعظم کے اخراجات جیسی باتوں کا علم رکھنے کے حق کیلئے (آرٹی آئی) مہینے بھر بھوکے بیٹھے تھے۔ آج اپوزیشن جمہوریت کی بنیاد الیکشن پر ثبوت کے ساتھ سوال اٹھارہا ہے تو وہ چپ ہیں، واہ انّا اچھا کھیل گئے آپ‘‘
چلئے اگلے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔ راہل گاندھی کے ووٹر لسٹ گڑبڑی اور مبینہ ووٹ چوری مہم کے دعوؤں کے بعد سوشل میڈیا پربھی اس پر لمبی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ طنز و تشنیع اور پرمزاح تبصروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ منیشا آر جے نے ایک غیرملکی گلوکار کی ایک مختصر سی کلپ شیئر کرکے لکھا کہ ’’واہ کیانام ہے‘‘ جس میں گلوکار کے سر کے اوپر ایک ووٹر کا نام رینوکا کمیرے این لکھا ہے اوروالد کے نام کے آگے ’’نوہو نہیں نوہویا‘‘ درج ہے۔ گلوکار یہی نام بمشکل گاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ 
تیسرا ’ٹاپک ‘پیٹرول میں اییتھنول کی موجودگی کا ہے، اس پر بحث کیا چھڑی، حمایت و مخالفت کی باڑ آگئی۔ اس دوران کچھ نے محسوس کیا کہ اس معاملے میں انفلوینسرس بھی میدان میں آگئے۔ یہ وہ افراد ہیں جو سوشل میڈیا پراپنے کونٹینٹ کے حوالے سے مشہور ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے اپنے انداز میں غیر محسوس طریقے سے ایتھینول کے فوائد بتانے شروع کردئیے۔ ان میں کامیڈین بھی ہیں اور پوڈکاسٹرس بھی، ریڈیو جوکی بھی ہیں اور بلاگربھی۔ اس حوالے سے راون نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’بہت سارے انفلوینسرس آج کل ایتھنول بیچ رہے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک یہ سٹہ کھیلنا سیکھارہے تھے۔ اس کے بعد آدیواسی تیل بیچ رہے تھے۔ چار پیسے زیادہ ملے تو یہ اپنا پریوار بھی بیچ دیں گے۔ ہوسکتا ہے کچھ دنوں میں ’آئسو بیوٹینال‘ بھی بیچنا پڑے گا۔ ‘‘ 
سوشل میڈیا کے گلیاروں کا ایک اور ٹرینڈنگ موضوع ’کتے‘ ہیں۔ کیوں ہیں وہ تو آپ یقیناجانتے ہی ہوں گے۔ ان کے حقوق کیلئے ’انیمل لوور‘ سپریم کورٹ تک پہنچ گئے۔ حمایت مخالفت میں خوب بحثیں ہوئیں۔ آخر میں کورٹ نے کہہ دیا کہ سارے آوارہ کتوں کو پناہ گاہوں میں بھیجنا صحیح نہیں ہوگا۔ ان کی نس بندی کراکر چھوڑدیا جائے اور خونخوار کتوں کو ہی نگرانی میں رکھا جائے۔ کتوں کو قابو میں رکھنے کیلئے اور بھی بہت ساری ہدایات دی گئیں ۔ اس معاملے پرعجیب و غریب سرخیاں بھی چلائی گئیں۔ للن ٹاپ نے لکھا کہ ’’کتوں کی جیت، سپریم کورٹ نے پلٹا اپنا آدیش‘‘ اسے شیئر کرتے ہوئے مینا کوتوال نے سوال قائم کیا کہ ’’کتے اپنا مقدمہ خود لڑرہے تھے کیا‘‘مسزجی نے ایک مزاحیہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کتے تو ایک بہانہ ہیں، ووٹ چوڑی سے دھیان بھٹکانا ہے‘‘اس ویڈیو نظر آنے والا کہہ رہا ہے’’کتوں کے بارے میں پریشان ہونے کی بات نہیں، بھائی ذرا سوچو کہ جو چور اُچکے نہیں ہٹاپائے، ٹھرکی نہیں ہٹاپائے، گڑھے نہیں ہٹاپائے، یہ کتے ہٹائیں گے، قانون بن رہا ہے بن جانے دو، قانون تو یہ بھی ہے کہ کوئی رشوت نہیں لے گا۔ ‘‘
ذکر کتوں کا ہورہا ہے تو پچھلے دنوں پیش آنے والا ایک دلچسپ معاملہ بھی سنئے۔ جس کے متعلق یوگیندر یادو نے ایکس پر ۲۷؍جولائی کو یہ پوسٹ شیئر کی تھی ’’ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔ بہار میں ۲۴؍جولائی کو ایک کتے نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنوالیا۔ یہ وہی سرٹیفکیٹ ہے جسے بہار میں ایس آئی آر کیلئے تسلیم شدہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ آدھار اور راشن کارڈ کو فرضی بتایا جارہا ہے۔ آپ خود فوٹو اور نام جانچ لیجئے: ڈاگ بابو، پِتا کا نام:کتا بابو، ماتا کا نام :کتیا بابو اور پتہ: محلہ کاؤلی چک، وارڈنمبر ۱۵، نگر پریشد مسوڑھی۔ اس سرٹیفکیٹ کا رجسٹریشن نمبر: بی آر سی سی او/۲۰۲۵/۱۵۹۳۳۵۸۱، ہے۔ پریشان نہ ہوں، سرکار نے اس معاملے میں کارروائی کرنے کا تیقن دیا ہے۔ خبر بشکریہ ای ٹی وی بھارت۔ الیکشن کمیشن کے جواب کا انتظار ہے۔ ‘‘ اب یہ انتظار کتنا طویل ہوتا ہے، پتہ نہیں۔ چلئے اس ہفتے کا راؤنڈاپ یہیں تمام کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK