Inquilab Logo Happiest Places to Work

شبھانشو شکلا: ہندوستانی سائنس کی نئی تاریخ کا آغاز

Updated: August 24, 2025, 2:30 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

شبھانشو شکلا نے خلاء کی وسعتوں میں قدم رکھ کر اپنے اردگرد موجود کروڑوں ہندوستانی نوجوانوں کے حوصلوں کو نئی امیدیں دی ہیں ۔ یہ کامیابی دراصل اُس اعتماد کی نمائندگی ہے جو ہندوستانی نوجوانوں کے دلوں میں سائنسی صلاحیتوں کے سبب پیدا ہو رہا ہے۔

Shabhanshu Shukla`s flight is not just a scientific achievement but an inspiration. Photo: INN.
شبھانشو شکلا کی پرواز محض ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ تصویر: آئی این این۔

شبھانشو شکلا کی خلائی پرواز نے ہندوستان میں جو جوش اور ولولہ پیدا کیا ہے وہ محض تکنیکی کامیابی کی خوشی نہیں بلکہ ہمارے قومی خواب کی تکمیل کا جشن ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی لمحہ ہے جو صرف ایک فرد یا ایک ادارے کی کامیابی تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورے ملک کی علمی روایت، سائنسی ذہانت اور مشترکہ عزم شامل ہے۔ آج جب ہم آسمان کی وسعتوں میں ترنگا لہراتا ہوا دیکھتے ہیں تو یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ ہندوستان صرف زمینی سرحدوں تک محدود ملک نہیں رہا بلکہ اب اس کی پہنچ ستاروں تک ہوگئی ہے۔ 
شبھانشو شکلا نے خلاء کی وسعتوں میں قدم رکھ کر اپنے اردگرد موجود کروڑوں ہندوستانیوں کے حوصلوں کو نئی جِلا بخشی ہے۔ یہ کامیابی دراصل اُس اعتماد کی نمائندگی کرتی ہے جو ہندوستانی نوجوانوں کے دلوں میں اپنی سائنسی صلاحیتوں پر پیدا ہو رہا ہے۔ یہ اعتماد راتوں رات پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ ایک مسلسل علمی جدوجہد، سخت محنت، جدید تحقیقی نظام اور حکومتی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ۱۹۷۵ء میں جب ہندوستان نے پہلا مصنوعی سیارہ ’آریہ بھٹ‘ خلا میں روانہ کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ہمارا ملک انسانی خلائی مشن کا حصہ بنے گا۔ اُس وقت نہ وسائل تھے، نہ عالمی حمایت لیکن یہ ہندوستانی سائنسدانوں کی مستقل مزاجی اور اختراعی قوت تھی جس نے ناممکن کو ممکن بنایا۔ شبھانشو شکلا کی حالیہ پرواز اسی تاریخی تسلسل کا نیا باب ہے۔ 
چندریان مشن نے جب چاند کی سطح پر قدم رکھا تھا تو یہ کارنامہ صرف ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ اُس نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہندوستان اب صرف تعلیمی میدان کا نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان کا بھی رہنما بن چکا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں شبھانشو شکلا کی پرواز میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی خلائی پروگرام کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ’’اجتماعی اور جمہوری نوعیت‘‘ہے۔ چاہے وہ ممبئی کے انجینئرہوں، کولکاتا کے ریاضی داں ہوں، بنگلور کے سائنسداں یا حیدرآباد کی الیکٹرانکس لیباریٹری، سب نے مل جل کر ایسے سائنسی انفرااسٹرکچر کی بنیاد رکھی جو آج دنیا کے بہترین بنیادی سائنسی ڈھانچوں میں شمار ہوتا ہے۔ شبھانشو شکلا کی پرواز کے پیچھے بھی یہی مشترکہ کاوش کارفرما تھی۔ اس مشن کی تیاری میں ملک کے مختلف حصوں سے نوجوان سائنسدانوں نے تحقیق، ڈیزائننگ، پلاننگ اور آزمائش کے مراحل میں بھرپور ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ یہ محض سرکاری اداروں کی نہیں بلکہ پورے سماج کی کامیابی ہے۔ 
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستانی سائنس میں خواتین کی شراکت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ چندریان اور منگل یان مشن سے لے کر اس حالیہ انسانی خلائی پرواز تک خواتین سائنسدانوں نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیباریٹریز میں تحقیق سے لے کر مشن پلاننگ تک، خواتین سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی سائنسی ترقی ایک متوازن اور جامع قوت ہے جس میں جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے۔ شبھانشو شکلا کی پرواز کے موقع پر ان خواتین کی کاوشوں کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے جنہوں نے پردے کے پیچھے رہ کر اس کامیابی کو ممکن بنایا۔ 
شبھانشو شکلا کی اس پرواز نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کو چونکا دیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس کا ذکر ایک ایسے ملک کے طور پر ہوا ہے جو محدود وسائل کے باوجود حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک عرصہ دراز سے خلائی طاقت سمجھے جاتے ہیں لیکن ہندوستان نے اپنی تخلیقی سائنس، کم خرچ، منصوبہ بندی اور تیز رفتار ترقی سے یہ ثابت کیا ہے کہ مقابلہ اب یکطرفہ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی خلائی ایجنسیاں ہندوستان کے ساتھ شراکت داری میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ نجی کمپنیاں بھی ہندوستانی اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ اس عالمی شراکت نے ہندوستانی سائنسی ماحول کو نئی توانائی اور عالمی وقار بخشا ہے۔ اس کامیابی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی نوجوان اب تحقیق اور سائنسی تجربات میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں اب صرف کتابی علم تک محدود نہیں ہیں بلکہ حقیقی ریسرچ ہب بن رہی ہیں۔ طلبہ روایتی نوکری کے بجائے اختراع اور ریسرچ پر مبنی اسٹارٹ اپس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہی تبدیلی ہندوستان کے سائنسی مستقبل کو مضبوط اور پائیدار بنائے گی۔ 
لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اگلے دس برسوں میں مزید شبھانشو شکلا پیدا ہوں، تو ہمیں اپنے اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کو زیادہ عملی، تخلیقی اور جستجو پر مبنی بنانا ہوگا۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے لیباریٹری کلچر اور تحقیقی تجربات کا موقع دینا ہوگا تاکہ ان میں جدت اور سوال پوچھنے کی ہمت پیدا ہو۔ ہندوستانی سائنس کی بالادستی صرف خلائی حدود تک محدود نہیں ہے۔ آج ہندوستان بایو ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز میں بھی عالمی دوڑ کا اہم حصہ ہے۔ حکومت نے جہاں ایک طرف تحقیقی اداروں کو بہتر فنڈنگ دی ہے وہیں نجی شعبے کو بھی داخلے کی آزادی دی ہے۔ اس سے جدت اور رفتار دونوں بڑھی ہیں۔ یہ توازن ہی ہندوستان کو باقی ممالک سے منفرد بناتا ہے۔ مغربی دنیا کے ممالک جو زیادہ تر سرکاری یا نجی غلبے کے ماڈل پر کام کرتے ہیں، وہیں ہندوستان نے شراکت اور مشترکہ کوشش کا ماڈل اپنایا ہے جو زیادہ پائیدار نظر آ رہا ہے اور اس کے بہتر نتائج بھی مل رہے ہیں۔ 
شبھانشو شکلا کی پرواز محض ایک سائنسی کامیابی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، ایسی تحریک جو ہم سب کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر ہم یکسوئی اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں تو کوئی منزل دور نہیں۔ ہر نوجوان جو آج کسی چھوٹے قصبے یا گاؤں میں سائنس کی کتاب پڑھ رہا ہے، وہ مستقبل کا شبھانشو شکلا بن سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اسے مواقع اور حوصلہ فراہم کریں۔ جب شبھانشو شکلا خلاء سے واپس زمین پر آئے تو اُن کے چہرے پر صرف کامیابی کی مسکراہٹ نہیں بلکہ ایک قوم کی شان نظر آ رہی تھی۔ ان کے قدموں کے نشان آسمانوں تک جا پہنچے ہیں اور انہوں نے یہ سکھا دیا ہے کہ اگر آپ کے خواب فلک تک جانے کے ہیں تو آسمان بھی آپ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ فضاؤں کی حد سے آگے جانے والا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ ہندوستانی سائنس اپنے سنہرے دور میں داخل ہو چکی ہے اور شبھانشو شکلا کی تاریخی پرواز اس نئے سفر کا پہلا باب ہے۔ یہ صرف ایک کامیابی نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ ہندوستان اب علم، ہنر اور خوابوں کے بل بوتے پر ستاروں کی دنیا میں اپنی پہچان قائم کر چکا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK