برسہا برس سے یہ شکایت تھی کہ اساتذہ اور والدین کے درمیان بھی کوئی ربط نہیں رہتابلکہ ہمیشہ ٹکراؤ کی حالت ہی رہتی ہے۔
EPAPER
Updated: August 24, 2025, 1:01 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
برسہا برس سے یہ شکایت تھی کہ اساتذہ اور والدین کے درمیان بھی کوئی ربط نہیں رہتابلکہ ہمیشہ ٹکراؤ کی حالت ہی رہتی ہے۔
تعلیمی نظام یا دنیا کے ہر نظام کا اہم و کلیدی کردار والدین ہوتے ہیں۔ تعلیمی نظام کا جو محور ہمیشہ طالب علم ہوا کرتے تھے، اب اس کا محور والدین ہیں کہ حکومت نے اُنھیں اپنا ووٹ بینک بنادیا ہے لہٰذا اُنھیں خوش کرنے کی پوری پوری کوشش ہورہی ہے۔ اس تعلیمی نظام میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اُستاد کے مقابلے میں والدین کو افضل مقام دیا گیاہے۔ برسہا برس سے یہ شکایت تھی کہ اساتذہ اور والدین کے درمیان بھی کوئی ربط نہیں رہتابلکہ ہمیشہ ٹکراؤ کی حالت ہی رہتی ہے۔ اس تعطل کو توڑنے کیلئے ہرتعلیمی ادارے میں والدین واساتذہ کی ایک مشترکہ تنظیم ’پی ٹی اے‘ کا قیام ایک اچھا اقدام ہے اور اس کے قیام سے والدین اور اساتذہ کے درمیان ربط میں بہتری ہوئی ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں البتہ اس ضمن میں ایک بھیانک غلطی یہ ہوئی ہے کہ والدین کو اساتذہ پر برتری کا مقام دیا گیا۔ یہ انتہائی نا قابل فہم اقدام تھا س لئے کہ تعلیمی نظام کو متحرک رکھنے والا بہر حال اُستاد ہی ہے اور اُستاد کا مقام انتہائی اہم ہے اسلئے تعلیمی ادارہ کا وجود بھی ہے ور نہ طالب علم کوگھر کی چہار دیواری ہی میں رکھنے اور پڑھانے کا کوئی نظام رائج ہوتا مگر طالب علم کو علم وآگہی کے زیور سے آراستہ کرنے کا فریضہ صرف اور صرف اُستادہی کر سکتا ہے یہ تعلیمی نظام کاکھُلا اعتراف ہوتا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں والدین کو خوش کرنے کیلئے والدین واساتذہ کی تنظیم کو ایسے ایسے اختیارات کا اعلان کیا گیا ہے کہ سب سکتے میں آگئے ہیں۔ مثلاً تعلیمی ادارے کی ساری مشنری میں والدین کو عمل دخل کی اجازت دی گئی۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ محکمۂ تعلیم کے ذمہ داروں کو کیا یہ عام جانکاری ہے کہ ہندوستان گائوں میں بستا ہے؟ گائوں میں آج بھی ’مالک.... ہجور......‘ والا سسٹم رائج ہے۔ گاؤں کا سب سے بُرا کردار گاؤں کا مالک بنا رہتا ہے۔ گاؤں کا سرپنچ یاجماعت کا صدرعام طور پر وہ شخص ہوتا ہے جو با اثر ہو اور یہ کڑوی حقیقت جگ ظاہر ہے کہ عام طور پر یہ افراد غیر پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ اب تک کا تو منظرنامہ یہ تھا کہ گاؤں کا ٹھا کر یہ کہتاتھا کہ’’ وہ ماسٹر کے بچّے نے ہمّت کیسےکی میرے بیٹے کو ڈانٹنے کی ؟‘‘ اور اب نئی تعلیمی پالیسی میں تو یہ ’ٹھا کر‘ سارے تعلیمی ادارے کے مائی باپ بن گئے ہیں۔
شہروں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ آج بعض تنظیم والدین میں شامل اسا تذہ اور کچھ والدین کو لیڈر بننے کی ایک سیڑھی بن گئی ہے لہٰذا پی ٹی اے کے ممبران کا جو انتخاب ہوتا ہے اُس میں والدین کچھ ایسے والدین کو اُس تنظیم کا ممبر منتخب کرتے ہیں جو (الف) سب سے زیادہ جھگڑالو ہو ( ب ) منہ پھٹ ہو ( ج ) اساتذہ کو کھری کھری سنا سکتا ہو (د) اسکول آکر دندناتا پھرے (ہ) وقت ضرورت اساتذہ سے ہاتھا پائی سے بھی گریز نہ کرے۔ پی ٹی اے میں خواتین کا بھی کوٹا ہوتا ہے لہٰذا کہیں کہیں ایسی خواتین کو منتخب کیا جاتا ہے جن کے تعلق سے یہ علم ہو کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کا ناک میں دم کر رکھا ہو اور کوئی میٹنگ ہو یا نہ ہو جب بھی انہیں گھر کاموں سے فرصت ملے اسکول میں جا کر چلّا چلّا کر پورے اسکول کو سر پر اٹھا لے۔ ہمیں علم ہے کہ چند اساتذہ اور اُن کے اِداروں کے انتظامیہ کے ذمہ داران عدل و انصاف، غیر جانبداری اور ذمہ داری سے کام نہیں لیتے وہاں والدین کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے البتہ اساتذہ کیلئے احترام اور اِدارے میں ڈسپلن کو برقرار رکھنا بنیادی ضرورت ہے۔
پی ٹی اے کی تشکیل سے کسی ادارے کو فائدہ پہنچا ہے ایساکہنے والا ایک بھی ٹیچر ہمیں ابھی تک نہیں مِلا ہاں، پی ٹی اے ممبران کی اسکولوں میں دھما چوکڑی وغیرہ کے واقعات بارہا سننے کو ملتے ہیں۔ پی ٹی اے کے ممبران والدین در اصل اس طرح اپنے بچّوں کا بھی شدید نقصان کرتے ہیں۔ بچّے جب یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کے والدین اسکول میں آکر اسا تذہ کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے ہیں تب اُن بچّوں پر اُس کے کس قدر منفی اثرات ہوتے ہیں اس کا اندازہ وہ کر سکتے ہیں ؟
پی ٹی اے کے ممبر ان کے بچّوں کا ہونے والا شدید نقصان کیا ہے اس کا آیئے جائزہ لیں۔ اوّل تو یہ کہ اسکول کے اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی یہ ساری پلاننگ پی ٹی اے ممبران کے گھروں میں مسلسل چلتی رہتی ہے۔ دوسرے ممبران سے اس پلاننگ کی باتیں فون پر مسلسل جاری رہتی ہیں اور اُن کے بچّے بھی وہ ساری باتیں سنتے رہتے ہیں۔ اب ذرا یہ بتائیے کہ اُن کے بچّوں کے دلوں میں ان اساتذہ کی عزت کیا رہے گی ؟ جن اساتذہ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانا چاہئے، اُنہی اساتذہ کے ضمن میں اہانت آمیز کلمات بچّوں کے سامنے استعمال کئے جاتے ہیں۔ کیا وہ بچّے اسکول جا کر اپنے اساتذہ کی عزت کریں گے؟ اگر بچّے اپنے استاد کی عزت نہیں کریں گے تو وہ پھر دوسرے بڑے بزرگ یا خود اپنے والدین کی عزت کہاں کریں گے؟ ویسے بھی ہندوستانی تعلیمی نظام اور آر ٹی ای وغیر ہ اسکولوں میں تاریخ، جغرافیہ، سائنس و ریاضی سکھانے کی بات کرتا ہے۔ وہ اخلاقیات، بڑوں کا ادب وغیر ہ سکھانے کی بات ہی نہیں کرتا۔ اُس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اب آپ کا بچّہ اسکول سے تاریخ و سائنس تو پڑھ آئے گا، اخلاقیات کا ایک بھی درس اسکول میں پڑھے گا نہ آپ کے گھر میں کیونکہ محکمۂ تعلیم نے آپ کو والدین سے ’ترقی‘ دے کر پی ٹی اے ممبر بنایا ہے لہٰذا آپ کے گھر میں اساتذہ کو سبق سکھانے، اُنہیں نیچا دکھانے اور ان کا ناک میں دم کرنے کی ساری کھچڑی آپ کے گھر مسلسل پک رہی ہے۔ حکومت کے موجودہ پی ٹی اے سسٹم سے والدین تو ’لیڈر‘ بن رہے ہیں مگر ان کے بچّے کچھ نہیں بن رہے، کچھ بھی نہیں !
اب اس کے بعد کا مرحلہ ملاحظہ فرمائیے۔ آپ کے بچّوں کے اساتذہ کے ساتھ آپ کی بد تمیزی سے آپ کے بچّوں کے حوصلے بھی بلند ہو جائیں گے اور پھرممکن ہے وہ بھی اپنے اساتذہ سے بدتمیزی شروع کریں گے۔ اساتذہ اُنہیں نہیں روکیں گے۔ کیوں ؟ دو وجوہات ہیں : اوّل یہ کہ وہ ’معزز‘ بچّے ہیں یعنی پی ٹی اے ممبر کے بچّے ہیں۔ اُن کو ڈانٹ کر کون مصیبت مول لے؟ دوم یہ کہ شاید اساتذہ بھی یہیں چاہیں گے کہ اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے والدین کے بچّے بھی اُن والدین جیسے ہی بن جائیں۔ جی ہاں، وہ آپ کے بچّے کو بد تمیز، منہ پھٹ اور بدمعاش بچّہ بننے سے نہیں روکیں گے بلکہ وہ آپ کے بچّے کو محلے یا علاقے کا سب سے بدتمیز بچّہ بنانے کیلئے شعوری یا لاشعوری طور پر مدد کریں گے۔
اس کا اگلا مرحلہ بھی سن لیجئے۔ چوتھی جماعت میں جانے کے بعد آپ کا بچّہ آپ کی ہر بات کی نافرمانی کرے گا۔ چھٹی جماعت میں جانے کے بعد وہ آپ کو اُلٹے جواب دے گا۔ ساتویں میں جانے کے بعد وہ آپ پر چلائے گا۔ آٹھویں جماعت میں پہنچنے پر آپ کو آنکھیں دکھائے گا۔ نویں جماعت میں جانے کے بعد آپ پر ہاتھ اُٹھانے کیلئے دوڑے گا اور دسویں جماعت میں پہنچتے ہی آپ کو ایک آدھ تھپّڑ بھی جڑ دے گا۔
خدارا اسے مبالغہ آرائی نہ سمجھیں اگر آپ تعلیمی نظام کے سب سے اہم رُکن یعنی اُستاد کی عزت نہیں کریں گئے اور صرف پی ٹی اے ممبر کے تمغے کیلئے اساتذہ سے تھوڑی سی بھی بد تمیزی کریں گے تو یہی ہوگا، آپ کے بچّے کی ’ترقی‘ بس ایسی ہی ہوگی۔ چوتھی جماعت میں نافرمانی اور دسویں میں آپ کے منہ پر آپ کے بچّے کا تھپّڑ، اللہ نہ کرے ایساہو۔