’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: May 22, 2025, 2:42 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
ماں کی بے لوث قربانیاں یاد آتی ہیں
ماں وہ خوبصورت لفظ ہے جس میں محبت اور اپنائیت پائی جاتی ہے، یہ وہ مقدس رشتہ ہے جس کے سامنے سارے رشتے ہیچ ہیں ۔ دنیا کے سارے رشتوں میں خود غرضی و مفاد پرستی آسکتی ہے لیکن ماں کی محبت بے لوث اور خلوص سے پر ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ خود بھوکی رہ جاتی ہے لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتی ہے، خود گیلے بسترپر سو جاتی ہے لیکن اپنے بچہ کو سوکھی جگہ پر سلاتی ہے۔ ماں اپنی اولاد کے لئے اپنی ہر خواہش کو قربان کردیتی ہے، بچوں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتی ہے۔ ماں کی عظمت اور اس کی خدمات کو یاد کرنے کے لئے ایک دنــــ مدر ڈے ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ہمیں اپنی ماں کو یاد کرنا چاہئے اگر والدہ وفات پاگئی ہیں تو ہمیشہ ہمیں ان کو دعائوں میں یاد کرنا چاہئے۔ اگر باحیات ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہئے اور ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ میری والدہ الحمد للہ باحیات ہیں ، آج بھی جب میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں ، میری اور میرے بھائی بہنوں کی پرورش میں ماں کی قربانیوں کو یاد کرتاہوں تو دل محبت سے لبریز ہوجاتا ہے اور یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ماں یہ ایثار وقربانی کا دوسرا نام ہے۔ ممبئی میں رہنے کی وجہ سے کما حقہ خدمت نہیں کرپارہا ہوں ، پھر بھی وقفہ وقفہ سے فون پر باتیں کرتا رہتا ہوں اور ان کی دعائیں لیتا رہتا ہوں ، ان کی ضروریات کوپورا کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہوں ۔ سچ ہے کہ ماں سے باتیں کرنے اور ان کی دعائیں مل جانے کے بعد زندگی کا بڑا سا بڑاغم وتکلیف ہلکی ہوجاتی ہے اور طبیعت کو سکون واطمینان مل جاتا ہے۔
ابو حماد صلاح الدین سنابلی( کرلا ویسٹ ممبئی)
ہر دن اپنی ماں کو یاد کرتا ہوں
۱۱؍ مئی کو ہر سال یومِ مادر منایا جاتا ہے اور ماں کی شفقت، محبت اور قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے لیکن میرے لئے تو ہر دن یومِ مادر ہے۔ گو کہ میری ماں کا انتقال ہوئے برسوں بیت گئے ہیں لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن میں اپنی ماں کو یاد نہ کرتا ہوں۔ میری ماں ایسا سایہ دار درخت تھی جس کے سایہ میں میں نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام گزارے۔ اس نے مجھے دکھ، درد، الم اور مصیبت کا کبھی بھی احساس ہونے نہیں دیا۔ میری ماں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا لیکن ان کو تعلیم سے والہانہ لگاؤ اور جنون تھا۔ پیرانہ سالی کے باوجود قرآن پڑھنا سیکھا۔ اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب وہ تلاوت نہ کرتی رہی ہوں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں ۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ علم حاصل کرنے اور دین پر چلنے کی تلقین کیا کرتی تھی۔ پرانے وقتوں میں تعلیم نسواں کو بہت ہی معیوب سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو ہائی اسکول میں داخلہ سے روک دیا جاتا تھا لیکن میری ماں وسیع النظرتھی۔ فہم و فراست اور دانائی کی حامل تھی، اس لئے اس نے کئی مخالفتوں کے باوجودمیری چھوٹی بہن کو ہائی اسکول میں داخل کروایا۔ آج میں جو کچھ ہوں وہ میری ماں کی دعاؤں، تربیت، محبت اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ میری ماں انتہائی سادہ مزاج تھی اور سادہ لباس بھی پہنا کرتی تھی۔ عید الفطر، عیدالاضحی اور محرم جیسے تہواروں پر پکوان کا خاص خیال رکھتی تھی اور مہمانوں کی خاطرو مدارت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتی تھی۔ بارش سے قبل کچے آموں (کیری ) کے موسم میں سال بھر کے لئے آم کے اچار ضروور بناتی تھی۔ ماں کے ہاتھوں میں جو لذت تھی اس کا ذائقہ ہم تمام گھر کے افراد آج تک نہیں بھول پائے ہیں۔ میری ماں کو دنیا سے رخصت ہوئے سالوں بیت گئے ہیں لیکن اس کی یادیں ابھی تک میرے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے جو صرف ماں کی خدمت سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنی ماں کی خدمت کرے۔ اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارے۔ اس کی قربانیوں کے لئے اس کا شکریہ ادا کرے نیز اپنی زندگی میں ماں کی ممتا، اس کی بے لوث محبت کی اہمیت کو سمجھے۔
ملک مومن( بھیونڈی)
اُن کی یاد شدت سے آتی ہے
ماں ایک مختصر مگر بےحد وسیع لفظ ہے، جو محبت، قربانی، دعا اور رحمت کا مظہر ہے۔ میری ماں، مرحومہ سمانہ خاتون، خوبصورت، سادہ اور عبادت گزار خاتون تھیں، جن کی زندگی سجدوں کی خوشبو، روزوں کی روشنی اور اولاد کی خدمت سے روشن تھی۔ اُن کے ہاتھوں میں شفقت، آنکھوں میں حیا، اور لہجے میں دعا ہوتی تھی۔ کچھ رشتے وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتے، ماں ایسا ہی رشتہ ہے۔ ایسی روشنی جو دنیا سے چلی جائے، پھر بھی روح میں جلتی رہتی ہے۔ وہ میری عبادتوں کی خاموش دعا، حیا، پاکیزگی اور سکون تھیں۔ اُن کی یاد شدت سے آتی ہے، جب درد ہو، خوشی ملے، سجدہ بھٹکے، پان یا پاندان کی خوشبو آئے، کسی باپردہ خاتون یا بہن کو دیکھوں، وطن جاؤں، مصلی یا وضو کا لوٹا دکھے، یا کسی اور کی ماں کے انتقال کی خبر مل، ایساہر منظر اُن کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ وہ میری پہلی معلمہ، رہنما، اور ہمدرد تھیں، جن کی دعاؤں نے مجھے شکر سکھایا۔
سیدہ خوش ناز جعفر حسین( انجمن اسلام ہائی اسکول، ممبئی)
صبر، شکر اور استقامت کا استعارہ
میری والدہ صبر، شکر و استقامت کا استعارہ ہیں۔ وہ مشرقی تہذیب کی پروردہ ہیں اور دینی مزاج رکھتی ہیں۔ ۸۳؍ سال کی عمر میں بھی رمضان میں کئی مرتبہ تلاوتِ قرآن مجید مکمل کرتی ہیں۔ میری دوسری ماں (ساس) سے بھی بھرپور شفقت و محبت ملتی رہی۔
پروین افتخار(نزد ہندوستانی مسجد، بھیونڈی)
’میری ماں کی دعا میرے لئے دربان جیسی ہے‘
جنت کا سب سے اچھا تحفہ ماں ہے کیونکہ ماں ایک ایسی ہستی ہے جس میں ممتا ہے، خلوص ہے اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہے۔ چاہے دنیا کی ہر چیز ختم ہو جائے لیکن ماں کا پیار ختم نہیں ہوتا۔ ماں وہ عظیم ہستی کا ہے جسکی عظمت کو دنیا کی عظیم شخصیتوں نےسلام کیا ہے۔ ماں کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اپنی شخصیت کو ماں کا مرہون منت بتایا ہے۔ ماں دنیا کی عظیم ترین ہستی اور زندگی میں محبت و شفقت کا روشن مینار ہے۔ ماں کی خوشنودی دنیا میں باعث دولت اور آخرت میں باعث نجات ہے۔ دنیا میں سب سے شیریں اور دلنیش محبت ماں کی ہوتی ہے، اس کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماں جیسی نعمت دنیا میں کوئی دوسری نہیں۔ اگر ہم محبت و شفقت کے روپ میں دیکھیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر محبت کرنے والا دوسرا نہیں ہے۔ ماں وہ ہے جو ہمارے لئے رات دن دعائیں کرتی ہے اور اپنے رب سےالتجا کرتی ہے، تاکہ اس کے بچے اس دنیا میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔ ماں ایسی خوشبو ہے جس سےیہ جہان مہک اُٹھتا ہے۔ رب العزت نے اپنا وصف رحمت اسے عطا کر کےاسکے درجات اور مقامات کو اتنا بلند کر دیا کہ جنت اسکے قدموں کے نیچے قرار دی گئی۔ ماں کی فرمانبرداری کرنےوالا جنت میں اور نافرمانی کرنے والا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ساری زندگی بھی ماں کی خدمت کرتا ہے پھر بھی والدین خصوصاً ماں کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے اور وہ یہ کہے کہ میں بڑا خوش نصیب ہوں لیکن اس کے پاس ماں نہ ہو تو وہ دنیا کا سب سے بد نصیب شخص مانا جائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین خصوصاً ماں کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین
بقول شاعر؎
بلائیں لوٹ جاتی ہیں تیرا مشکور ہوں یا رب
میری ماں کی دعا میرے لئے دربان جیسی ہے
سلطان احمد پٹنی( بیلا سس روڈ، ممبئی )
میری ماں والد کی اطاعت گزار تھیں
میری والدہ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے ۸؍ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن کوئی ایک دن آج تک ایسا نہیں گزرا جب میں نے انہیں یاد نہ کیا ہو۔ میری ماں کو اگر مجھے ایک لفظ میں بیان کرنے کہا جائے تو میں کہوں گی ’خدمت‘۔ کہتے ہیں نا کچھ لوگ عبادت سے خدا کو پاتے ہیں اور کچھ لوگ خدمت سے، میری ماں کا شمار آخر الذکر قسم کے انسانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا اگر کسی کو تکلیف میں دیکھا تو فوراً اس کی تکلیف رفع کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جاتیں۔ میری ماں میرے والد صاحب کی بے حد اطاعت گزار تھیں۔ ابو نے اگر کسی کام سے روک دیا ہو تو مجھے نہیں یاد امی نے کبھی جرح کی ہو، ہم نے اپنے گھر میں کبھی والدین کے مابین بحث و تکرار کا ماحول نہیں دیکھا۔ ابو کی قلیل آمدنی میں بھی امی نے ہم چاروں بھائی بہنوں کی احسن طریقے سے پرورش کی اور کبھی معاشی تنگی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ ہم بھائی بہنوں میں آج بھی اس بات پر بحث چھڑ جاتی ہے کہ امی ہم میں سے کس کو زیادہ پیار کرتی تھیں اور سبھی یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ امی اسی سی سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں یہ میری ماں کا پیار کرنے کا خوبصورت انداز تھا۔
مجھے یاد ہےکہ میری شادی کے بعد جب میں مشکل ترین حالات سے گزر رہی تھی، میری امی سیسہ پلائی دیوار کی طرح مجھے سہارا دینے کے لئے کھڑی ہو گئیں اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنا ٹوٹا ہوا تعلیمی سلسلہ از سر نو جاری رکھ سکی۔ اس وقت میری امی میرے بچوں کی بھی امی بن گئیں لہٰذا آج میں جو کچھ بھی کامیابی اپنی زندگی میں حاصل کر سکی ہوں، اس کا سارا کریڈٹ بلاشبہ میرے والدین اور بالخصوص میری امی کو جاتا ہے جنہوں نے مجھے ایسا بلند حوصلہ عطا کیا جس کے ذریعے میں مسائل کا سامنا جرأت اور دلیری سے کر سکی۔ میں نے اپنی امی کی شخصی خوبیوں کا جس قدر مشاہدہ کیا ہے اس کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں ۔ بس دعا ہے کہ وہ اس جہاں میں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا محو آرام ہوں اور اللہ انہیں بروز حشر جنت کے اعلیٰد رجات عطا فرمائے۔
حنا فرحین مومن(معاون معلمہ، رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج)
ساری ماؤں میں مجھے اپنی ماں نظر آتی ہے
ہماری والدہ نے سلائی کر کے ہمیں پالا۔ خود بہت دکھ جھیلے لیکن ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونے دی۔ دنیاوی علوم کے ساتھ ہی اخلاقیات کا درس بھی دیا۔ اسلئے ہم آج بھی اپنی آبادی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ہمیں وہ ماں یاد آجاتی ہے جنہیں دنیا بی اماں کے نام سے جانتی ہے۔ جنہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ اسی طرح ماں کو یاد کرنا ہو تو فوراً منور رانا کا نام بھی یاد آجاتا ہے۔ علی برادران کی ماں کو یاد کریں تو دل جوش سے بھر جاتا ہے اور منور رانا کا کلام پڑھتےہی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ کسی کا قول ہے کہ کبھی ماں باپ کے سامنے رویا مت کرو، یہ مٹی کی دیواروں کی مانند ہوتے ہیں۔ جس طرح مسلسل گیلی رہنے سے دیوار کمزور ہو جاتی ہے، ویسے ہی بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے رہنے کی وجہ سے والدین کمزور ہو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ساری ماؤں میں مجھے اپنی ماں نظر آتی ہے۔ عباس تابش نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ایک مدّت سے مری ماں سوئی نہیں ہے تابش
میں نے اک بار بار کہا تھا، مجھے ڈر لگتا ہے
مرتضیٰ خان(نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
دل میں ماں کی عظمت ہمیشہ قائم رہے گی
میری والدہ خود تو تعلیم حاصل نہیں کرسکیں لیکن ہماری تعلیم کو تمام کاموں پر فوقیت دی تاکہ ہمسماج میں با عزت زندگی گزارسکیں۔ ساتھ ہی بیٹیوں کو گھر گرہستی کے گُر سکھانے کو انہوں نے اپنا نصیب العین سمجھا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکرا ہٹ چھائی رہتی تھی۔ معاشی تنگی ہو یا فراوانی اپنوں کے ساتھ ہی غیروں کی ضروریات کا بھی ہمیشہ خیال رکھا اور اسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھا۔ کسی غریب کی مدد غائبانہ طور پر کرتی تھیں لیکن ہم سب کو قریب بٹھا کر اسے بتاتی تھیں تاکہ وہی جذبہ ہم میں بھی پیدا ہو اور دوسروں کی مدد کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔ اپنی اولاد پر یکساں توجہ مرکوز کرکے انہیں کامیابی کی بلندیوں پر دیکھنا ہی ان کاخواب ہوتا تھا۔ گھر خرچ کو ہماری والدہ اِس خوبی سے سرانجام دیتی تھیں جیسے انہوں نے معاشیات کی ڈگری لے رکھی ہو۔ ایک ایک پیسے کو صحیح مصرف میں استعمال کرنے میں مہارت رکھتی تھیں۔
محمد سلمان شیخ(امانی شاہ تکیہ، بھیونڈی)
بیمار ہوتا ہوں تو ماں بہت یاد آتی ہے
آج مجھے اپنی ماں سے دور رہتے ہوئے تقریباً۱۷؍ سال ہو گئے ہیں۔ جب میں ۷۔ ۶؍ سال کا تھا۔ تب پہلی بار ماں سے دور ہوا تھا۔ اُس وقت ایک گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے ۲۰؍ سے زائد بار فون پر بات کی تھی۔ اس وقت جو درد محسوس کیا تھا، اسے عربی کے ایک قول’ الإنتظار أشدّ مِن الموت‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ ماں سے ملنے کا انتظار ہم سب کو رہتا ہے مگر انتظار موت سے بھی بدتر ہے۔ ماں کے ساتھ گزارا ہوا ہر پل، ہر لمحہ، ہر سیکنڈ ہماری یاد کا اہم ترین حصہ رہتا ہے۔ اسے بیان کرنا جیسے کوزے میں سمندر کو سمونا ہےجو کافی مشکل ہے۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے جو خود تو بھوکا رہ لیتی ہے مگر اپنے بچوں کو کبھی بھوکانہیں رہنے دیتی۔ جب ہم پردیش میں کام کرنے آتے ہیں تو اکثر اوقات بھوکا سونا پڑتا ہے۔ بیماری کے حالت میں بھی کوئی پرسانِ حال نہیں رہتا، ایسی حالتوں میں ماں کی بہت یاد ستاتی ہے۔
نام نہیں لکھا( لیکچرر، دار الہدیٰ مہاراشٹر سینٹر، بھیونڈی)
ماں کی باتیں آج بھی میرا راستہ روشن کرتی ہیں
میری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں مگر ان کی باتیں، دعائیں اور نصیحتیں آج بھی میری یادوں میں زندہ ہیں۔ زندگی میں کوئی پریشانی جب دل پر بوجھ بن جاتی تب وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ’’بیٹا! قرآن پاک میں ہر مسئلے کا حل ہے، وہی تمہارا سہارا ہے۔ ‘‘دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ماں صرف دوم جماعت تک ہی اسکول جا سکیں مگر ان کا علم اور فہم اتنا وسیع تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ ہندی، مراٹھی، اردو اور عربی پر اُن کو خاصی قدرت حاصل تھی۔ وہ اکثر قرآن پاک کی تفسیر پڑھ کر مجھے سناتیں، سمجھاتیں اور میرے حالات کے مطابق آیات کا مفہوم بیان کرتیں۔ مکافاتِ عمل کا مفہوم، صبر و شکر کی تلقین، والدین کی خدمت، سچائی اور نیت کی صفائی یہ سب میں نے کسی مدرسے میں نہیں اپنی ماں سے سیکھا۔ وہ رسمی تعلیم میں پیچھے رہ گئیں مگر زندگی کے سبق میں وہ ہم سب سے آگے تھیں۔ ان کی باتیں آج بھی میرا راستہ روشن کرتی ہیں۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
ماں کی خوشبو میری سانسوں میں بسی ہوئی ہے
میں ہر پل اَپنی والدہ کو یاد کرتا ہوں جو میرے بغیر کھانا نہیں کھاتی تھیں اور گھنٹوں میرے اِنتظار میں بیٹھی رہتی تھیں۔ اِسلئے میں ہر پل اَپنی والدہ کو یاد کرتا ہوں۔ اُن کی میٹھی میٹھی باتیں، اُن کی دُعائیں میرے ذہن میں کچھ اس طرح پیوست ہو چکی ہیں کہ وہ میری زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔ مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی دُعائیں آج بھی میرے ساتھ ہے۔
ماں کی آغوش تو اب خواب بن چکی ہے، لیکن اُن کی خوشبو میری ایک ایک سانس میں بسی ہوئی ہے۔ اِسلئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا گو رہتا ہوں کہ اے رَب کریم میری ماں پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ مجھے اُن کی کمی ہر لمحے محسوس ہوتی ہے۔ جب بھی تکان محسوس کرتا ہوں، زندگی میں کوئی پریشانی آتی ہے یا پھر کسی وجہ سے دِل اُداس ہوتا ہے تو ان مواقعوں پر ماں کی بہت یاد آتی ہے اور سچ یہ ہے کہ ان کی یاد دِل کو سکون دیتی ہے۔ ماں کی گود جیسا سکون کہیں نہیں ملے گا۔ اُن کی کمی ہر خوشی میں محسوس ہوتی ہے۔ ماں کی دِی ہوئی نصیحتیں آج بھی میری زندگی کا سہارا ہیں ۔ ما ں کی ممتا بھری وہ محبت آج بھی میری روح میں مہک رہی ہے۔
پرنسپل ڈاکٹر محمد سہیل لو کھنڈ والا (سا بق رکن اسمبلی، ممبئی)
میری ماں ہی میری پہچان ہیں
میری ماں پڑھی لکھی نہیں تھیں، لیکن اُن کا شعور، اخلاص اور تربیت ایسی تھی کہ آج ہم سب بھائی بہن سماج میں باعزت مقام پر فائز ہیں۔ وہ سادہ زندگی گزارتی تھیں مگر اُن کے ارادے اور خواب بہت بلند تھے۔ ہم۶؍بھائی اور دو بہنوں کے ساتھ گھر میں ۱۲؍ افراد کا کنبہ تھا۔ میری ماں اکیلے ہی سب کا کھانا بناتیں، کپڑے دھوتیں، صفائی ستھرائی کرتیں اور ہر بچے کا تعلیمی خیال رکھتیں۔ کسی کے چہرے پر پریشانی نہ آئے، یہ اُن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی تھی۔ انھوں نے تعلیم کو بہت اہمیت دی، حالانکہ وہ خود کبھی اسکول نہیں گئیں۔ وہ کہتی تھیں :بیٹا! میری قسمت میں تعلیم نہ سہی، تم لوگ پڑھ لکھ کر زندگی بناؤ، یہی میری کامیابی ہے۔ خوب پڑھو یہ تم کو بہت اونچا مقا م دےگا۔ ‘‘آج ان کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ:سب سے بڑے بھائی نے ایل ایل بی کیا اور بینک میں منیجر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ بڑی بہن معلمہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ سب سے چھوٹے بھائی نے پروین شاکر کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی... اور میں خود اُردو اور تاریخ سے پوسٹ گریجویٹ ہوں۔ یہ سب ماں کی قربانیوں، تربیت اور دعاؤں کا ثمر ہے۔ اُن کی زندگی ہمارے لئے ایک آئینہ ہے۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفےٰ(ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی)
ماں صرف ایک رشتہ ہی نہیں ، پوری کائنات ہے
میں اپنی والدہ کیلئے پانچوں نمازوں میں دعا کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید کے ذریعے اور اس کے رسولؐ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اس کے علاوہ سال میں دو بار سفر کرتا ہوں ملاقات کے لئے، گھر جاتا ہوں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے خرچ کرتا ہوں کیونکہ ماں صرف ایک رشتہ ہی نہیں ، پوری کائنات ہے۔ ماں کی عظمتوں کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا عادل ندوی( چکھلی، پونے)
ماں مرے حق میں دعائیں کردے
عورت کا سب سے عظیم روپ ماں ہے۔ انکساری، سخاوت اور شگفتگی میری امی کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ وہ دینی و ادبی مزاج رکھتی ہیں اور محبوب روزنامہ انقلاب کے صفحات کو اپنی نگارشات سے زینت بخشتی رہتی ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی امی کا حوصلہ مثالی ہوتا ہے۔ میں انہیں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں کہ:
’’ماں مرے حق میں دعائیں کردے:میں تو ہوں تیری دعا سے واقف ‘‘
ہبہ افتخار انصاری(فرید میموریل جونیئر کالج، بھیونڈی)
ماں کے کھلانے سے جو جی بھرتا تھا، وہ اب نہیں بھرتا
میں جب ۳۰؍ سال کا تھا، تب میری ماں اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ اُس عمر تک جتنا ہو سکا تھا، میں نے اپنی ماں کی خدمت کی تھی مگر آج مجھے لگتا ہے کہ میں نے ماں کی وہ خدمت نہیں کی جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ ماں کو یاد کرکے دل پسیج جاتا ہے کہ کاش آج میری ماں حیات ہوتیں تو میں ان کی ایک آواز پر ہر وہ چیز حاضر کر دیتا جس کا وہ حکم دیتیں۔ میں غلطی کرتا تو وہ مجھے ڈانتیں اور میں مسکراکر انہیں منالیتا۔ وہ مجھ پر ناراض ہوتیں تو میں ان کے قدموں کو چوم کر انہیں راضی کر لیتا۔ ماں کے ہاتھوں سے بنےکھانوں کا ذائقہ آج بھی یاد آتا ہے۔ آج کھانوں میں لذت تو ہے مگر ممتاکی وہ برکت نہیں۔ دو روٹی کھانے کی حاجت ہوتی تھی تو ماں تین روٹیاں دیتی تھیں۔ تھوڑا سا چاول کھانا ہوتا تھا تو وہ تھوڑا سا اور چاول پلیٹ میں ڈال دیتی تھیں اور جب میں دیر رات کو سب سے آخر میں کھانا کھانے بیٹھتا تو وہ یہ کہہ کر برتن کے سارے چاول میرے پلیٹ میں ڈال دیتیں کہ اب کوئی نہیں کھانے والا، کل باسی تجھے ہی کھانا ہوگا، اسلئے ابھی تازہ ہے، کھا لے۔ آج اللہ تعالیٰ نے کافی نعمتیں عطا کی ہیں، پیٹ بھی بھر جاتا ہے مگر ماں کے کھلانے سے جو جی بھرتا تھا، وہ اب نہیں بھرتا۔ گھر میں کوئی بات نکلتی ہے تو اپنے بچوں کو اپنی ماں کی وہ تمام باتیں بتاتا ہوں جو مجھے اُس وقت ایک عام سی بات لگتی تھی لیکن آج وہی باتیں، وہی یادیں میں اپنی اولاد کو بطور خاص نصیحت سناتا اور سمجھاتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ماں کے چلے جانے سے دعا کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، ہوتا ہوگا مگر میرا دل کہتا ہے کہ وہ دروازہ کھل بھی سکتا ہے۔ جب بھی مجھے کوئی پریشانی ہوتی ہے یا خوشی کی کوئی بات ہوتی ہے تو میں ماں کی قبر پر جاتا ہوں، ان کے سرہانے بیٹھ کر اس یقین سے دل کی باتیں کہتا ہوں کہ وہ میری باتیں سن رہی ہیں اور چونکہ وہ اللہ کے قریب ہیں، اسلئے اللہ تعالیٰ تک میری باتیں پہنچا بھی رہی ہوں گی۔
مبین اظہر انصاری(مولانا آزاد روڈ، ممبئی)
میری ماں کی شفقت اور ممتا لاجواب تھی
ماں کی عظمت کا اعتراف دنیا کے تمام مذاہب میں کیا گیا ہے۔ ہمارے دین میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ میری ماں کی شفقت اور ممتا لاجواب تھی۔ ان کی بہترین تربیت اور عمدہ پرورش ہی کا نتیجہ ہے کہ آج میں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے سرفراز ہو کر ملک و ملت کی خدمت میں سرگرم ہوں۔ ہمارے بچپن میں اپنے ہاتھوں سے کاجل بناکر آنکھوں میں لگانا اب تک یاد ہے ’’ذرا سی بات ہے لیکن ہوا کو کون سمجھائے:دیئے سے میری ماں میرے لئے کاجل بناتی ہے‘‘
افتخار احمد اعظمی( سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
فجر کی نمازپڑھنے پرہی امی صبح کی چائے دیتی تھیں
الحمدللہ ہم اُن خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کی والدہ ماجدہ بقيد حیات ہے والدہ سے بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ امی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکی تھیں، جس کا اُنھیں شدت سے احساس تھا۔ اسلئے انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم اورتربیت پرخصوصی توجہ دی۔ نمازکی پابندی کیلئے یہ انوکھی سختی تھی کہ فجر کی نماز پڑھنے پرہی صبح کی چائے دی جاتی۔ ظہر پڑھنے پر دوپہر کا کھانا، مغرب پڑھنے پر رات کا کھانا اور عشاء پڑھنے پر گھر میں سونے کی اجازت ملتی تھی۔ اس سختی کا یہ اثر ہوا کہ رفتہ رفتہ ہم سبھی بھائی بچپن ہی میں نمازی بن گئے اور بڑے ہونے پرالحمدللہ یہ عادت پُختہ ہو گئی۔ امی کی یہ نصیحت اب زندگی کا لازمی جزو ہے کہ ہمیشہ صبر، شکر اور محنت سے حالات کا مقابلہ کریں۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
ماں تو بس ماں ہوتی ہے
مجھے الفاظ اجازت نہیں دے رہے کہ میں اسے جملوں میں لکھوں، اس وجہ سے اس شعر کو اپنا سفارشی بنانے کی سعی کی ہے، کہ یہ شعر ہی بتا دے اس کی ویلیو کیا ہے اولاد کی زندگی میں ’اے کہ تیری گود میں پلتی ہے تقدیر امم‘
ماں ہی وہ ہستی ہے جس سے امت کو مجاہد ملے، مرد قلندر ملے، سائنٹسٹ، ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر اور علماء ملے۔ میں کیا کہوں کہ مجھے ماں کب اور کیسے یاد آتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ماں ہر اُس وقت یاد آتی ہے جب میں کسی دُکھ اور پریشانی میں ہوتی ہوں، جب کوئی کام اٹکا ہو، جب کوئی کاندھا درکار ہویاجب تربیت کی ضرورت ہو۔ تربیت سے یاد آیا کہ میری ماں ہمیں سنت پر چلنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتی تھیں کہ یہی وہ رستہ ہے جس سے دنیا میں بھی عزت ہے اور آخرت بھی بہترہوتی ہے۔ ان کی ہی تعلیم ہے کہ کوئی تکلیف آئی ہے تو قرآنی وظائف پڑھنا شروع کر دیتی ہوں۔ ماں تو بس ماں ہوتی ہے، اس کی محبت نقلی اور ضرورت تک محدود نہیں ہوتی۔ ایسے ہی تو رب کی محبت کو ماں کی محبت سے زیادہ کہہ کر تشبیہ نہیں دی گئی ہے۔ مجھے فخر ہے اپنی ماں کی تربیت اور اس کی ممتا پر۔
بنت محبوب صدیقی(سمروباغ بھیونڈی)
والدہ : اللہ رب العزت کی عظیم نعمت
ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ہماری تعلیم و تربیت میں ہماری والدہ کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ ہماری پرورش میں ہماری والدہ نے بہت زیادہ محنت کی ہے۔ والدہ کو ہمیشہ مجھ سے تھوڑی زیادہ محبت رہی ہے۔ ہمارا بچپن بڑی کسمپر سی میں گزرا ہے۔ ہمارے حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری والدہ کہتی تھیں کہ انسان کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اسی وجہ سے حالات میں تبدیلی ممکن ہے۔ اس خواب کی تکمیل کیلئے ہماری والدہ اکثراپنی خواہشات کی قربانیاں دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی ہمیں کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ آج الحمد اللہ میں ایک انجینئر ہوں۔ میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، اس میں میرے والدین بالخصوص میری والدہ کا اہم حصہ ہے۔ جب بھی میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے والدین نے ہمارے لئے کتنی محنت کی ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ میں چاہ کر بھی اپنے والدین کو ان کی محنت کا صلہ نہیں دے سکتا کیونکہ کوئی بھی چیز ان کی محنت و محبت کا بدل نہیں ہو سکتی۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
ماں دُعا بن کر میرے ساتھ رہتی ہے
میری ماں، بلقیس بانو، ایک عام خاتون تھیں مگر ان کے خواب عام نہیں خاص تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا نہ صرف ان کے خاندان کا فخر ہو، بلکہ قوم و ملت کے کام آئے۔ ان کی دعائیں، نصیحتیں اور ہر لمحہ میرا حوصلہ بڑھانے والی باتیں آج بھی میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں : ’’بیٹا! آفتاب و مہتاب کی طرح بنو، روشنی پھیلاؤلیکن کبھی اپنی اصل کو نہ بھولو۔ ‘‘ شاید انہی خیالات نے مجھے اسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلس (اے ایم پی) جیسی تنظیم کے قیام کی طرف مائل کیا۔ جب میں چھوٹا تھا، تب میری والدہ اکثر مجھ کو مسلم رول ماڈلز، صحابہ کرام ؓاور رسول اکرم ؐ کی حیات اور سیرت کے بارے میں بتایا کرتی تھیں۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی تھی، جیسے وہ مجھ میں کوئی مجاہد، کوئی خادمِ ملت تلاش کر رہی ہوں۔ ایک بار انہوں نے میرے استاد کو خط لکھا تھا، جس میں لکھا تھا: میرا بیٹا صرف کامیاب نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لئے کارآمد بنے۔ وہ ایسا چراغ بنے جو صرف اپنے گھر نہیں، پورے جہاں کو روشن کرے۔ ‘‘ اُن کے یہ الفاظ میرے دل پر آج بھی ثبت ہیں۔ چند ماہ قبل ہی کینسر کے موذی مرض کی وجہ سے وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ اُن کے بعد لگتا ہے جیسے کائنات کا ایک ستون کم ہو گیا مگر ان کی یادیں اور دعائیں میرے ساتھ ہیں۔
عامر ادریسی، ممبئی
محبت، قربانی اور دعا کا نام ماں
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ والدین کا حق باقی تمام رشتوں پر مقدم ہے۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کے حقوق کی ادائیگی نہ صرف ایک فرض ہے بلکہ کامیاب زندگی کی کنجی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے والدین حیات ہیں، جن کی موجودگی میرے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ میری کامیابیاں، میری خوشیاں، میرے سکون کا ہر لمحہ میرے والدین، بالخصوص میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ماں کی دعا ایک ایسی ڈھال ہے جو زندگی کے طوفانوں سے بچا لیتی ہے۔ جب بھی کوئی نیک کام کرتا ہوں، سب سے پہلے اپنی ماں سے مشورہ لیتا ہوں اور ان کی دعا لے کر ہی قدم بڑھاتا ہوں۔ ماں صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ سراپا شفقت، محبت اور قربانی کا نام ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک، میری ماں نے ہر لمحہ میرے لئے قربانیاں دیں، میری خوشی کے لئے اپنی خواہشات کو قربان کیا۔
مولانا حسیب احمد انصاری(معلم حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج)
والدہ کی شفقت کا کوئی نعم البدل نہیں
انسان عمر کے کسی بھی حصے میں پہنچ جائے اپنے ماں باپ سے بڑا نہیں ہوسکتا اور خاص طور پر ماں سے بچے کو زیادہ محبت ہوتی ہے، اپنی ہر بات وہ ماں کو بتاتا ہے اور اپنے ہر کام کے لئے ماں کو منوا لیتا ہے اور اولاد پر احسان بھی ماں کا زیادہ ہوتا ہے، اسی لئے ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اولاد کو بھی چاہئے کہ ماں کو ہمیشہ دل سے یاد کرے، اس کی خدمت کرے اور اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرے، کیونکہ ماں کے دم ہی سے گھر جنت ہے، ورنہ ویرانی کے سوا کچھ نہیں اور انسان اس کا حق کندھوں پر پیدل چل کر حج کروا کر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ یہی دنیا کی حقیقت ہے کیونکہ د رد زہ کابھی حق اولاد ادا نہیں کرسکتی اور لفظ ماں دنیا کا سب سے خوبصورت اور جامع لفظ ہے جو اپنے اندر محبت کے بڑے سمندر کو سموئے ہوئے ہے۔ ماں کی محبت کا کو ئی نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔ بقول منور رانا ؎
جب بھی کشتی میری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آجاتی ہے
محمد اقبال( جلگاؤں )
لفظ ماں صرف رشتہ نہیں، پوری کائنات ہے
دنیا کا سب سے خوبصورت اور جذبات سے پر لفظ ماں ہے۔ ایک ایسی عظیم شخصیت جس کی قربانی اور شفقت و محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماں کی آغوش بچے کے لئے پہلا مدرسہ ہے جہاں سے اس کو حقیقی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ ماں کی وجہ سے ملک کی عظیم شخصیات کو حوصلہ ملا اگر ماں نہیں ہو تی تو یہ دنیا جذبات سے عاری ہوتی۔ آج جن کی ماں حیات ہے۔ وہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ہے۔ ان لوگوں سے اپنی ماں کی جدائی کا قصہ معلوم کریں جن کی مائیں رخصت ہو چکی ہیں۔ آج ان کے پاس دنیا کی وہ ساری آرائش و نعمت حاصل ہے مگر ماں کی گود، شفقت و محبت سے سر پہ ہاتھ رکھ کر دعا دینے والے ہاتھ موجود نہیں ہے۔ ایسے بد قسمت لوگوں میں میرا بھی شمار ہوتا ہے جس نے اپنی ماں کو اپنی آنکھوں کے سامنے۲۴؍ نومبر۲۰۰۷ءکو لیلاوتی اسپتال باندرہ میں دم توڑتے دیکھا۔ اس وقت ماں نے مجھ کو دنیا وآخرت کے تعلق سے نصیحت کرتے ہوئے اپنے بیمار اور کمزور ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دعا دی۔
ڈاکٹر شیخ نصیر احمد (موسی جی گلی وسئی، ضلع پال گھر)
ماں حوصلہ دیتی ہے
میری والدہ میری زندگی کی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ وہ پورے خاندان کا خیال رکھتی ہیں۔ وہ بہت محنتی ہیں اور ہر ایک کیلئے بہت مہربان ہیں۔ میں اپنی والدہ سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان کا سایہ تاحیات میرے سر پر رہے۔ اگر کوئی مصیبت یا کوئی پریشانی آجاتی ہے تو وہ میرے لئے ڈھال بن جاتی ہیں۔ اگر میں بیمار ہو جاؤں تو میرا خیال رات بھر جاگ کر رکھتی ہیں ۔ دنیا میں جو کچھ بھی ملا ہے یہ سب کچھ میری والدہ کی دعاؤں کا صلہ ہے۔ ماں دنیا کا سب سے انمول زیور ہے۔ اگر آپ کوئی بھی فیلڈ یا میدان میں کا میاب ہونا چاہتے ہیں تو والدہ کی ہمیشہ خدمت کرتے رہیں۔
ایم پرویز عالم نور محمد(رفیع گنج، بہار)
ماں کو بہت یاد کرتا ہوں
میری ماں ہمارے خاندان کے دل کی دھڑکن تھیں، جو محبت، مہربانی اور گرمجوشی پھیلاتی تھیں ۔ اگرچہ وہ اب میرے ساتھ نہیں ہیں لیکن میں روزانہ انکی یاد کو اپنی دعاؤں میں شامل کرتا ہوں۔ ان کی پرورش کرنے والے رابطے، رہنمائی کے الفاظ اور غیر مشروط دیکھ بھال مجھے متاثر کرتی رہتی ہیں۔ وہ میری طاقت، سکون اور خوشی کا ستون تھیں ۔ میں انہیں بہت یاد کرتا ہوں مگر انکے دیئے گئےسبق اور انکی میرے لئے بے پناہ محبت میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ سکون سے آرام کریں اور انکی میراث میرے دل میں زندہ رہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انکا نامہ اعمال انکی دائیں ہاتھ میں دے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!
جاوید رحمان خان(سوراج کمپلیکس، بنگور نگر، گورگاؤں ویسٹ، ممبئی)
ماں ایک عظیم رشتے کا نام ہے
بشمول انسان، دنیا کی ہر شے جوڑا پیدا کی گئی ہے، اور یہی حقیقت اس دنیائے فانی کے بقا کی ضامن ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو انسان کے ساتھ فطرت کے بہت سے مظاہر اب تک معدوم یا ازکار رفتہ ہو چکے ہوتے۔ ماں اپنی وجود کے ساتھ ایک ایسے عظیم رشتے کا نام ہے جسے نہ کبھی توڑا جا سکتا ہے، نہ بدلا جاسکتا اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے، ماں کا خون پوری زندگی انسان کی رگوں میں دوڑتا اور حرارت پیدا کرتا رہتا ہے، مجھے ہمیشہ ایک بات یاد آتی رہتی ہےکہ جب لکھنے پڑھنے، تعلیم یافتہ ہونے اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کی بات کی جاتی ہےتو ماں کی ایک ایسی ہستی ہوتی ہے، جو کبھی اپنی اولاد کیلئے ان پڑھ یا غیر تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ ماں کی ہمیشہ ایک زبان ہوتی ہے اور وہ ہے ’مادری زبان‘۔
سعیدالرحمان محمد رفیق(گرین پارک، شیل تھانے)
اس کی رہبری اور دعائیں ساتھ ساتھ رہیں
تقریباً۱۷؍ برس یوں گزر گیا جسے کل ہی میری ماں اللہ کو پیاری ہوئی ہے۔ کافی لمبی عمر پائی تھی، تقریباً۹۰؍ سال مگر حرکات و سکنات، لب و لہجہ میں نقاہت اور کمزوری نام کو نہ تھی۔ اس نے صبح۴؍ بجے اٹھ کر، ہینڈ لوم پر صبح۱۰؍ بجے تک ایک ساڑی بن کر، کالی چائے اور سوکھی روٹی پر دن گزارے ہیں ، وہ کافی محنتی اور جفا کش تھی۔ درمیانہ قد، گوری چٹی، جس کی پیاری پیاری باتوں کا جواب نہیں تھا۔ گلی، محلہ اپنے پرائے اور ہر چھوٹا بڑا، ان پر جان چھڑکتا تھا۔ پڑھی لکھی نہیں تھی مگر باتوں باتوں میں ایسے محاورے اور ایسی ایسی کہاوتیں کہہ جاتی کہ مجھے لغت اور ڈکشنری کا سہارا لینا پڑ جاتا۔ حساب کتاب تو اتنا اچھا اور پرفیکٹ کہ میں ٹوٹل مارتے رہ جاتا اور اس کا انگلیوں کی فٹ پر حساب ہو جاتا ہے۔ انصاف پسند اور دل میں اللہ کا ڈر اور خوف ہر درجہ تھا۔ دو گھر اور تین بھائی۔ بڑا بھائی اور اس کا بڑا بیٹا باری باری اور وقفہ وقفہ سے اس کے پاس جاتے اور بڑے پیار سے کہتے ’’اماں ادھر والا گھر اجے ( عزیز ) کو اور ادھر والا ہم لوگ کو دے دے۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے کہتی ’’کاہے رے مورا ایک اور بیٹا ہے، موکے اللہ کے پاس جواب نہیں دیوے کے ہے۔ ‘‘ گھر کے بالکل سامنے اس کی دو دیورانیاں یعنی ہماری چاچی جس سے اکثر توتو میں میں ہوتے رہتی۔ ان سے خوب لڑتی جھگڑتی ۔ معاملہ جب ٹھنڈا پڑ جاتا اور مطلع صاف ہو جاتا تو اپنی بہو سے کہتی، ’’ یہ دال روٹی اور سالن سامنے بھجوا دے۔ ‘‘ہمدردی، دریا دلی اور فیاضی کی ایسی کئی مثالیں آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ چھوٹی عمر سے لے کر بڑی عمر تک، پڑھائی سے لے کر ٹیچر بننے تک، ہر جگہ اور ہر مقام پر اس کا دست شفقت اور اس کی رہبری اور رہنمائی اور دعائیں ساتھ ساتھ رہیں ۔ کن کن باتوں اور زندگی کے کن کن گوشوں کا احاطہ کروں ؟
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج کلیان)
ان کی دل شکنی مت کرو
قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، بڑھاپے میں انہیں اف تک نہ کہو۔ ان کی دل شکنی مت کرو، ورنہ الله ناراض ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں جو ماں باپ کا دل دکھاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں تکلیف پاتے ہیں۔ بچپن میں جن کے ماں باپ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ان کے احساسات کو الفاظ میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔ وہ خوش نصیب اولاد ہیں جنہیں ماں باپ کاپیارملا۔ ماں باپ کی دعا اولاد کومل گئی تو سمجھو انہیں ہر خوشی مل گئی۔ اللہ تعالی نے قرآن میں اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ ہمیں چاہئے کہ بڑھاپے کی حالت میں ماں باپ کی خدمت کریں، انہیں تنہا چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو لے کر، گھر چھوڑ کر نہ جائیں، وہ ماں ! جب بھی تیری یاد آتی ہے آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ ہر نماز کے بعد الله تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں۔
اقبال احمد خان دیشمکھ( مہاڈ، رائےگڈھ)
میری ماں کا عزم و استقلال
قدرت کی انمول نعمتوں میں سب سے حسین و عظیم نعمت ماں ہے۔ میری والدہ کی شخصیت و کردار میں عزم، استقلال اور حوصلہ نمایاں اوصاف ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میڈیکل سال دوم کے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ عین اسی وقت میں شدید بیماری سے دو چار ہوئی اور میں ہمت ہارنے لگی۔ تب امی نے مجھے حوصلہ دیا۔ وارڈن کی اجازت سے امی کو ساتھ لے کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ قابلِ داد و تحسین ہیں امی کہ الحمد للہ انکے عزم اور حوصلہ افزائی کے سبب ہر پرچہ میں شامل ہو کر پوری یونیورسٹی میں تیسری رینک حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ یومِ مادر کے موقع پر میں اپنی امی کو منور رانا کے اس شعر کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں ؎
میں نے روتے ہوئے پونچھا تھا کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
ڈاکٹر شفاء افتخار انصاری(الامین طبیہ کالج مالیگاؤں )
ماں کا رشتہ ہر رشتے سے پیارا
ماں`تو ماں ہی ہوتی ہے، اس کا نعم البدل دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ ماں کا رشتہ ہر رشتے سے پیارا ہوتا ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے، ’’ماں کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف `ماں ہے۔ ‘‘
میری والدہ ایک گھریلو خاتون رہی ہیں۔ غالباً گزرے وقت میں ہر گھر میں دینی رجحان زیادہ رہتا تھا۔ میری والدہ صبح میں روزانہ فجر بعد قرآن کی تلاوت کرتی تھیں۔ مجھے ضرور نماز فجر کے لئے اٹھاتی تھیں۔ میری ماں سورج نکلنے کے بعد سونے کو برا مانتیں ، کھاناہم لوگوں کے کھانے کے بعد ہی کھاتی تھیں ۔ اس وقت پتہ نہیں کیسا رواج یا محبت تھی کہ مرد پہلے کھانا کھا لیں، ہم بعد میں کھائیں گے۔ اس وقت ہمارے علاقے میں یہی رواج تھا ۔ میری والدہ چائے پینے کو برا مانتی تھیں۔ ہمیشہ ہم لوگ کے لئے دعا کرتی تھیں کہ ہم جہاں بھی رہیں پھلے پھولیں۔
شاہد ہنگائی پوری( علیگ، یونٹی، سکون ہائٹس، ممبرا)
ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے
ماں بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہے۔ جو اولاد کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے لیکن آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں۔ مارتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کو خود کے گھر سے بھگا دیتے ہیں۔ ماں ایک عظیم ہستی ہےجن کے ماں نہیں ہے ان سے معلوم کریں ماں کے بارے میں ۔ ماں ماں ہوتی ہے اس کے جتنا محبت کرنے والا کوئی نہیں ۔ ماں بچوں کے لئے پہلا مدرسہ ہے۔ گھر کو جنت بنانے والی عورت ماں ہوتی ہے۔ مجھے اپنی ماں سے بہت پیار اور محبت ہے مجھے اپنی ماں پر فخر ہے۔ مائیں کبھی نہیں مرتیں ، مائیں ہمیشہ دل میں زندہ رہتی ہیں ہر خوشی اور ہر غم کے موقع پر دل میں یاد بن کر یا آنکھ میں آنسو بن کر جی اٹھتی ہیں ۔
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی( بیلاپور نوی ممبئی)
ماں کی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں
بچپن میں ماں سے ضد کرکے ستانا اور ان کا ہماری ہر معصوم ضد کو پورا کرنا آج بھی بہت یاد آتا ہے۔ اکثر و بیشتر خاندان میں ان کی ایثار و محبت کا تذکرہ بطور ترغیب ضرور ہوتا ہے جو ہم بھائی بہنوں کو ایک مالا کے موتی کی طرح ہر ایک کو عزیز رکھتی تھیں۔ کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتی تھیں۔ محنت و مشقت میں ہمیشہ منہمک رہتیں اور ہم بھائی بہنوں کو بھی محنت کی ترغیب دیتی تھیں۔ والدہ ہی کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج ان کی تمام اولادیں خوش و خرم ہیں۔ یہ ہم میاں بیوی کے لئے بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہم نے والدہ محترمہ کے ساتھ حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس مقدس سرزمین پر قدم قدم پر وہ ہمیں دعائیں دیتی تھیں جس کا خوشگوار نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد مرتبہ ہمیں حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی۔ ماں کی دعائیں اولاد کے حق میں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔
خلیل احمد انمول (مالیگاؤں )
ماں کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے
میرے امی کے چار بچے تھے اور انہوں نے ہماری پرورش محبت سے کی تھی۔ وہ ہم سے بہت پیار کرتی تھیں مگر تعلیم کے معاملے میں وہ سخت ہو جاتی تھیں ۔ وہ کھانا اس وقت تک نہیں دیا کرتی تھیں جب تک کہ ہم نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ مجھے آج بھی ان کی نصیحتیں یاد ہیں۔ میں اپنی امی جان کی بات آخر دم تک مانتا تھا۔ آج حالات بدلتے جارہے ہیں اب تو یہ ہوتا ہے کہ جوں ہی شادی ہوئی، بچے علاحدہ ہو جاتے ہیں۔ جو ماں دس بچوں کو سنبھال کرتی ہیں ، آج لوگ اسی معاشرہ میں اس ماں کو سنبھالنے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔ نتیجتاً مائیں تنہا رہا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ ماں کی آج بھی یاد آتی ہے اور آج وہ دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی تربیت زندہ ہے۔ اب ا ن کیلئے صرف مغفرت کیا کرتے ہیں۔
محمد زبیر فطرت (پنویل)
زند گی کا سب سے قیمتی سبق
جب میری رخصتی کا وقت آیا تو امی نے مجھے گلے لگا کر کہا بیٹی نئے گھر میں سب تمہارے اپنے ہوں گے۔ اگر کبھی کوئی بات دل کو لگے تو فوراً جواب نہ دینا، کیونکہ صبر عورت کا زیور ہے۔ شادی کے چند ہفتے بعد ایک دن میرے سسرال میں کسی بات پر غلط فہمی ہوگئی، دل بہت بوجھل ہوا، آنکھیں نم تھیں لیکن امی کی وہ بات کانوں میں گونجنے لگی’ صبر عورت کا زیور ہے‘۔ اس دن میں نے خاموش رہ کر معاملے کو بگاڑنے کے بجائے مسکرا کر سلجھانے کی کوشش کی۔ اس دن احساس ہوا کہ ماں نے وقت سے پہلے مجھے زندگی کا سب سے قیمتی سبق سکھا دیا تھا۔
مومن ناظمہ محمد حسن
ماں آج بھی یاد آتی ہے
ماں آج اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اس کی محبت، پیار اور نصیحتیں زندہ ہیں جن کی وجہ سے آج باعزت زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ماں ہم کو ہدایت دیا کرتی تھی کہ سچ بولا کرو۔ انہوں نے بچپن ہی میں برقع پہننے کوکہا اور آج بھی ان کی باتوں پر عمل کرتی ہوں ۔ ان کو لذیذ کھانوں کا شوق تھا اور ہم کو انہوں نے کھانا پکانے کی ترتیب دی تھی اور آج میں عمدہ طریقے سے کھانے بنایا کرتی ہوں۔ سسرال میں سب میرے لذیذ کھانے نوش کرتے ہیں۔ اچھی ماں آج بھی یاد آتی ہے۔
نورجہاں
`ماں قدرت کا سب سے حسین تحفہ ہے
میری والدہ کی شخصیت سخاوت اور ایثار سے مزین ہے۔ دینی و ادبی کتابوں کے مطالعہ سے انہیں خاص دلچسپی ہے۔ مختلف اقسام کے پکوان تیار کرنے اور مہمان نوازی میں میری امی مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماں کی محبت بالکل سچی محبت ہوتی ہے لہٰذا یومِ مادر کی مناسبت سے اپنی امی کو کچھ یوں یاد کرنا چاہتی ہوں :’’مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے=خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے۔ ‘‘
فاطمہ فہد(بنارس، یو پی)
اس ہفتے کا عنوان
ابھی ایک ہفتے قبل ۷؍ مئی کو ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مشہور کھلاڑی اورکپتان روہت شرما نے ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ دیا۔ کرکٹ شائقین ابھی ٹھیک سے اس صدمے سے باہر نکل بھی نہیں پائے تھے کہ کرکٹ کے ایک اور لیجنڈ وِراٹ کوہلی نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے سبکدوشی اختیارکرلی۔ ان دونوں اہم کھلاڑیوں کے اچانک ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے کھیل شائقین حیران و ششدر ہیں۔ خیال رہے کہ روہت شرما کی عمر ابھی ۳۸؍ سال ہے تو وراٹ کوہلی نے بھی عمر کی ۳۶؍ منزلیں طے کی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
روہت شرما اور وِراٹ کوہلی کا ٹیسٹ کرکٹ سے سبکدوشی کا فیصلہ کیا درست ہے؟ اور ’ٹیم انڈیا‘ پر اس کے فوری اثرات کیاہوں گے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۵؍مئی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی ۔ قلمکار اپنے تاثرات کےساتھ ہی اپنا نام لکھیں (ادارہ)