Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’ہر کسی کو ’غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک‘ ضرور دیکھنی چاہئے‘‘

Updated: July 06, 2025, 1:06 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

میڈیا سے یاد آیا کہ’بی بی سی‘ کو غزہ کے مبینہ جانبدارانہ کوریج کیلئے ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ بہتیروں کا الزام ہے کہ برطانوی خبررساں ادارے نے غزہ کی رپورٹنگ دبے دبے انداز میں کی اور اسرائیل کی ہمنوائی کی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس ہفتے بھی سوشل میڈیا گلیاروں میں کئی موضوعات گرم رہے۔ آئیے ان میں سے کچھ اہم معاملات پر نظر ڈالتے ہیں۔ پچھلے دنوں بی جے پی کو ایمرجنسی کی یاد ستائی۔ پارٹی نے سوشل میڈیا پر کانگریس مخالف مہم چلائی اور ملک بھر میں پروگرام کئے۔ چاپلوس ٹی وی میڈیا کا ایک حلقہ تو گویا تیار ہی بیٹھا تھا، اس نے اندراگاندھی سرکار کو پانی پئے بنا ہی خوب کوسا۔ اس پر معروف کارٹونسٹ منجول نے ایکس پر چبھتی بات لکھی کہ’’آج ایک ڈھنگ کا کارٹون چھاپنے کی اوقات نہیں جن میڈیا اداروں کی وہ ۵۰؍ سال پرانی ایمرجنسی پر ٹسوے بہارہے ہیں۔ ‘‘ 
میڈیا سے یاد آیا کہ’بی بی سی‘ کو غزہ کے مبینہ جانبدارانہ کوریج کیلئے ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ بہتیروں کا الزام ہے کہ برطانوی خبررساں ادارے نے غزہ کی رپورٹنگ دبے دبے انداز میں کی اور اسرائیل کی ہمنوائی کی۔ حالانکہ ادارہ اس الزام کی تردید کررہا ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بی بی سی نے پچھلے ہفتے’ غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک‘ نامی دستاویزی فلم کو نشر کرنے سے انکار کردیا، جسے ایک انڈیپنڈنٹ میڈیا ہاؤس ’زیتیو‘ نے براڈ کاسٹ کیا۔ زیتیو کے سی ای او اور بیباک صحافی مہدی حسن نے بی بی سی کی ایسی ہی جانبداری کی جانب توجہ دلائی۔ انہوں نے بی بی سی ورلڈ کی ایک پوسٹ کو ری پوسٹ کیا جس میں اسرائیلی حملے کی خبر کے متعلق لکھا تھا’’ غزہ کے ایک مصروف کیفے پر حملے میں حماس کارکن مارا گیا  لیکن اس کے ساتھ درجنوں دیگر افراد بھی جاں بحق ہوگئے۔ ‘‘ مہدی حسن نے اس پر تبصرہ کیا کہ’’مجھے لگتا ہے کہ اس ٹویٹ کے ذمے دار بی بی سی کے ایڈیٹر اور ہیڈلائن لکھنے والا دونوں ہی ہیں، جنہیں برطرف کر دینا چاہئے۔ یہ متعصبانہ، نسل پرستانہ، غیر انسانی اور صاف الفاظ میں کہیں تو نفسیاتی بیماری کا مظہر ہے۔ ‘‘ 
غزہ ڈاکیومنٹری کا ذکر ہوا ہے تو مراکشی اسپورٹس جرنلسٹ لیلیٰ حامد کا یہ تبصرہ بھی پڑھئے جو انہوں ایک ویڈیو کے ساتھ کیا ہے کہ’’بی بی سی کو شرم سے سر جھکا لینا چاہئے، ایسا فٹ بال کے لیجنڈ کھلاڑی گیری لینیگر نے کہا، جب انہوں نے’غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک‘ نامی وہ اہم دستاویزی فلم دیکھی، جسے بی بی سی نے نشر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ‘‘ اس دستاویزی فلم کے متعلق اسکاٹش مورخ ولیم ڈالریمپل نے کہا کہ’’ہر کسی کو یہ غیر معمولی دستاویزی فلم غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک، ضرور دیکھنی چاہئے۔ یہ اب تک غزہ سے آنے والی سب سے بہترین رپورٹنگ ہے۔ یہ ہر ایوارڈ جیتنے کی حقدار ہے اور یہ عیاں کرتی ہے کہ کیوں اسرائیل صحافیوں کو غزہ کے اندر جانے نہیں دیتا، جہاں اسرائیلی فوج روزانہ کی بنیاد پر جنگی جرائم انجام دیتی ہے۔ ‘‘
ممبئی میں مراٹھی نہ بولنے پر ایک دکاندار کی پٹائی کئے جانے کے افسوسناک معاملے کے بعد زبان پر نفرت انگیز سیاست کے حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کافی کہا سنا جارہا ہے۔ اس پر پنسٹرایکس نے لکھا کہ ’’کسی کو صرف اسلئے مارا پیٹا نہیں جانا چاہئے کہ وہ کوئی زبان نہیں جانتا۔ کسی کو اس کے کھانے پینے کی عادت کی وجہ سے مارا پیٹا نہیں جانا چاہئے۔ کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے مارا پیٹا نہیں جانا چاہئے۔ اگر آپ ان باتوں سے صرف منتخب انداز میں اتفاق کرتے ہیں، تو آپ بھی مسئلے کا حصہ ہیں۔ ‘‘ فری لانسر صحافی سوہت مشرا نے لکھا کہ’’ روز مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، لیکن کوئی ان کیلئے مہم نہیں چلاتا۔ ممبئی میں مراٹھی نہ بولنے پر کچھ لوگ سرعام پٹائی کررہے ہیں، سرکار سے قانون سیکورٹی پر سوال پوچھنے کے بجائے ایم این ایس کے ورکروں سے اینکر پوچھ رہے ہیں۔ سوال پوچھنا ہے تو دیویندر فرنویس سے پوچھو، جن کی دیکھ ریکھ میں (کے باوجود) یہ سب ہورہا ہے۔ لیکن بی جے پی سے کوئی سوال نہیں، کل اگر بی جے پی - ایم این ایس ساتھ آگئے تو گودی میڈیا کے یہی اینکر ماسٹر اسٹروک بتائیں گے۔ ‘‘
بات زبان کی نکلی ہے تو کچھ بدزبانی کی بھی بات ہوجائے۔ کانگریس سے بی جے پی میں جاکر اپنی زمین بنانے کے بعد نتیش رانے ’ہندتوا پالیٹکس‘ کے خود ساختہ ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔ ان کی اشتعال انگیزیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ معاملہ چاہے جو بھی ہو وہ اسے ’ہندو مسلم‘ کا رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنی وفاداری ثابت کرنے میں وہ اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں ماضی کے اپنے موقف ہی یاد نہیں، جن میں وہ بی جے پی اور ان کے لیڈروں پر سوالات قائم کرتے تھے۔ اسی لئے سوشل میڈیا پر انہیں آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ ہندتوا اور بی جے پی کیخلاف ان کے ماضی میں کی گئی پوسٹس ایک بار پھر گردش میں ہیں۔ آلٹ نیوز کے محمد زبیر نے ایکس کی ایسی کئی پوسٹس کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات ہی مراٹھی گجراتی سے کی ہے۔ ‘‘ ۱۶؍ اپریل۲۰۱۴ء کی اس پوسٹ میں نتیش نے لکھا تھا کہ’’کیریٹ سومیا آئی نوکس گھاٹ کوپر میں مودی پر بنی گجراتی فلم دکھاتے ہیں !! اور اسے گجراتیوں کیلئے ’مفت‘ رکھ دیتے ہیں !! کیا یہ ٹھیک ہے؟؟ کیا جلد ہی یہ پوری ممبئی میں ہوگا؟‘‘ ۱۵؍ اگست۲۰۱۴ءء کو نتیش نے لکھا تھا کہ’’ جن کی گجرات ریجمنٹ نہیں ہے، فوج میں سپاہی نہیں ہیں، وہ ہمیں لال قلعے سے سکھائیں گے کہ بلیدان کیا ہوتا ہے۔ ‘‘ اسے میور کرہاڈے نامی صارف نے ری پوسٹ کرتے ہوئے لکھا’’ لوگ کتنی جلدی بدل جاتے ہیں۔ ‘‘۲۹؍ ستمبر۲۰۱۴ء کو انہوں نے ایکس پر مودی اور امیت شاہ کا کارٹون شیئر کیا تھا جس میں مرارجی کے سپنے کو ہم پورا کریں گے، لکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ’’ مہاراشٹر انہیں معاف نہیں کرے گا۔ ‘‘اسی طرح کی کئی پوسٹس ہیں، ایک پوسٹ تو ساورکر کے خلاف بھی تھی جو ڈیلیٹ کی جاچکی ہے۔ نتیش نے۲۰۱۴ء میں گجرات ڈیولپمنٹ کا مذاق اڑاتے ہوئے کارٹون بنایا تھا اور اسے عنوان دیا تھا گجرات کی ترقی کا ننگا سچ، اسے واجد شیخ نامی صارف نے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ گجرات سے متعلق پہلے نتیش رانے کی یہ سوچ تھی۔ ‘‘ نتاشا اوہاڈ نے نتیش رانے کی۶؍ اکتوبر۲۰۱۴ء کی پوسٹ شیئر کی جس میں رانے نے لکھا تھا کہ’’ممبئی کے۳۶؍ حلقوں میں سے ۱۳؍ حلقوں میں گجراتی ووٹرز کی اکثریت ہے، سوچئے ابھی۲۰۱۴ء چل رہا ہے، ۲۰۱۹ء میں کیا ہوگا، تصور کیجئے اور پلاؤ ان ڈھوکلوں کو دودھ۔ اس پر نتاشا نے طنزاً تبصرہ کیا کہ’’ڈھونگی۔ ‘‘
خیر یہ قصہ سوشل میڈیا یہاں تمام ہوتا ہے، لیکن جانے سے پہلے ہم پلٹی مار سیاستدانوں سے یہی کہیں گے آج جو کچھ بھی لکھ، بول رہے ہیں سوچ سمجھ کر لکھیں، بولیں، کیونکہ کل پالہ بدلنے پر یہی باتیں ’’آسمان پر تھوکا منہ پر آتا ہے‘‘ ثابت ہوتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK