ہر ہفتےموضوع کی مناسبت سے کالم کے منتخب شرکاءسے رابطہ کیا جائے گا۔ اس ہفتےمالیگاؤں کا موضوع ہونے کی وجہ سے ہم نے صرف مالیگاؤں کے لکھنےوالوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 07, 2025, 4:17 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
ہر ہفتےموضوع کی مناسبت سے کالم کے منتخب شرکاءسے رابطہ کیا جائے گا۔ اس ہفتےمالیگاؤں کا موضوع ہونے کی وجہ سے ہم نے صرف مالیگاؤں کے لکھنےوالوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔
اس فیصلے میں انصاف کہاں ہے؟
تقریباً۱۷؍ سال سے ملک بھر کے لوگ، بالخصوص مالیگاؤں کے عوام اس کیس کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس طرح بابری مسجدکیس کو آستھا کی بنیاد پرختم کیا گیا، اسی طرح اس مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے کوبھی رفع دفع کر دیا گیا۔ اس فیصلےکے باوجود ہمیں اپنے آئین اور اپنی عدالتوں پر پورا اعتماد ہے۔ امن و امان قائم رکھتے ہوئے ہمیں اپنی صفوں میں قانون کے ماہرین تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے جو مستقبل میں قوم وملت کی رہنمائی کر سکیں۔ مالیگاؤں ایک حساس شہر ہے، اس فیصلے سے دل ودماغ کو چوٹ تو پہنچی ہے مگر جذبات کو دبانا وقت کا تقاضاہے۔ ہم متاثرین کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے یہ بات کہنا چاہیں گے کہ اکثر فیصلے طاقت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ہماری تفتیشی ایجنسیاں کس سمت میں کام کررہی ہیں۔ ہمارے لئے جمہوریت اور جمہوری حق کامیابی کی ایک کلید ہے جس کا استعمال ہمیں مستقبل میں سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے، تبھی ہم ایک گنگا جمنی بھارت میں چین وسکون سے رہ سکیں گے۔
انیس لعل خان ( آزاد نگر، مالیگاؤں )
شفاف تفتیش اور عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں
این آئی اے عدالت کا فیصلہ نہ صرف انصاف کے نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ متاثرین کی امیدوں اور زخموں پر نمک بھی چھڑکتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا یہ ہولناک دھماکہ، جس میں ۶؍ افراد جاں بحق اور۱۰۰؍ سے زائد زخمی ہوئے تھے، معاشرتی ہم آہنگی پر شدید وار تھا۔ ۱۷؍ سال بعد بھی اس سانحے کے اصل ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا اور بالآخر عدالت نے سادھوی پرگیہ سنگھ اور کرنل پروہت سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ وجہ تفتیش میں خامیاں اور گواہوں کااپنے بیان سے منحرف ہونا بتایا گیا۔ بم نصب کرنے میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل اور دھماکہ خیزمواد سےمتعلق ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جا سکے۔ استغاثہ کی کمزور پیروی اور تحقیقاتی اداروں کی غیر سنجیدگی نے اس کیس کو کمزور کیا، حتیٰ کہ عدالت نے کہا کہ محض شک کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس فیصلے کے بعد متاثرہ خاندانوں، مقامی لوگوں اور انصاف پسند طبقہ میں گہری مایوسی اور غم پایا جاتا ہے۔ ۱۷؍ برس کا انتظار، گواہوں کے یوٹرن، اہم شواہد کی عدم دستیابی اور طاقتور لابیوں کا اثر سب کچھ نظر آتا رہا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر الزام مسلمانوں پر ہوتا تو اسی قوانین کے تحت برسوں جیل میں رہنا پڑتا جبکہ یہاں ضمانتیں بھی باآسانی مل گئیں۔ اس طرح کے سانحات نہ صرف ہمارے عدالتی نظام بلکہ اجتماعی ضمیر کیلئے بھی ایک سخت امتحان ہیں۔ متاثرین آج بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا انصاف صرف طاقتور کیلئے مخصوص ہے؟ یہ سچائی تلخ مگر اٹل ہے کہ جب انصاف میں تاخیر یا روگردانی ہو، تو سماج میں انصاف پر یقین خود مجروح ہو جاتا ہے۔ ایسے فیصلوں پر جذباتی آہ و زاری فطری ہے، لیکن اجتماعی ذ مہ داری ہے کہ انصاف کا تقاضا بلند آواز سے کیا جائے تاکہ کل کو کسی اور معصوم کی جان اور امن ضائع نہ ہو۔ مالیگاؤں کے متاثرین کی آنکھوں میں اب بھی انصاف کی طلب ہے اور شاید یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ انصاف کب ملے گا؟
یوسف خان(گرافک ڈیزائنر، مالیگاؤں )
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
۳۱؍ جولائی ۲۰۲۵ء کو مالیگاؤں بھکوچوک بم دھماکے سے متعلق فیصلے پر نہ صرف شہر اور بیرون شہر بلکہ پورے ملک کے انصاف پسندوں کی نظر لگی ہوئی تھی۔ ایک امید تھی کہ متاثرین کو انصاف ملے گا۔ این آئی اے عدالت کے اس فیصلے سے صرف اور صرف مایوسی ہاتھ لگی۔ ہیمنت کرکرے نے اے ٹی ایس کے ذریعے جو ثبوت پیش کئے تھے، این آئی اے اسے برقرار نہیں رکھ سکی۔ ہیمنت کرکرے صاحب کی نگرانی اور رہنمائی میں جانچ صحیح سمت میں رواں دواں تھی لیکن اسی دوران مشتبہ حالت میں کرکرے صاحب کو دہشت گردی کا نشانہ بنادیا گیا۔ اسی دن یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ اب ’’اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر‘‘والی بات سچ ثابت ہوگی اوراس چرخ کہن نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ اتنے واضح معاملات کے باوجود بھگوا ملزمین کا بری ہوجاناجانچ ایجنسیوں کی کارکردگی پر شبہ پیدا کرتا ہے۔ انصاف پسند افراد کا یہی کہنا ہے کہ این آئی اے نے صحیح سمت میں تحقیق نہیں کی۔ اس کے ساتھ ہی ملزمین کے خلاف ’ نرم رویہ‘ اختیار کئے جانے کی بھی بات ہورہی ہے۔ معزز جج اے کے لاہوٹی کا آج ہی کی تاریخ میں سبکدوش ہونا بھی شک وشبہ کو تقویت دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرنویس صاحب ٹرین بلاسٹ کیس کی طرح اس فیصلے کے خلاف بھی اونچی عدالت میں جائیں گے؟ شاید نہیں، کیونکہ بری ہونے والے ملزمین کا تعلق ایک خاص گروہ سے ہے۔ جمعیۃ علماءکے ذمہ داروں سے استدعا ہے کہ فوراً سے پیشتر پوری پوری تیاری کے ساتھ ہائی کورٹ سے رجوع ہوں۔ اللہ ناصر ومددگار ہوگا۔
محمد یعقوب ایوبی (موتی پورہ، مالیگاؤں )
مقدمے کے ہر موڑ پر انصاف کی سانس اکھڑتی محسوس ہوئی
عدالت کا یہ فیصلہ انصاف، تحقیق اور عدالتی عمل پر ایک بار پھر سنجیدہ سوالیہ نشان لگا گیا ہے۔ ۱۷؍ سال، ۱۰؍ ہزار۸۰۰؍ ثبوت، ۳۳۲؍ گواہ، ۴۰۰؍ سے زائد اشیاء عدالت میں پیش، ۵؍ جج، اور نتیجہ؟ اس مقدمے کی روداد نہ صرف سست روی کا شکار رہی بلکہ اس کے ہر موڑ پر انصاف کی سانس اکھڑتی محسوس ہوئی۔ متاثرین کی آنکھیں آج بھی ایک ایسے فیصلے کی منتظر تھیں جو اُن کے زخموں پر مرہم رکھ سکے، لیکن جو کچھ سنایا گیا وہ عوامی مایوسی کا ترجمان بن گیا۔ مالیگاؤں جو مذہبی ہم آہنگی اور تعلیمی بیداری کیلئے جانا جاتا رہا ہے کئی بار سازشی نظریات اور قومی میڈیا کے تعصبات کی زد میں آیا ہے۔ اس مرتبہ متعصبانہ نظریہ رکھنے والوں کو بھرپور موقع بھی مل گیا۔ فیصلے سے ہم پہلے ہی دل گرفتہ تھے مگر جیسے ہی فیصلہ آیا، ہندوتواوادی تنظیموں، لیڈران اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی، وہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف بے گناہوں کی جانیں گئیں، دوسری طرف انصاف کے نام پر بے بسی کا سلسلہ جاری رہا۔ تحقیقاتی مرحلے میں اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے کی دیانت دارانہ کاوشیں عدالتی دستاویزات میں زندہ ہیں، لیکن ان کی قربانی کے ساتھ ہی اس کی اہمیت کم ہوگئی۔ انصاف کی راہ میں حائل تعصبات اور سیاسی دباؤ نے اس کیس کو صرف ایک عدالتی معاملہ نہیں رہنے دیا بلکہ ایک قومی آئینہ بنا دیا جس میں ہم سب کی بے بسی کا عکس بھی جھلکتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف متاثرین نہیں بلکہ قانون، تحقیقاتی اداروں اور عدالتی نظام کے تئیں عام شہری کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتا ہے۔
آصف جلیل احمد(چونابھٹّی، مالیگاؤں )
۱۷؍ سال بعد چونکا دینے والا فیصلہ
بیشک عدالت کا فیصلہ چونکا دینے والا ہے لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے۔ اس سے پہلے بابری مسجد کا فیصلہ بھی ایسا ہی چونکا دینے والا تھا۔ دراصل ایسے معاملوں میں انصاف کی توقع کافی بڑھ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا اور یہ فطری بھی ہے لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہ اس فیصلے نے ثابت کر دیا ہے۔ جمہوریت کے چار ستون میں سے عدلیہ سب سے اہم ستون مانا جاتا ہے۔ بیشک ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے اور ہم اپنی عدالتوں پر پورا پورا بھروسہ رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے سنائے گئے فیصلوں کا احترام بھی کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اسے کسی بھی مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ دہشت گرد انسان ہی نہیں ہوتا دراصل وہ انسان کے بھیس میں حیوان ہوتا ہے۔ انسانیت کو شرمسار کرنےوالوں کو انسان کہلانے کا حق نہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اے ٹی ایس کو جن پر شک تھا وہ۱۷؍ سال بعد ’بے قصور‘ ثابت ہو گئے اور عدالت یہ بھی مانتی ہے کہ بم بلاسٹ ہوا، تب وہ مہلوکین کے لواحقین کو ۲؍ لاکھ اور زخمیوں کو پچاس ہزار دینے کی بات کررہی ہے، لیکن اصل مجرمین تو ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس فیصلے سے کیا ان کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے۔ کیا انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ متاثرین کو کچھ رقم دےدی جائے۔ اصل انصاف تو تب ہی مے گا جب مجرمین سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ نچلی عدالتوں کے ذریعے دیئے گئے فیصلوں کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار ہمارے آئین میں دیا ہوا ہے، اسلئے اس کا استعمال کرتے ہوئے سرکار کو اس میں ضرور پہل کرنی چاہئے۔
عمران عمر ( شیدا اُردو ہائی اسکول، مالیگاؤں )
فیصلہ تو ہوا مگر متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں ہوا
اس فیصلے سے متاثرین کے ساتھ ہی ملک کے انصاف پسند حلقے کو کافی مایوسی ہوئی کیونکہ فیصلہ تو ہوا مگر متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ فیصلے کی بنیاد دونوں تفتیشی ایجنسیوں اے ٹی ایس اور این آئی اے کی تفتیش میں تضاد بتایا گیا ہے۔ اے ٹی ایس کے سابق سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کے بعد کے پی رگھو ونشی کو جب اس کا سربراہ بنایا گیا تو اسی وقت سینئر صحافیوں، سیاسی مبصرین اور ماہرین قانون نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ قدم تفتیش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ پھر اس تفتیش کو این آئی اے کے سپرد کردیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں اس خدشے کو مزید تقویت ملی، جب اس کیس سے معروف سرکاری وکیل روہنی سالیان نے یہ کہتے ہوئے خود کو الگ کر لیا کہ این آئی اے کی طرف سے ان پر دباؤ بنایا جا رہا ہے کہ کیس کو کمزور کیا جائے تاکہ ملزمین کے بری ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔ ابھی چند روز قبل ہی ٹرین بم دھماکوں کےملزمین کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد رہائی عمل میں آتے ہی ریاستی سرکار نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اسی طرح این آئی اے عدالت کے فیصلے کو بھی اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرتی ہے یا نہیں ؟ پولرائزیشن کی سیاست کو دیکھتے ہوئے اس کی امید کم ہی ہے، حالانکہ جمعیۃ علماء نے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بہر کیف! عدالتی فیصلوں اور تفتیشی ایجنسیوں کی کارکردگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے حبیب ہاشمی کا یہ شعر بہت کچھ کہتا ہے:
محسوس یہ ہوتا ہے کہ دور تباہی ہے:شیشے کی عدالت ہے پتھر کی گواہی ہے
ڈاکٹر شفاء افتخار انصاری(الامین طبیہ کالج، مالیگاؤں )
جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا کہ قاری نامہ میں کچھ تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ یہ اس سلسلےکا پہلا حصہ ہے۔ اس کے تحت اب موضوعات کااعلان نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر ہفتےموضوع کی مناسبت سے کالم کے منتخب شرکاءسے رابطہ کیا جائے گا۔ اس ہفتےمالیگاؤں کا موضوع ہونے کی وجہ سے ہم نے صرف مالیگاؤں کے لکھنےوالوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ آئندہ ہفتے ہم کسی نئے موضوع کےساتھ کچھ دوسرے لکھنےوالوں کی خدمت میں حاضر ہوں گے ان شاء اللہ۔ دیکھتے رہئے انقلاب (ادارہ)