Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے انفرادی سطح پر کیا کوششیں ہوسکتی ہیں؟

Updated: March 18, 2025, 11:20 AM IST | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

The efforts of the collective system of Zakat make it easier to reach the deserving and can gradually eliminate poverty from the nation. Photo: INN.
زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی کوششوں سے مستحقین تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہےاور رفتہ رفتہ قوم سے غربت ختم ہوسکتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں 


 سب سے پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم خود زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں اور مستحقین تک زکوٰۃ صحیح طریقے سے پہنچائیں۔ اسی طرح لوگوں میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کے اجتماعی نظم کی ضرورت کے بارے میں شعور بیدار کریں۔ مساجد، مدارس، سماجی تنظیموں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس پیغام کو عام کریں۔ اپنے محلے، رشتہ داروں اور جاننے والوں میں ایسے مستحق افراد کو تلاش کریں جو زکوٰۃ کے حقدار ہیں۔ اجتماعی طور پر زکوٰۃ جمع کرکے مستحقین کو ایک مناسب اور منظم طریقے سے پہنچانے کا اہتمام کریں۔ ایسی فلاحی تنظیموں اور اداروں کو سپورٹ کریں جو زکوٰۃ کو منظم طریقے سے مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو ایسی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کریں اور ان کے معاملات میں شفافیت کا جائزہ لیں۔ اگر کسی علاقے میں مستحقین کی مدد کیلئے کوئی زکوٰۃ فنڈ نہیں ہے تو اہل خیر کو آمادہ کرکےزکوٰۃ فنڈ قائم کریں۔ اس فنڈ کا حساب کتاب صاف شفاف رکھیں تاکہ اعتماد قائم رہے۔ علماء، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ مل کر زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی اہمیت پر مباحثے اور تربیتی نشستوں کا انعقاد کریں۔ 
 زکوٰۃ کو فوری مدد (مثلاً خوراک، کپڑے، دوائیں ) اور پائیدار مدد (مثلاً چھوٹے کاروبار، تعلیم، ہنر سکھانے) کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا ئیں تاکہ مستحقین مستقل طور پر خودکفیل بن سکیں۔ 
 اگر ہر فرد اپنی سطح پر ان نکات پر عمل کرے تو زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے معاشرے سے غربت و محرومی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ (معلم، صمدیہ ہائی اسکول بھیونڈی)
بیت المال ہی مناسب حل


 سب سے پہلے اجتماعی زکوٰۃ کا شرعی معنی و مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی اصطلاح کی جب صحیح طور پر تشریح و توضیح نہ ہو تو لوگ اس اصطلاح کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگتے ہیں اور خود ساختہ معانی پہنا کر اسے اپنے مخصوص مقاصد میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ شرعی طور پر اجتماعی زکوٰۃ حکومت یا اس کے قائم مقام معتبر تنظیم کے اس نظام کو کہا جاتا ہے جو زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے مستحقين تک پہنچانے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دیتی ہو اور ان امور کی تنفیذ کیلئے اس کے پاس قوت ہو۔ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے بیت المال ہی مناسب حل ہے لیکن موجودہ حالات میں اس کا قیام ممکن نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ اس تعلق سے ایک حل یہ ہے کہ مسجد کی سطح پر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، کچھ متقی اور پرہیز گار لوگ اجتماعی نظم قائم کریں اور اپنے اطراف کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر منصوبہ بندی کریں۔ اس طرح جمع ہونے والی رقم سے زکوٰۃ کے مصارف کے لحاظ سے اسے خرچ کریں۔ جہاں تک انفرادی طور پر اجتماعی نظم کا حصہ بننے کی بات ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اطراف میں جہاں کہیں بھی اس طرح کا کوئی نظم ہے، ہم اس کا پتہ لگائیں، اس کی تحقیق کریں اور پھر اپنی زکوٰۃ کی رقم اس کے حوالے کردیں اور کچھ رقم اپنے پاس رکھ کر اسے انفرادی طور پر بھی خرچ کریں۔ 
 حافظ افتخاراحمدقادری(کریم گنج، پورن پور)
زکوۃ دینے میں دیری نہ کریں 


 زکوۃ دینا ہرمسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اس کا ذکرقران شریف میں بار بار آیا ہے۔ زکوۃ دینے سے ہماری جان وہ مال کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کسی خاندان میں زیادہ لوگ صاحب نصاب ہیں تو انہیں چاہئے کہ سب ایک ساتھ زکوۃ جمع کرلیں اور اس کے ایک حصے کی رقم سے کچھ سامان جیسے چاول، تیل اور گیہو ں وغیرہ جو مہینے بھر کا راشن ہو، یتیم، مسکین، بیوہ، غریب اور حاجت مندوں میں تقسیم کردیں تاکہ وہ لوگ کم از کم ایک ماہ راشن کے تئیں بے فکر ہوجائیں۔ ہرمسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ زکوۃ ادا کرے اور یہ زکوٰۃ یوں ہی نہیں ادا کرے بلکہ اللہ تعالیٰ نےاسے جتنا مال دیا ہے، اس مال کا حساب لگا کر زکوۃ ادا کرے، نہ مال سے کم، نہ ہی اس سے زیادہ اور اس کی ادائیگی میں تاخیر بھی نہ کرے۔ جس کو زیادہ رقم دینی ہے، وہ حساب لگانے کے بعد دے سکتے ہیں۔ کچھ لوگ پورا رمضان مہینہ گزر جانے کے بعد آخری کچھ دنوں میں زکوۃ نکالتے ہیں، یہ مناسب نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ لوگ جن کا پورا انحصار اسی طرح کی امداد پر ہوتا ہے، وہ اپنی تیاری نہیں کرپاتے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ اسلئے ہمیں چاہئے کہ زکوٰۃ اور دیگر مدوں میں دی جانے والی امداد جیسے صدقہ، خیرات اورصدقہ فطر وغیرہ بیسویں روزے سے پہلے ہی ادا کر دیں اور جلد از جلد اس رقم کو ضرورت مند تک پہنچانے کی بھی کوشش کریں۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
غربت و تنگدستی کا خا تمہ ہوگا


 زکوٰۃ اسلام کا بنیادی رکن ہے جو ایک صاحب نصاب مسلمان کیلئے فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہم پابندی کیساتھ مستحقین تک زکوۃکی رقم پہنچائیں گے تو يقیناً معاشرہ میں اقتصادی طور پر خوشحالی کا دور دورہ ہوگا اورغربت و تنگدستی کا خا تمہ ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تم اللہ کو قرض دوگے تو وہ دُگنا کر کے تم کو واپس لوٹا دے گا اور تم کو بخش دےگا۔ عام طور سے زکوۃ کی جب بات آتی ہے تو ہماری نظر سب سے پہلے مساجد کے باہر بیٹھے ان فقیروں پر پڑتی ہے اور ہم انہیں کو زکوٰۃ کا مستحق سمجھ بيٹھتے ہیں حالانکہ یہ خیال غلط ہے۔ 
  ہمیں چاہئے کہ ہماری زکوٰۃ کی رقومات ان یتیم اور نادار طلبہ جو حصول دین میں مصروف ہیں اور جن سے آئندہ علم دین کی اشاعت و ترويج مقصود ہے، ان کی کفالت اور پرورش پر خرچ ہو۔ اس وقت ملک میں مسلمانوں کے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں آئے دن مسلمانوں کی دھر پکڑ جاری ہے۔ ان بے گناہوں کی رہائی کیلئے ملک کے چند فلاحی ادارے قانونی چارہ جوئی کی کوششیں کر رہے ہیں اور الحمدللہ کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مخيران قوم اپنی زکوٰۃ کی رقومات مذکورہ اداروں کو دے کر ان کی مالی اعانت کا ذریعہ بنیں۔ اسی طرح ہماری قوم کے وہ ہونہار بچے جو غربت اور مالی پریشانیوں کی وجہ سےپڑھ نہیں پارہے ہیں، ان کی بھی مدد کریں۔ 
زبیر احمد بوٹکے (نالا سوپارہ، ویسٹ)
تو ہماری قوم کے وارے نیارے ہو جائیں 


 اسلام ایک اجتماعی دین اور مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس طرح ہم نماز، روزہ اور حج اجتماعی طور پر ادا کرتے ہیں ، اگر اس طرح زکوٰۃ بھی اجتماعی طور پر ادا کرنے والے بن جائیں تو ہماری قوم کے وارے نیارے ہو جائیں۔ تاریخ کے ابواب اس بات کے شاہد ہیں کے صحابہ کرام کے دور میں زکوٰۃ کا نظام اتنا مؤثر تھا کہ عہد رسالت میں لوگ خوشحال ہوگئے تھے۔ اسلئے اگر آج ہمیں زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کو کامیاب بنانا ہے تو اس کیلئے اولین شرط اعتماد ہے۔ اگر یہ ہو تو ترتیب اس طرح بنائی جا سکتی ہے کہ:
 مساجد : مساجد کو مرکز بناتے ہوئے اس نظام کا آغاز کیا جاسکتا ہے جہاں پر صاحب نصاب حضرات مل کر اپنی اپنی زکوٰۃ کی رقم یکجا کریں تاکہ اس سے غریب، یتیم، بیوہ اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوں اور معاشرہ خوشحال بن سکے۔ 
 خاندان : وہ خوشحال خاندان جو صاحب نصاب ہیں، زکوۃ کو ایک جگہ جمع کریں اور مستحق لوگوں کی فہرست بنا کر ان کیلئے منصوبہ بندی کریں۔ 
 محلہ: صاحب فکر لوگ محلہ کی سطح پر محلے کے تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیوں کا ایک مکمل سروے کریں اور ان کی ضروریات کے مطابق زمرہ بندی کریں۔ 
رضوان قاضی( کوسہ ممبرا)
 ہم اجتماعی طور پر قوم کے بڑے حصے کی مدد کر پائیں گے


 جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم جز ہے۔ ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ زکوٰۃ کس طرح نکالی جاتی ہے؟ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو صاحب نصاب حضرات زکوٰۃ نکالتے ہیں وہ اپنی زکوٰۃ اپنے ہی رشتہ داروں یا اپنی جان پہچان کے افراد میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اب اگر ایک ہی خاندان کے سبھی افراد اگر مخصوص رشتہ داروں میں زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں تو صرف ان مخصوص رشتہ داروں تک ہی زکوٰۃ پہنچ پاتی ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ کم لوگوں میں زیادہ رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگرہم ایک ایسی تنظیم بنائیں جو اجتماعی طور پر زکوٰۃ کو جمع کرکے قوم کے مستحق لوگوں تک پہنچا ئے تو اس قدم سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر پائیں گے۔ اس کا ایک اور فایدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم اجتماعی طور پر قوم کے بڑے حصے کی مدد کر پائیں گے اور قوم کی حالت بہتر کر پائیں گے۔ 
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، رتناگیری)

زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے انفرادی کوششیں 


زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے قیام میں انفرادی سطح پر کئی اقدامات کئے جا سکتے ہیں تاکہ اس فریضے کی مؤثر اور منصفانہ ادائیگی ممکن ہو۔ یہاں چند عملی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں :
خاندانی سطح پر اجتماعی نظم کا قیام: خاندان کے تمام افراد مل کر زکوٰۃ کی رقم جمع کریں اورمستحقین کی مدد کریں، جیسے کسی کی تعلیم یا کاروبار میں معاونت۔ 
محلہ یا مسجد کی سطح پر تنظیم سازی: محلے کی مسجد کی کمیٹی زکوٰۃ جمع کرنے اور مستحقین تک پہنچانے کیلئے نظام وضع کرے۔ 
مستند فلاحی اداروں سے تعاون: مستند اور قابل اعتماد فلاحی اداروں کو زکوٰۃ دیں جو اجتماعی نظم کے تحت مستحقین کی مدد کرتے ہیں۔ 
عوامی آگاہی اور تعلیم: زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی اہمیت پرعوامی شعور اجاگر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس نظام کا حصہ بنیں۔ 
ٹیکنالوجی کا استعمال:آن لائن اور موبائل ایپس کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی کو فروغ دیں تاکہ شفافیت اور سہولت میں اضافہ ہو۔ 
مستحقین کی نشاندہی:اپنے علاقے میں مستحقین کی نشاندہی کیلئے سروے کریں اور ان کی مدد کیلئے منصوبہ بندی کریں۔ 
ان اقدامات سے ہم زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے قیام میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں جو غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگا۔ 
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل(معاون معلم، باندرہ)
زکوٰۃ اسلام کا اہم رکن ہے


ملک کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو مسلمان بھرپور زکوٰۃ نکالتے ہیں مگر اس کی تقسیم کا نظامِ درست نہیں ہوتا۔ اگر وہ ٹھیک ہوجائے توکوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر زکوٰۃ کوایک مرکز پر جمع کریں اور صحیح طریقے سے اسے تقسیم کریں توممکن ہے کہ زکوٰۃ لینے والا آگے چل کرخود کوئی کاروبار شروع کردے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر خود صاحب نصاب بن جائے۔ 
محمد فوزان محمد زبیر تنگیکر( ممبئی)
منصوبہ بندی کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی مستقبل میں غربت کا مکمل خاتمہ کر سکتی ہے


اسلام میں زکوٰۃ صرف ایک مالی مدد نہیں بلکہ سماجی انصاف اور غربت کے خاتمے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر زکوٰۃ کو انفرادی خیرات کے بجائے اجتماعی نظام میں ، جیسا کہ اس کا مقصد ہے، ڈھال دیا جائے تو اس کے نتائج دور رس ہونگے۔ 
معاشرتی ترقی کا ذریعہ: ضرورت اس بات کی ہے کہ زکوٰۃ کو محض سالانہ رقم نکالنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے ایسا مربوط اور پائیدار نظام بنایا جائے جو مستقل بنیادوں پر معاشرتی ترقی کا ذریعہ بنے۔ ہم میں سے بیشتر یہ نہیں سوچتے کہ آیا یہ عارضی مدد ہے یا مستقل خودکفالت کا ذریعہ۔ اگر ہم اپنی زکوٰۃ کو ایسے تعلیمی وظائف، کاروباری امداد، یا ہنر سکھانے کے منصوبوں میں لگائیں تو یہی زکوٰۃ مستقبل میں غربت کا مکمل خاتمہ کر سکتی ہے۔ 
زکوٰۃ کا منظم انداز:انفرادی زکوٰۃ اکثر صرف چند مستحقین تک محدود رہ جاتی ہے جبکہ کئی حقیقی ضرورت مند نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ اگر ہر محلے میں ایک کمیٹی قائم ہو جو زکوٰۃ منظم انداز میں مستحقین تک پہنچائے، تو یہ عمل زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ 
ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال:ہم زکوٰۃ کیلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، آن لائن ٹرانسفر، اور بینکنگ سسٹم جیسے ذرائع اختیار کریں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ کئی اسلامی ممالک میں زکوٰۃ کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے قائم ہیں، کیا ہم بھی ایسی کوششیں نہیں کر سکتے؟
زکوٰۃ کے مستحقین:کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ کون ہیں جو واقعی زکوٰۃ کے مستحق ہیں ؟ اکثر وہ لوگ محروم رہ جاتے ہیں جو مدد مانگنے سے شرماتے ہیں۔ اگر مساجد، سماجی تنظیمیں اور معتبر افراد مل کر مستحقین کی فہرست تیار کریں تو زکوٰۃ کی تقسیم میں انصاف قائم ہو سکتا ہے۔ 
مستقبل کی ترقی میں سرمایہ کاری:کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اگر ہماری زکوٰۃ سے کسی نادار بچے کو اعلیٰ تعلیم مل جائے اور وہ عالم، حافظ، قاری، ڈاکٹریا انجینئر بن جائے تو اس کا کتنا وسیع اثر ہوگا؟
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
مستحقین کی تلاش ہمیں خود کرنی چاہئے


ہم سب جانتے ہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر فرض ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ہم خود ضرورت مندوں تک پہنچیں مگر یہ اللہ کا احسان ہے کہ مدارس کے سفراء حضرات نے اس عمل کو ہمارے لئے آسان بنا دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دور دراز سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ہم تک پہنچتے ہیں تا کہ ہم یہ اہم فریضہ ادا کر سکیں ۔ جس طرح رمضان کی آمد سے پہلے ہم گھر میں راشن اور روزمرہ کے استعمال کی چیزیں خریدنے کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے بھی پہلے سے منصوبہ بندی نہایت ضروری ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے لوگوں کو خود تلاش کریں جو اس کے مستحق ہوں ، وہ ہمارے رشتے دار اور پڑوسی بھی ہو سکتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ہم زکوٰۃ کی رقم سے اپنے کسی بھائی کو کاروبار شروع کرنے میں مدد کر سکتے ہیں اورطلبہ کی اعانت اور بے قصور جیلوں میں قید اپنے بھائیوں کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ 
محمد زیان کریمی( عثمانیہ پارک، جلگاؤں )
بیت المال کمیٹی کا قیام کیا جاسکتا ہے


زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے سلسلے میں ایک کوشش بیت المال کا قیام ہے جس سے غرباء اور مساکین کی صحیح طریقے سے مدد کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال پیش ہے۔ ۱۹۸۴ء میں شیخ الحدیث معہد ملت اور رکن مسلم پرسنل لاء بورڈحضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملّی صاحب کی رہنمائی میں انگنو سیٹھ مسجد (موتی پورہ، مالیگاؤں ) میں چھوٹے پیمانے پر ایک بیت المال کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ چند مخلص احباب صاحب ِ نصاب اور صاحب ِ حیثیت افراد کے گھروں پر جا کر زکوٰۃ کی رقم جمع کرتے تھے اور الحمدللہ ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی تھی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بیت المال کے ذریعے صرف رمضان ہی نہیں، عام دنوں میں بھی عطیات و صدقات کی رقم جمع ہوتی رہتی ہے جن سے بے سہارا بیواؤں، غریب مریضوں اور ضرورت مندوں میں راشن کی تقسیم کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی اس کوشش سے مستحق افراد تک پہنچنے میں آسانی رہتی ہے۔ اس کمیٹی سے تحریک پا کر شہر کے دیگر علاقوں میں ایسے اداروں کا قیام عمل میں آرہا ہے۔ 
محمد یعقوب ایوبی (موتی پورہ، مالیگاؤں )
اجتماعی نظم کی اہمیت کیلئے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کا استعمال کریں 


زکوۃ کے اجتماعی نظم کیلئے انفرادی سطح پر درجہ ذیل کوششیں کی جا سکتی ہیں۔ (۱)لوگوں کو زکوۃ کی فرضیت اس کے احکام اور اس کی سماجی اور معاشی اہمیت سے آگاہ کرنا۔ (۲) مقامی مساجد مدارس اور کمیونٹی سینٹرز میں زکوٰۃ کے حوالے سے سیمینارز اور ورکشاپ کا اہتمام کرنا۔ (۳)زکوۃ کی مدد سے مستحقین کو خود کفیل بنانے کی حکمت عملی تیار کرنا جیسے چھوٹے کاروباروں کیلئے مالی مدد فراہم کرنا۔ (۴)سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کر کے زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔ 
اگر ہر فرد انفرادی سطح پر یہ اقدامات کرے تو اجتماعی زکوٰۃ کا ایک مضبوط اور موثر نظام کیا قائم کیا جا سکتا ہے جو غربت کے خاتمے اور سماجی انصاف کے فروغ میں مددگار ثابت ہوگا۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن (لیکچرر ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
اسلام کے ارکان میں ’زکوٰۃ‘ایک اہم رکن


اسلام کے پانچ ارکان میں سے زکوٰۃ ایک رکن ہے جو ہر صاحب جو بالغ ہو اور جس پر زکوٰۃ فرض ہو اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کی بہت ساری صورتیں ہے جو علماء بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔ بہت سارے لوگ سامان کو کٹ کی شکل میں غرباء، مساکین، یتیموں پر تقسیم کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن محلوں کی سطح پر ان لوگوں کی ایک فہرست بنائیں تاکہ ہر گھر اس میں شامل ہوجائے اور تمام مستحقین تک وہ پہنچ جا ئے۔ اس سے صحیح اعداد وشمار ہمارے سامنے ہوگی۔ ہر آدمی جو زکوٰۃ دینے والا ہے ہر مہینے اپنی رقم کمیٹی کے پاس جمع کرائے تاکہ عین وقت پر پیسے دینے میں دقت نہ ہو۔ یہ کام بیت المال کی طرح ہوتا رہے گا اور اس سے زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے کام بھی غربا، یتیموں کے ہوتے رہیں گے۔ 
محمد اقبال( جلگاؤں )
اجتماعی زکوٰۃ کے نظم کا آغاز ہمیں اپنے گھر سے کرنا چاہئے 


ہمارے ملک میں بہت سارے افراد ایک موٹی رقم ہر سال زکوٰۃ کی مد میں ادا کرتے ہیں مگر اس کے خاطرخواہ نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ اس کیلئے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر سے شروعات کرنی چاہئے۔ اپنے غریب بھائی، بہن يا قریبی رشتےداروں کو یہ رقم دینی چاہئے۔ ہم سب کو مل کر کسی ایک غریب رشتےدار کو اتنی رقم دے دینی چا ہئے کہ وہ آئندہ سال زکوٰۃ دینے والا بن جائے۔ اس کے بعد محلوں اور پھر مسجد کی سطح پر اجتماعی زکوٰۃ جمع کا نظم قائم کیا جائے اور یہ رقم نیا کاروبار شروع کرنے، تعلیم حاصل کرنے اور ایسےپروجیکٹ پر خرچ کیا جائے جس سے معاشی استحکام حاصل ہو۔ چھوٹی سطح پر کامیابی کے بعد اس نظام کو شہر کی سطح پر قائم کرنا آسان ہوگا۔ اس نظم کے قیام کیلئے اخلاص، اتحاد اوراتفاق کا ہونا ضروری ہے۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
چند ہی برسوں میں ملک کی کایا پلٹ ہوجائے گی


ہم مسلمان قدیم زمانے سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں مگر آج تک ہم نے اس پر غور نہیں کیا کہ ہماری زکوٰۃ کی رقم سے کیا ہوتا ہے؟ بلاشبہ مسلمان فراخدلی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں لیکن اگر اسی رقم کو ہر علاقے میں اجتماعی طور پر جمع کریں گے اور اسی طرح اجتماعی طورپر اسے تقسیم کریں تو چند ہی برسوں میں ملک کی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ اسلئے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو یہاں وہاں دینے کے بجائے پہلے خاندان، پھر محلے اور پھر شہر کی سطح پر ایک جگہ جمع کریں اور پھر اسے مستحقین میں تقسیم کریں۔ 
تنویر سید حسن سید ببلو(ڈونگری، چار نل ممبئی)
اجتماعی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی سے کئی مسائل حل ہوجائیں گے
انفرادی طور پر مسلمان دل کھول کر زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اگر یہی کوشش اجتماعی طور پر ہوجائے توملت کے کئی مسائل باآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ اس سے تعلیم اور طبی امداد بھی ہوسکتی ہے۔ 
شکیل پٹھان ( اولڈ پنویل)
سب سے پہلے پیشہ وروں  کو بھیک دینا بند کریں 


زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کیلئے انفرادی سطح پر یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ سب سے پہلے بھکاریوں کو دینا بند کریں۔ اسی طرح بڑے گھروں میں کام کرنے والیوں کو زکوٰۃ کی رقم دے دی جاتی ہے، وہ بھی نہیں دیا جانا چاہئے۔ ہمیں بوہرہ سماج کے لوگوں سے کچھ سیکھنا چاہئے۔ ان کے یہاں تمام لوگ اپنی رقوم سیدنا کے پاس جمع کرتے ہیں ۔ وہیں سے ضرورت مندوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہ لوگ روزہ بھی مسجد ہی میں کھولتے ہیں ۔ اسی لئےان کے یہاں کوئی بھیک مانگنے والا نہیں ملے گا کیونکہ سب ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں ۔ ہم اِدھر اُدھر دینے کے بجائے ایک جگہ یعنی مرکزی سطح بیت المال میں رقم جمع کر سکتے ہیں۔ اس کی شاخیں ضلعی سطح پر کھولی جا سکتی ہیں۔ اس اجتماعی رقم سے کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس تعلق سے دانشور حضرات بتا ہی چکے ہیں کہ اس رقم سے بیواؤں اور یتیموں اور مسجد و مدرسہ، اوریتیم خانوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اسکول اور کالج بنائے جاسکتے ہیں جہاں دین ودنیا کی تعلیم دی جاسکے۔ اس سے ہماری قوم کے بچےعالم و قاری، سائنسداں ، جج، وکیل، چارٹرڈ اکاؤنٹ اوربزنس مین وغیرہ سبھی کچھ بن سکتے ہیں ۔ 
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ ہمارے آس پاس زکوٰۃ کا اصل حقدار کون ہے؟


اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو بہت اہمیت دی ہے، ان میں سے ایک زکوٰۃ کا نظام ہے، قرآن میں جہاں نماز کا ذکرآیا ہے وہیں زکوٰۃ کے نظام کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے جس سے مالداروں کے ذریعہ حاصل کیا ہوا مال غرباء و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کے تمام لوگ اطمینان کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ایک زمانے تک دنیا کے کئی ممالک میں بیت المال کے نظام کے تحت زکوٰۃ جمع کیا جاتا تھا اور پھر اسے دنیا کے مختلف علاقوں میں مستحقین تک بحسن خوبی پہنچایا جاتا تھا، لیکن جغرافیائی حالات کے بدلنے سے زکوٰۃ کا نظام بھی بدلتا گیا۔ اب تو زکوٰۃ حاصل کرنے کا انفرادی نظام اس قدر کمزور ہوگیا ہے کہ یہ پتہ لگانا ہی مشکل ہے کہ اصل حقدار کون ہے؟ ہمارے یہاں زکوٰۃ کی اچھی خاصی رقم غیر مستحق جگہوں پر صرف ہو جاتی ہے‌ یا پھر بعض کمیشن خوروں کے جیب کی نذر ہو جاتی ہے۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے سبھی قائل مگر...


نظام زکوٰۃ وہ واحد طریقہ ہے جس سے امیر اللہ کی رضا حاصل کر لیتے ہیں اور غریب اس مال سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسلام کے اوائل کے زمانے ہی سے بیت المال کا قیام تھا جس میں زکوٰۃ جمع کرانے اور تقسیم کرنے کا انتظام تھا۔ اس کا نظام خلیفہ وقت کے ہاتھوں میں ہوتا تھااور وہ خلفاء بھی عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرتے ہوئے اس بیت المال کی نظامت کرتے تھے۔ وقت بدلتا گیا خلافت ختم ہوگئی، بادشاہت آگئی اور پھر رفتہ رفتہ بیت المال کا تصور بھی کم ہوتا گیا۔ آج بھی زکوٰۃ ادا کرنے والے افراد جستجو میں ہیں کہ کوئی ایک واحد ادارہ ہو جہاں ان کی رقومات جمع ہوں لیکن یہ عمل فی الوقت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگ رہا ہے۔ وہ اسلئے کہ ہمارے پاس زکوٰۃ ادا کرنے والوں اور زکوٰۃ کے مستحقین کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔ مساکین اور مستحقین غیرت نفس کی خاطر مانگنے سے قاصر رہتے ہیں اور پیشہ ور مانگنے والے سیٹھوں کی دکانوں اور دفاتر میں قطاریں لگا لگا کر حقداروں کا حق غصب کر لیتے ہیں۔ کچھ افراد کو اس بات کی معلومات بھی نہیں ہوتی کہ زکوٰۃ کے مستحقین کون ہیں ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زکوٰۃ ادا کریں اورزکوٰۃ کی اُس رقم کو خود مستحقین تک پہنچانے کا نظم بھی کریں۔ 
عادل آصف(کرلا)
اس ہفتے کا عنوان
رمضان المبارک کے معمولات میں افطار اور سحری کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ بالخصوص افطار میں بچوں کی دلچسپی کافی رہتی ہے۔ اسی پس منظر میں اس بار سوال طے کیا گیا ہے کہ: 
 ہمارے بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں کیا فرق ہے؟ 
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں انشاء اللہ اتوار (۲۳؍ مارچ) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ 
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK