’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: March 28, 2025, 4:11 PM IST | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
سادگی پیچھے رہ گئی، نمائش بڑھ گئی
بچپن میں افطاری کے وقت ایک روحانیت کا احساس ہوتا تھا۔ پکوان بھلے ہی کم ہوتے تھے لیکن اطمینان زیادہ تھا۔ آج انواع اقسام کے پکوان ہیں، پھل ہیں لیکن روحانیت کا احساس کم ہو گیا ہے۔ اسکی وجہ ہمارا مادیت کی جانب دوڑنا ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمارے احساسات کو سطحی بنا دیا ہے۔ آج ہمارے پاس وسائل زیادہ ہیں لیکن مسائل بڑھ گئے ہیں۔ سادگی کم ہے اور نمائش زیادہ ہو گئی ہے۔ نئے دور کی افطاری بہت الگ ہے۔ آج کی افطاری میں مختلف پکوان اورمشروبات مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ سوشل میڈیا ہر دن کسی نئے پکوان کی معلومات فراہم کرتا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کی افطاری کا دستر خوان مختلف رنگوں اور بہترین طریقہ سے سجا ہوا نظر آتا ہے۔
احتشام خوشتر حسین قریشی، مکتائی نگر، جلگاؤں
اخوت، محبت اور اپنائیت والی افطاری یاد آتی ہے
بچپن میں سحری کے وقت کھیل کود، گھومنا پھرنا اورشرارت کرنا بہت یادآتا ہے۔ ہمارا بچپن ایک دیہات میں گزراہے۔ یہاں کی مسجد میں افطار کا اجتماعی نظم ہوتا تھا۔ افطاری کیلئے گھریلو پکوان جیسے کھچڑی، پلاؤ، دال چاول، سالن روٹی وغیرہ بھیجے جاتے تھے۔ ان پکوانوں کی پلیٹیں بناکرروزہ داروں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری بزرگوں کی نگرانی میں ہم بچے کرتے تھے۔ شربت بنانے کیلئے روزانہ شکر، برف، لیمو، الگ الگ گھروں سے مانگ کربنانا بھی ایک کام تھا۔ کسی دن شربت میں روح افزاء یا رسنہ کا ذائقہ شامل ہوجاتا تو ہماری خوشی دو بالا ہوجاتی۔ افطاری کی تیاری میں محبت، بھائی چارگی، امیرغریب میں محبت، ٹیم ورک، بزرگوں کی اطاعت جیسے اوصاف پروان چڑھے۔ جمعہ کو زیادہ افطاری آنے پر سیر ہو کر افطاری کرنا اور کسی دن کم افطاری آ جائے تو چند لقموں پرقناعت کرلینا عملی طور پر سیکھنے کو ملا۔ آج کی افطاری کے دسترخوان انواع و اقسام کے پکوانوں سے بھرے ہوتے ہیں جو ہمیں بچپن میں میسر نہیں تھے۔ کالونیوں نے لوگوں میں دوری پیدا کردی ہے۔ ہو گئی ہے۔ اب لوگ اپنے اپنے گھروں میں افطاری کر لیتے ہیں جس سے انہیں ایک دوسرے کے حالات کاعلم نہیں ہوتا۔ اُس اجتماعی افطاری کی بہت یاد ستاتی ہے جس میں خلوص، محبت، ہمدردی، اخوت، بھائی چارہ، اور اپنائیت تھی۔
اسمٰعیل سلیمان، کرہاڈ، جلگاؤں
مسجد کی افطاری سے چار دیواری کی افطاری تک کا سفر
جب چیزیں سستی تھیں ، ہر چیز گھر میں تیار ہوتی تھی اور اس وقت پیٹ بھر کر افطار کرتے تھے اس زمانے میں مسجد میں افطاری ہوتی تھی تاکہ باہر کے روزہ داروں کو اپنائیت کا احساس ہو مگر آج ایسا نہیں ہے۔ لوگ عصر کے بعد بازار جاتے ہیں، پسندیدہ چیزیں خریدتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کی چار دیواری میں افطار کرلیتے ہیں۔
محمد جنید قاضی، اولڈ پنویل درگاہ
موسمی پھل غائب ہوگئے
وقت کے ساتھ افطاری کے طریقوں و روایات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماضی میں افطاری سادگی سے بھرپور ہوتی تھی۔ دسترخوان پر کھجور، پانی، گھر کی بنی ہوئی سادہ چیزیں جیسے بھجیا، سموسے، دہی بھلے اور شربت شامل ہوتے تھے۔ آج افطاری میں تنوع اور تکلف بڑھ گیا ہے اور مختلف قسم کے پکوان اور مشروبات دسترخوان کی زینت بنتے ہیں۔ ماضی میں افطاری کے تمام لوازمات گھروں میں تیار ہوتے تھے جو صحت بخش اور خالص ہوتے تھے۔ اب بازار میں دستیاب تیار شدہ اشیاء کا استعمال بڑھ گیا ہے جو سہولت تو فراہم کرتی ہیں لیکن ان کی غذائیت اور صفائی پر سوال اٹھتے ہیں۔ ماضی میں موسمی پھل افطاری کا حصہ بنتے تھے مگر اب ہر موسم میں کوئی بھی پھل دستیاب ہے۔
محمد شاہد، مجگاوں
روزہ کھولو، بتی جل گئی
بچپن کا رمضان یادگار ہوتا ہے۔ افطار کے وقت ہم بچے مسجد کے ارد گرد جمع ہوتے اور جیسے ہی مغرب کی اذان ہوتی سارے بچے یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے روزہ کھولو، روزہ کھولو بتی جلی، پھر دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے۔ اُس وقت اتنی آسائشیں اور آسانیاں نہیں تھیں۔ دسترخوان پر کم اشیاء ہوتی تھیں۔ آج کا دسترخوان بہت وسیع اور کشادہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے پکوان اور قسم قسم کے پھل ہوتے ہیں ۔ اب ہمارا بچپن صرف یادوں کے سہارے ہے۔ بچپن میں بزرگوں کا پیار ان کی محبتیں ان عنایتیں سب خواب و خیال بن گئے ہیں۔ اس وقت بڑوں کا احترام، آپسی بھائی چارہ، ہمدردی اور پڑوسی کی خیرخواہی کی ترغیب دی جاتی تھی مگر اب وہ ماحول ہے نہ سادگی، نہ اخوت و محبت ہے اور نہ صبر و تحمل۔ ہر طرف خود غرضی، مفاد پرستی، عدم توجہی اور عدم فرصت کی کیفیت سی ہے۔
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی، بیلاپور، نوی ممبئی
بڑا سکون تھا بچپن کے روزوں میں
افطار، یہی وہ لفظ ہے جس کیلئے روزے کی صحیح اہمیت محسوس ہوتی ہے۔ سحری تو آنکھوں میں نیند لئے اور بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے جیسے تیسے ہوجاتی لیکن افطار کا اہتمام جاگتی آنکھوں سے ہوتا تھا۔ ایسا لگتا کوئی معرکہ سر کرنے کی تیاری ہورہی ہو۔ سحری بڑوں کی ضِد سے کی جاتی لیکن افطار بڑوں سے ضِد کرکے اپنی پسند کی چیزوں کو شامل کرواکر کی جاتی۔ گھر کے بڑے اس ڈر سے کہ کہیں روزہ نہ توڑ بیٹھیں، جاسوسی میں لگے رہتے۔ گھر اور بازار کی رونق دیکھنے لائق ہوتی۔ افطار کے لوازمات سے فضاء معطر رہتی تھی۔ اب افطار کی چہل پہل کہاں بس جو وقت ملا غنیمت جان کر افطاری کے سامان خرید لیتے ہیں اور پھر جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر افطار کرلیتے ہیں۔
محمد سلمان شیخ، تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی
بھرا پُرا دستر خوان بھی خالی محسوس ہوتا ہے
بچپن میں مسجد کے اطراف کے ہر گھر سے افطاری کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور آتا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ محلے کے دکاندار بھی خالی ہاتھ آتے ہیں۔ گھروں سے افطاری آنا بند ہوگئی ہے۔ اُس دور میں مسجد کے باہر کھڑے بچوں اور غریبوں میں افطاری میں چنے کی گھنگھنی بانٹی جاتی تھی مگر آج کچھ نہیں دیا جاتا ہے۔ جب دسترخوانوں پر مٹر اور چنے کی گھنگھنی ہوتی تو افطاری میں لطف آتا تھا مگر اب دستر خوان رنگوں اور مختلف پکوانوں سے سجے ہوتے ہیں مگر پھر بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔
ابو مصعب عادل ندوی، چکھلی، پونے
بچپن کی افطاری کی کمی محسوس ہوتی ہے
بچپن میں افطاری کے دستر خوان پر ہم سب پہلے مل کر دعا کرتے تھے۔ زیادہ چیزیں نہیں ہوتی تھیں۔ چند پھل ہوتے تھے۔ آس پڑوس کا بھی یہی حال تھا۔ افطاری میں کھانے پینے کی جو اشیاء آج کے دسترخوان پر ہوتی ہیں، ان کے بارے میں تو بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اُس دور میں شاذ و نادر شربت بنتا تھا، وہ بھی لیموں کا۔ آج کی افطاری میں ایسے ایسے ویج نان ویج پکوان ہوتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن آج ہر چیز دسترس میں ہونے کے باوجود بچپن کی افطاری کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ آج کے نقلی اور ملاوٹی کھانے پینے کی چیزوں میں لطف نہیں ہے۔
عبدالرحمٰن یوسف، بھیونڈی
افطاری کا دستر خوان بدلا، صحت خراب ہونے لگی
فی الحال میری عمر ۷۹؍ سال ہے۔ آج بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں نماز عصر کے بعد گھریلو پکوان بنتے تھے۔ اس وقت مینارہ مسجد کے پاس حاجی علی جلال اور مرحوم غفور کلن کی دکان پر ۲؍ روپے کے مالپوہ کیلئے ہجوم امڈ پڑتا تھا۔ گھریلو عورتیں باہر کی تلی ہوئی اشیاء کھانے منع کرتی تھیں کہ ان سے صحت خراب ہوگی۔ مگر آج تقریباً ہر چیز باہر سے آتی ہے۔ پہلے دادی مرحومہ اذان سے قبل ایک تھال میں مختلف اشیاء سجا کر پڑوسیوں کیلئے روانہ کرتی تھیں۔ مسجد کے خادم سحری جگانے آتے تھے۔ دادی انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء دیتی تھیں۔ اس وقت کے بچے بھی تندرست اور توانا ہوتے تھے مگر آج ہم پیسوں سے زہر خرید رہے ہیں اور اپنے بچوں کی صحت تباہ کررہے ہیں۔
محمد زبیر فطرت، سابق آکٹرائے انسپکٹر بی ایم سی، ممبئی
رمضان سے پہلے راشن بھروا لیا جاتا تھا
پہلے رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے والدہ مٹر، چنا، اور آٹا وغیرہ خریدنے کیلئے کہتیں جو پورا مہینہ کافی پڑتا تھا۔ افطاری کا سارا سامان گھر میں تیار ہوتا تھا مگر آج امیر کیا غریب کیا، سبھی باہر کی افطاری کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ پیزا، برگر، سموسے، اور تیل میں تلی جانے والی دیگر اشیاء میں اتنا شوگر ہوتا ہے کہ یہ بچوں کو اندر سے کھوکھلا کررہا ہے مگر ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔ ہم ایسے پکوان کھانے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ ان پکوانوں کے ذریعے ہم مختلف بیماریوں کو گلے لگارہے ہیں۔
شکیل پٹھان، اولڈ پنویل
گھر کے بڑے ہال میں بڑے دسترخوان کی یادیں
۲۱؍ ویں صدی کی شروعات ہی سے فرق واضح نظر آنے لگا ہے۔ اس وقت افطاری کا اہتمام ظہر بعد سے شروع ہو جاتا تھا کیونکہ ہمارا پورا خاندان ایک ساتھ رہتا تھا جس میں تقریباً ۵۰؍ سے زائد افراد شامل تھے۔ گھر کی سبھی خواتین، ساس، بہو، نند، بھاوج مل جل کر کام کرتی تھیں۔ گھر کے بڑے ہال میں بڑا سا دسترخوان بچھایا جاتا اور سب مل کر افطاری کرتے تھے۔ سرپرست کے طور پر دادا جان دعا پڑھاتے تھے اور ہم سب بیک آواز آمین کہتے تھے۔ بہت روحانی سا ماحول تھا۔ آج کی افطاری میں دسترخوان چھوٹے ہوگئے ہیں۔ بیشتر خاندان نیوکلیئر ہوگئے ہیں۔ باورچی کھانے میں پکوان کم بنتے ہیں، باہر سے زیادہ منگوائے جاتے ہیں۔
عمران عمر سر، شیدا اردو ہائی اسکول، مالیگاؤں
وقت بدلا قدریں بدل گئیں
یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ تبدیلی کا عمل ہے۔ ہر بدلتے دور میں انسانی قدروں میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن کی افطاری چند پھلوں اور گھر میں بنے بھجئے اور زیادہ سے زیادہ چنے اور سموسے پر مبنی ہوتی تھی۔ شربت کے نام پر کبھی کبھار لیموں، رسنا یا روح افزا دسترخوان پر موجود ہوتے تھے۔ موجودہ دور نے گھروں میں بننے والی اشیاء کو بازار سے خریدی جانے والی اشیاء سے بدل دیا ہے۔ پھلوں سے لیکر دیگر تمام لوازمات بازار میں دستیاب ہیں۔ عربی، ترکش ڈشوں کے نام پر چکن، چیز، کرسپی وغیرہ اس نسل کی ترجیح اور پسند ہیں۔ اب گھروں میں خال خال ہی اشیاء تیار کرنے کاچلن ہے۔ عمارتوں اور فلیٹ سسٹم نے افطار کےوقت محلوں کی کیفیت کو بدل دیا ہے۔ موبائل نے لوگوں کو موذن کی صدا اور افطار سے قبل کی روحانیت سے بیگانہ کردیا ہے۔ بدلتے وقت نے انسانی اقدار اور تہواروں کی روحانیت کوکم کردیاہے۔
مومن فہیم احمدعبدالباری، بھیونڈی
اب پڑوسیوں کی خبر نہیں
بچپن میں جوائنٹ فیملی کا رواج تھا۔ گھر کی ساری خواتین مل کر افطاری کیلئے انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتی تھیں اور پوری فیملی ساتھ مل کر افطار سے لطف اندوز ہوتی تھی جس سے افطار کی رونق دوبالا ہوجاتی تھی۔ مگر اب نیوکلیئر فیملی سسٹم عام ہے اور دسترخوان کی زینت بڑھانے کیلئے کئی طرح کے فوڈ اپپس ہیں جو منٹوں میں آپ کی پسندیدہ ڈش آپ کے سامنے حاضر کر دیتے ہیں۔ یہ کھانے لذیذ تو ہوتے ہیں مگر ان میں گھر میں بنائے گئے پکوان سی محبت اور جذبہ نہیں ہوتا۔ بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں بنیادی فرق اخلاقیات کا ہے۔ کل تک ہم مساجد میں بھاگ بھاگ کر جاتے تھے کہ کوئی ضرورتمند یا مسافر تو نہیں ہے، اگر ہوتا تو اسے اپنے ساتھ افطاری میں شامل کرتے اور اس میں بچوں کا اہم رول ہوتا جنہیں افطاری تقسیم کرنےمیں بہت لطف آتا تھا۔ وہ آج کے بچوں کی طرح شرماتے نہیں تھے لیکن زمانہ بدلا تو افطار کے اہتمام کا طریقہ بھی بدلا۔ آج یہ عالم ہے کی ہمیں اپنے پڑوسی کی بھی خبر نہیں ہے۔
رضوان قاضی، کوسہ، ممبرا
متوسط طبقہ بھیڑ چال کا حصہ بن گیا
اب انسانی زندگی کے معمولات شب وروز اور رنگ ڈھنگ سبھی بدل گئے ہیں۔ زمانے کے ساتھ اس ماہ مقدس سے وابستہ ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کی بہت سی اطوار میں بھی فرق آگیا ہے۔ بچپن میں مساجد میں روزہ داروں کیلئے گھروں سے افطار بھیجنے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا جو بچے لے جاتے تھے تاکہ ان میں رمضان کے اکرام اور نفاق کا جذبہ پیدا ہو۔ بچپن کی افطاری میں سموسے، پکوڑے، چنا اور ایک دو پھل وغیرہ دستر خوان کے لوازمات تھے۔ مشروب میں لیمو چینی کا شربت، زیرہ چینی کا شربت یا پھر روح افزاء۔ آج کی افطاری میں دسترخوان انواع واقسام کے لوازمات جن میں سے بیشتر باہر کے ہوتے ہیں، بھرے پڑے رہتے ہیں۔ اب تو روزے سے قبل ہی فریج کولڈ ڈرنکس اور جوس وغیرہ سے بھر جاتے ہیں۔ آج دولت کے اظہار کے طریقے کیلئے معاشرے کا متوسط طبقہ بھی اسی بھیڑ چال والی افطاری کا شکار نظر آتا ہے۔
ایم پرویز عالم نور محمد، رفیع گنج، بہار
بڑے عزت افزائی کرتے تھے
ہم بچپن کی افطاری میں بھجیا اور ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی خوش ہوجایا کرتے تھے اور اپنے محلہ میں اگر کسی بچے نے پہلا روزہ رکھا تو وہ افطاری مسجد و محلہ میں اور اس کے پڑوس میں پہنچائی جاتی تھی۔ پھر اس کی تصویر کھنچوانے فوٹو اسٹوڈیوز میں جاتے تھے۔ محلے کے بڑے عزت افزائی کرتے تھے۔ خاندان بھر میں چرچا ہوتا تھا۔ پیسے بھی ملا کرتے تھے۔ جیسے ہی سحری جگانے والوں کی آوازیں آتیں، آنکھ کھل جاتی تھی۔ گھر کے بڑے کچھ کام کیلئے کہتے تو ہم کر دیا کرتے تھے۔ پہلے یہ سب کام کرنے میں خوشی ہوتی تھی۔
سب اپنی اپنی حیثیت کے حساب سے خرچ کرتے تھے۔ اسلئے خوشی محسوس کرتے تھے۔ لیکن آج زمانہ بدل گیا ہے نئی ٹیکنالوجی اور موبائل فون کا دور جو ہے۔ آج پتہ بہت جلد چل جاتا ہے موبائل پر تصویر جو آجاتی ہے۔ آج طرح طرح کے لوازمات کا ذخیرہ جو بازار میں مل جو جاتے ہیں ۔ جن کے نام تک ہم جیسوں کو پتہ نہیں ۔ اوپر سے گھر میں بھی مختلف پکوان بنائے جاتے ہیں ۔ لیکن آج اگر کسی کے گھر سے افطاری آجائے تو سوچنا پڑتا ہے۔ تو یہ فرق ہے کل اور آج میں ۔ پہلے خلوص ہوا کرتا تھا اور آج خلوص ندارد ہے۔ صرف دکھاوا رہ گیا ہے۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میراروڈ، تھانہ)
پہلے پھل لائے جاتے تھے اس سے پورا ہفتہ گزارا کرتے تھے
بچپن میں جب ہم روزہ رکھا کرتے تھے اس وقت ہمارے گھر میں زیادہ افراد تھے کیونکہ ہم مشترکہ خاندان میں رہتے تھے۔ اس وقت ہم گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ چونکہ اس وقت آمدنی بھی محدود تھی اسی لئے افطاری میں پھلوں اور پکوانوں کی تعداد بھی حسب استطاعت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ گاؤں میں چونکہ بازار ہفتہ میں ایک بار لگتا تھا اسلئے جو بھی پھل لائے جاتے تھے اس سے پورا ہفتہ گزارا کرتے تھے۔ پکوان بھی ایک اور دو پر محدود تھے۔ اب جب ہم شہر میں منتقل ہو گئے ہیں اور خاندان بھی چھوٹا ہوگیا ہے۔ یہاں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر افراد افطاری بازاروں میں کرتے ہیں جہاں کھانے پینے کی اشیاء کثیر تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں۔ جو بھی کھانے کی تمنا ہو وہ بازار جا کر لایا جاتا ہے اور کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود آج بھی ہمارے گھر میں افطاری کا انتظام سادگی سے کیا جاتا ہے جس میں گھر کی عورتوں کی محنت اور یوٹیوب کی مدد شامل ہوتی ہے۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں ، راجا پور، رتناگیری)
بچپن کی افطاری میں سادگی، محبت، اجتماعیت اور برکت زیادہ محسوس ہوتی تھی
وقت کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی، معاشرتی رویے، اور کھانے پینے کی عادات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، وہ افطاری کے اہتمام پر بھی دکھائی دیتی ہے۔
(۱) سادگی اور تصنع:پہلے: ہمارے بچپن کی افطاری سادگی کی ایک خوبصورت مثال ہوا کرتی تھی۔ کھجور، پانی، شربت، پھل، سموسے، پکوڑے اور کبھی کبھار چنا چاٹ کے ساتھ افطار کیا جاتا تھا۔ زیادہ زور عبادات اور اجتماعی برکتوں پر ہوتا تھا۔ آج کی افطاری میں تنوع اور تصنع بڑھ گیا ہے۔ مختلف اقسام کے پکوان، فرائیڈ اور جنک فوڈ، کولڈ ڈرنکس، اور خاص ڈشز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
(۲) خاندانی اجتماع اور انفرادیت: بچپن میں افطاری کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہوتا تھا کہ سب گھر والے ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر افطار کرتے تھے۔ بزرگ، بچے، سب مل کر کھانے کی برکتیں سمیٹتے تھے۔ آج اکثر لوگ مصروفیات کی وجہ سے الگ الگ افطار کرتے ہیں، یا سوشل میڈیا اور موبائل میں مصروف رہتے ہیں، جس سے وہ خاندانی محبت اور اجتماعیت کمزور پڑ گئی ہے۔
(۳) گھریلو اور بازاری افطاری: پہلے زیادہ تر افطاری گھر میں تیار کی جاتی تھی۔ مائیں اور بہنیں محبت سے پکوڑے، سموسے، اور دیگر لوازمات بناتی تھیں، جس میں گھریلو پن اور برکت محسوس ہوتی تھی۔ آج کل زیادہ تر افطاری بازار سے خریدی جاتی ہے، جو اگرچہ وقت بچاتی ہے، مگر گھریلو ذائقے اور محبت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
(۴) عبادت اور تفریح: پہلئے افطار کے بعد نماز اور عبادات کا زیادہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ مسجدوں میں تراویح کیلئے جوش و خروش دیکھا جاتا تھا۔ آج سوشل میڈیا، ٹی وی شوز، اور افطار پارٹیوں کا رجحان بڑھ چکا ہے، جس کی وجہ سے بعض لوگ عبادات میں وہی یکسوئی برقرار نہیں رکھ پاتے جو پہلے تھی۔
(۵) صحت بخش اور غیر صحت بخش کھانے: پہلے سادہ اور متوازن غذا کھانے کا رجحان تھا، جیسے کہ کھجور، دودھ، پھل، اور ہلکی غذا۔ آج کل چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء زیادہ کھائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، جیسے کہ موٹاپا اور ہاضمے کی بیماریاں۔ غرضیکہ بچپن کی افطاری میں سادگی، محبت، اجتماعیت، اور برکت زیادہ تھی، جبکہ آج کی افطاری میں تنوع، سہولت پسندی، اور جدید طرزِ زندگی کے اثرات نمایاں ہیں۔ اگر ہم پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نئی سہولیات کو مثبت طریقے سے اپنائیں تو افطاری کا اصل لطف اور برکت دونوں حاصل کر سکتے ہیں۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(صمدیہ ہائی اسکول، بھیونڈی)
بچپن کی افطاری کبھی نہیں بھولیں گے
ہمارے بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں بہت بڑا فرق ہے۔ بچپن کی افطاری مختصر ہوتی تھی اور وہ بہت اچھی تھی۔ سادہ پھل، لیموں شربت، کھجور، کیلے، چنے اور کھچڑی بس کبھی ہم سب دوست مسجد میں افطاری کے لئے بڑے شوق سےجاتے۔ اور ابھی کی افطاری کے اہتمام میں بڑا فرق ہے۔ ابھی گھر میں ہی افطاری ہوتی ہے۔ افطاری میں فروٹ، اعلیٰ قسم کی کھجوراور تربوز کے بغیر افطاری مکمل نہیں ہوتی۔ انناس، خربوز، سموسہ بھجیا، چنا، رگڑا، اسی طرح مشروب میں روح افزا کا شربت ضروری ہوگیا ہے۔ اسی طرح آس پڑوس میں افطاری بھیجی جاتی اور وہاں سے بھی جواب میں افطاری آتی تھی۔
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف (مہاپولی، بھیونڈی)
وہ منظر ہی کچھ اور ہوتا تھا، افطاری گھریلو جشن کی مانند ہوتی تھی
افطاری کا لمحہ محض روزہ کھولنے کا وقت نہیں بلکہ اجتماعی برکت، محبت اور روحانیت کا مظہر ہوتا تھا۔ وہ وقت جب گھروں میں سادگی، دل جمعی اور خلوص کے ساتھ افطاری کا اہتمام کیا جاتا تھا، جہاں خاندان کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھجور سے روزہ افطار کرتے اللہ کا شکر ادا کرتے اور اجتماعی دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ وہ منظر ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ ایک روحانی اور خالص محبت سے بھرپور ماحول جس میں عبادت بھی تھی، اجتماعیت بھی، اور اپنائیت بھی۔ چند دہائیاں پہلے کی افطاری کو یاد کریں تو وہ ایک گھریلو جشن کی مانند ہوتی تھی۔ دادا دادی، نانا نانی، والدین، بہن بھائی، چچا زاد، خالہ زاد سب ایک ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھتے۔ ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق سادہ مگر پرتکلف اہتمام کرتا۔ سحری میں بھی وہی محبت، وہی اجتماعیت اور وہی برکت نظر آتی۔ مگر آج کے دور کی افطاری دیکھیں تو منظر بالکل بدل چکا ہے۔ گھروں میں اجتماعیت کم ہو چکی ہے، ہر فرد اپنی مصروفیات میں الجھا ہوا ہے۔ اکثر اوقات افطاری ہوٹلوں، فائیو اسٹار ریسٹورنٹس یا پھر ’انسٹاگرام اسٹوریز‘ اور ’سوشل میڈیا لائیو‘ میں بدل چکی ہے۔ پہلے جہاں خاندان کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھتے تھے، آج وہاں موبائل فون کی چمکتی اسکرینیں، وی لاگز اور تصویریں لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی جلد بازی نظر آتی ہے۔ جدید طرز زندگی میں مصروفیات کا ایسا جال بچھا ہے کہ افطاری کی روح کہیں کھو گئی ہے۔ رشتہ داروں کے درمیان وہ گرمجوشی اور محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ زندگی کے تقاضے بدلتے ہیں، لیکن ہمیں اپنی روحانی روایات، محبتوں اور سادگی کو زندہ رکھنا ہوگا۔ افطاری کا اصل حسن اجتماعیت، عبادت اور خلوص میں ہے، نہ کہ مہنگے کھانوں اور سوشل میڈیا کی نمائش میں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کو محض ایک رسمی عبادت نہ بننے دیں، بلکہ اسے روحانی تطہیر، تعلقات کی مضبوطی اور خلوص کے احیاء کا ذریعہ بنائیں۔ رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر افطاری کریں، اجتماعی دعا کا اہتمام کریں، اور اپنے بچوں کو وہی تربیت دیں جو ہمیں ہمارے بڑوں نے دی تھی۔ یہ وقت ہے کہ ہم افطاری کے کھوئے ہوئے جذبے کو پھر سے زندہ کریں، تاکہ یہ مبارک ساعتیں ہمیں اللہ کے قریب کریں، نہ کہ دنیا کی چکاچوند میں مزید گم کر دیں۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں بہت نمایاں فرق
ماضی میں افطاری سادہ اور محدود اشیاء پر مشتمل ہوتی تھی، جیسے پکوڑے، دہی بھلے اور فروٹ چاٹ۔ موجودہ دور میں افطاری میں تنوع بڑھ گیا ہے۔ بچے اور نوجوان اب نگٹس، سموسے، ڈرم اسٹک، میکرونی، لازانیا اور سپیگٹی جیسی ڈشز کی فرمائش کرتے ہیں۔ لال شربت کی جگہ مختلف رنگ برنگے جوسز مقبول ہو چکے ہیں۔
پہلے، بچے افطاری کی تیاری میں بڑوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ شربت بنانا، فروٹ چاٹ تیار کرنا اور دسترخوان لگانے میں ان کی شرکت عام تھی۔ اس سے خاندانی ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اب حالات کے بدلنے سے، بچوں کی مصروفیات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی افطاری کی تیاری میں شرکت کم ہو گئی ہے۔ تاہم، جب بھی موقع ملتا ہے، بچے اب بھی ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
ماضی میں، محلے میں افطاری بانٹنے کا رواج زیادہ تھا۔ بچے افطاری کی ٹرے لے کر ہمسایوں کے گھروں یا مسجد میں جاتے تھے جس سے سماجی تعلقات مضبوط ہوتے تھے۔ یہ روایت اب بھی موجود ہے لیکن بعض جگہوں پر اس میں کمی آئی ہے۔ مصروف زندگی اور بدلتے معمولات کی وجہ سے محلے میں افطاری بانٹنے کا رواج کچھ کمزور پڑ گیا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ سادگی سے تنوع کی طرف، خاندانی شرکت سے مصروفیات کی طرف اور سماجی تعلقات سے انفرادیت کی طرف، یہ سفر معاشرتی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، افطاری کی اصل روح، یعنی شکرگزاری اور عبادت، اب بھی برقرار ہے۔
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل ، معاون معلم(باندرہ)
بچپن کے رمضان اور افطاری کا کیا کہنا
آج سے ۳۰۔ ۳۵؍ سال پہلے گاؤں کا زمانہ تھا رمضان آنے والا ہے یہ سن کر ہی دل باغ باغ ہوجاتا تھا۔ یاد نہیں کہ بچپن میں افطاری میں پکوڑوں اور سموسوں کا بھی کوئی چلن تھا۔ سحری اور افطاری بہت سادہ ہوتی تھی۔ پلاؤ ` سالن اور روٹی بنتی۔ میٹھی سیوئیاں تو افطاری کی سردار ہوا کرتی تھیں۔ پینڈ کھجور میں اتنا مزہ آتا تھا کہ آج کی کلمی کھجوروں میں وہ بات نہیں۔ کھانے کی چاہت ختم نہیں ہوتی تھی لیکن وہ پیند کھجوریں ختم ہوجاتی تھیں۔
ہم عصر کی نماز کے بعد مسجد میں محلے والوں کے افطاری کے برتن ایک بڑے پتیلے میں جمع کرتے تھے اور پھر اسے روزہ داروں کو مٹی کے برتن میں تقسیم کرتے تھے۔ کچھ اچھی چیزیں الگ سے نکال لیا کرتے تھے اور انھیں بعد میں نوش فرماتے تھے۔ آج کل کی طرح ایسے چکن اور چائینیز کے پکوان تو نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت جو بھی میسر ہوا کرتا بہت عمدہ اور ذائقہ دار ہوا کرتا تھا۔
آج کی افطاری میں ہر چیز موجود ہے لیکن پرہیز اور دیگر وجوہات کی بنا پر کھانے پر بندش ہے. اورکھانوں میں وہ ذائقہ بھی نہیں ہے جسے یاد رکھا جائے یا جس سے جی للچائے۔ افطاری کے پہلے جو دعاؤں کا اہتمام ہوا کرتا اور جو خشوع و خضوع سے دعائیں مانگی جاتی تھی آج اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں اللہ معاف کرے دعائیں مانگنے میں بھی کوتائی ہورہی ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ ہماری کوتاہیوں کو معاف کرے اور رمضان کی برکات سے ہمیں مالا مال کرے، آمین۔
وسیم عبدالستار۔ گولی بار( ` سانتا کروز)
بچپن میں آج کے مقابلے افطاری میں کم چیزیں ہوا کرتی تھیں
ہمارے بچپن اور آج کی افطاری میں کافی امتیاز اور تفاوت ہے۔ پہلے گھروں اور مساجد میں انواع و اقسام کی کھجوریں ، پھل فروٹ اور دیگر چیزوں کا اہتمام قدرے کم ہوتا تھا۔ افطار پارٹی اور عید ملن جیسے پروگرام کا چلن بھی ناپید تھا۔ مگر جب بڑی عمر کو پہنچے تو افطار پارٹی اور عید ملن جیسے پروگرام نے ملک کو ایک خوبصورت ذہن یعنی ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب سے روشناس کرایا۔ اس کا اہتمام سماج کے دونوں فرقوں کی جانب سے انجام پذیر ہوتا، جس پر کافی رشک ہوتا تھا۔ آج بھی افطار پارٹیوں اور عید ملن جیسے پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر اس میں سیاسی رنگ اور سیاسی روٹیاں سینکنے کا عمل قدرے زیادہ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ملک کی سیاسی فضا قدرے تبدلی کا شکار ہوئی۔ فرقہ پرست پارٹیوں کے لیڈران کے نفرتی بھاشن، ہندو راشٹر کا قیام، مندر مسجد تنازعہ، بلڈوزر کی سیاست اور وقف بورڈ ترمیمی بل، نے اقلیتی فرقہ خصوصی طور سے مسلمانوں کا عرصہ حیات کافی تنگ کر دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کے ملک میں دونوں فرقے ہندو مسلم اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھیں قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے لئے مؤثر اقدامات کریں ۔
افطار پارٹی عید ملن جیسی تقریبات کا اہتمام سماج کےدونوں فرقوں کے مابین کیا جائے، جس میں مذہبی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی شخصیات کو مدعو کیا جائے اور ان کی پذیرائی کی جائے اور تقاریر کے ذریعے حب الوطنی، دوستی، بھائی چارہ، امن و امان اور گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا جائے۔
انصاری محمد صادق، (کلیان)
رمضان المبارک کی آمد پر سب سے زیادہ بچے خوش ہوتے تھے
بچپن میں موبائل فون نہیں ہوتا تھا، اس لئے زیادہ سے زیادہ بچے نماز، تلاوت اور مسجد میں دکھائی دیتے تھے۔ لڑکیاں امّاں کے ساتھ افطاری تیار کرتی تھیں اور لڑکے سودا لا کر دیا کرتے تھے۔ مسجدوں میں افطاری کرنے کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا، ہم دوست لوگ محلے کی مسجدوں میں بدل بدل کر اجتماعی طور پر افطاری کرتے تھے، لیکن تراویح سب سے قریبی مسجد میں اہتمام سے ادا کرتے تھے، شبِ قدر اس مسجد میں اہتمام کرتے جہاں بریانی پلاؤ کا انتظام ہوتا تھا۔ اب افطاری کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں ہوتا ہے، کام اور سفر کے دوران جہاں موقع ملا اس جگہ افطاری کرکے نماز ادا کر لیا کرتے ہیں۔
ذاکر بھائی( ممبئی)
اب تو یو ٹیوب دیکھ کر افطاری کے سامان بننے لگے ہیں
بچپن کی اور آج کی افطاری کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ شفیق والدین نہی ہیں جنہوں نےبڑی ہی محنت اور محبت سے پرورش کی۔ بچپن کی افطاری میں آلو پیاز اور دال کے پکوڑے اور چنا مسالہ بنا کرتا تھا۔ ناریل املی کی چٹنی بنتی تھی اورموسمی پھل کے شربت دودھ کے ساتھ بنتے تھے۔ دودھ کے ساتھ خربوز اور آم کا شربت لا جواب ہوا کرتا جو صحت کیلئے بھی مفید ہوتا تھا۔ ۔ شربت کو ٹھنڈا کرنے بیل گاڑی والے سے برف لیا کرتے کیونکہ گھروں میں فریج نہیں ہوتے تھے۔ فالودہ، فیرنی، حلوا پراٹھا، سیخ بوٹی، مالپوہ وغیرہ مینارہ مسجد بہن کی سسرال والوں کے ساتھ کھا کر آیا کرتے تھے۔ اب تو ہر محلہ میں افطاری کا سامان ملنے لگا ہےاور سوشل میڈیا دستیاب ہونے سے گھر پر ہی بین الاقوامی کھانے بنائے جا سکتے ہیں۔ افطار باکس بھی آن لائن منگا سکتے ہیں۔ اب چایئنیز چٹنی، سویا ساس، کیچپ کا استعمال ہونے لگا ہے۔ چکن رول، پزا، برگر، لالی پاپ، کھچڑا سب کچھ گھر میں بننے لگا ہے۔ ۔ بچپن کی افطاری بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور آج کی بھی افطاری میں اللہ کی نعمتیں ھوتی ہیں۔
عائشہ انصاری(ممبئی)
بچپن اور آج کی افطار میں بڑا فرق ہے
اگر ہم پچاس ساٹھ سال پیچھے جائے تو بچپن کی اور آج کی افطاری میں بہت بڑا فرق ہے۔ عمومی طور پر افطاری میں سیدھے سادے دو تین چیزیں ہوا کرتی تھی۔ پینڈ کھجور جسے کے آج نوجوان کھانا بھی پسند نہیں کریں گے۔ تربوز یا خربوزہ اور کبھی کبھار چنا بٹاٹا ہوا کرتا تھا۔ اسی میں پڑوسی ایک دوسرے کو دیا لیا کرتے تھے۔ گزرا ہوا زمانہ بہت ہی پیارا و سہانہ دور تھا۔ غربت تھی لیکن بڑی سادگی اور بہت ہی پیار و محبت کا زمانہ تھا۔ آج کی افطاری کا تو کیا کہنے۔ دسیوں بیسویں قسم کے ڈسیش، فروٹس اور قسم قسم مشروب ہوتے ہیں ۔ پھر روزانہ مینو میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اسی کے نتائج ہےکہ جو برادران وطن ماہ کل تک رمضان اور روزہ داروں کا اکرام و محبت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حقیقی روزہ تو مسلمانوں کا ہے اور ہمارا اُپواس اس کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آج عمومی طور پر روزہ کی روح نکل گئی ہے اور روزہ افطاری ایک جشن بن گیا ہے۔ دسیوں رمضان نماز، روزے وغیرہ کے ساتھ گزر جاتے ہیں لیکن کوئی خاص یا نمایاں تبدیلی انفرادی طو پر اور نہ تو اجتماعی طور پر معاشرہ میں نظر آتی ہے۔
ابو حنظلہ ، پونے
پرانے دور میں آج کی طرح بازاروسیع نہیں تھا
انسانی زندگی اور اس کے مظاہر پر تغیراتی اثرات کا پڑنا ایک عمل مسلسل ہےبلکہ نظام کائنات کا جزو لا ینفک ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ اس عمل تغیر سے نظام سحر و افطار بھی متاثر ہوا ہےاور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ بچپن اور موجود دور کے نظام افطار کے فرق کا تجربہ عمر، علاقہ اور محلے کے اعتبار سے ہر شخص کا منفرد ہو گا۔ میں نے بچپن میں گاؤں اور دیہات میں مشاہدہ کیا ہےکہ کھیتی باڑی سے وابستہ لوگوں کی افطاری صرف گھریلو پکوانوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس وقت پھلوں کی قلت تھی صرف موسمی پھل ہی دستیاب ہوتے تھے آج کی طرح بازار وسیع نہیں تھااور لوگ مالی قلت کی وجہ سے خرچ سے زیادہ بچت کی فکر میں بھی رہتے تھے، اسی طرح ایک روایت تھی کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی محلے کے فقراء و مساکین مغرب کے وقت گھر گھر سے افطاری اور کھانا آکر لے جاتے تھے۔ اب صارفی کلچر کی کثرت اور ہر جگہ، ہر موسم میں، ہر سامان دستیاب ہونے کی وجہ سے نظام افطارمیں وقت کے ساتھ تبدیلی آگئی ہے اور لوگوں کا ذوق بھی بدل گیا ہے، جسے ہر کوئی محسوس کر رہا ہے۔
سعیدالرحمٰن محمد رفیق ( تھانے)
زمین وآسمان کافرق ہے
ہمارے بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں زمین آسمان کا فرق ہے خاص طور پر کھانے، تیاری، ماحول اور خلوص کے لحاظ سے۔ بچپن میں افطاری کی تیاری زیادہ تر گھروں میں خواتین خود کرتی تھیں۔ کھانے میں خلوص سادگی ہوتی تھی۔ لوگ مل جل کر افطار کرتے تھے اور زیادہ تر چیزیں گھریلو اجزا سے بنتی تھی لیکن آج کل کی افطاری کیلئے ہوٹلوں ، ڈھابوں اور ریسٹورنٹس یا فوڈ ڈیلیوری پرلوگ انحصار کرتے ہیں۔ بچپن میں افطار کے وقت گھر کے سبھی افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دعا کرتے افطار کرتے اور بعد میں عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے ۔ مسجدوں میں محلوں میں ایک دوسرے کو افطاری بھجوانے کی روایت تھی لیکن آج جدید مصروفیات اور انفرادی طرز زندگی کی وجہ سے کئی لوگ اکیلے افطار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے اجتماعی وقت کم ہو گیا ہے اور زیادہ تر توجہ آن لائن شیئرنگ پر چلی گئی ہے۔ بچپن میں افطاری کے وقت روحانی سکون زیادہ محسوس ہوتا تھالیکن اب سوشل میڈیا پر خوبصورت افطار کی تصاویر شیئر کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
مومن ناظمہ محمد حسن لیکچرر( ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے)
کوئی لوٹا دے مرے بیتے دن
بچپن کی افطاری کا مزہ آج بھی ذہن کے ایک گوشے میں اپنا مقام بنائے ہوئے ہے۔ بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری کے اہتمام میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ کل گھر میں بکنے والے تمام پکوان ہماری بھابھیاں، چاچی، ماں اور بہنیں مل کر پکاتی تھیں جن میں ماں کا خلوص، بہنوں کا پیار اور بھابھیوں کی محبت شامل ہوتی تھی۔ ہم بچوں سے محلے کی کرانہ دکان سے سودا سلف منگوایا جاتا تھا اور دوپہر سے ہی گھر میں پکوانوں کی دھوم مچی رہتی تھی اور کھانوں کی خوشبو سے من یہ کہتا تھا کہ چلو ابھی ہی افطاری کرلیتے ہیں۔ ڈھیر سارے پکوان نہیں بنتے تھے لیکن جو بنتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہوتے تھے۔ ہم بچوں کے ذریعے پڑوس میں افطاری کے لئے کھانا بھیجنا آج بھی یاد آتا ہے ۔ بچپن میں ہم بچے مسجد کے باہر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (لاؤڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے ) اور جیسے ہی اذان ہوتی تھی ہم سب بچے ایک ساتھ چلاتے ہوئے گھر کی طرف بھاگتے تھے کہ اذان ہورہی ہے روزہ کھول لو۔ ‘‘ اللہ سے دعا ہے کہ ’’ کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن۔ ‘‘
محمد یعقوب ایوبی ، موتی پورہ، مالیگاؤں
سب مل کر افطاری کرتے تھے
ہمارے بچپن میں گھر کے چھوٹے بڑے سبھی مل کر افطاری کیا کرتے تھے۔ آج کا دور بڑا ہی بھاگ دوڑ کا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور افطاری اپنی ہی کمپنی میں مل کر دوسروں کے ساتھ افطاری کا بندوبست کرتے ہیں۔ آج کا دور بڑی مہنگائی کا آگیا ہے۔ ہمیں آج بھی ہمارے بچپن کی افطاری یاد آتی ہے۔ وہ بھی کیا دن تھے۔
امتیاز احمد ملک، زکریا بندر سیوڑی ممبئی
بہت زیادہ فرق نہیں ہے
بچپن کی افطاری اور آج کی افطاری میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ بچپن میں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں والدہ افطاری کے مختلف آئٹم اور دو تین قسم کے پھل کے ٹکڑے الگ الگ پلیٹ میں سجا کر بچوں کو افطار سے دس، پند ر ہ منٹ پہلے دسترخوان پر بٹھا دیا کرتی تھیں اور کبھی کبھی اپنے ہاتھ سے ہم کو افطاری کھلایا کرتی تھیں لیکن آج کی افطار کا نظم بدل چکا ہے۔ گھر کے تمام ا فراد بڑے ہوں یا چھوٹے ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں۔ آج کے دور میں افطار پر زیادہ خرچ درکار ہے لیکن افطار میں اِن تمام چیزوں کے اہتمام سے روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ رمضان المبارک کے اہتمام کی بدولت سال بھر رزق حلال میں برکت عطا فرمائے، آمین۔
پرنسپل سہیل لوکھنڈوالا (ممبئی)
اس ہفتے کا عنوان
رمضان المبارک کے معمولات میں افطار اور سحری کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ بالخصوص افطار میں بچوں کی دلچسپی کافی رہتی ہے۔ اسی پس منظر میں اس بار سوال طے کیا گیا ہے کہ:
بچپن کی عید، کچھ یادیں، کچھ باتیں
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۳۰؍ مارچ) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائینگی۔
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔