• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: یوگی حکومت کی کھلی جانبداری کا حل کیا ہے؟ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

Updated: October 05, 2025, 2:52 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف یوگی سرکار کی جانب داری ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے، ان کا رویہ ایک ریاست کے وزیرعلیٰ کی طرح نہ ہوکر ایک نفرت انگیز لیڈر کا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے قارئین انقلاب سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یوگی سرکار کی اس جانب داری کا حل کیا ہے؟ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

Bulldozer operations against Muslims have once again been launched in UP, disregarding the rules, regulations and law of the Supreme Court. Photo: INN.
سپریم کورٹ کے اصول و ضوابط اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوپی میں ایک بار پھر مسلمانوں کیخلاف بلڈوزر کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

کچھ دنوں کیلئے احتجاج وغیرہ سے گریز کریں اور جب کریں تو....


یوگی سرکار جس طرح یو پی میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب، تشدد اور کھلی جانبداری برت رہی ہے، بلڈوزر کارروائیاں کر رہی ہے، بالخصوص سنبھل میں اور پھر بریلی واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ نے دستوری منصب پر رہتے ہوئے جس طرح دھمکی آمیز لہجہ استعمال کیا ہے، اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یوگی کے ان بیانات کو نہ صرف اترپردیش ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے بلکہ ان کے خلاف ملک بھر میں ایف آئی آر کرائی جانی چاہئے اور ضرورت پڑے توسپریم کورٹ بھی جانا چاہئے۔ 
مسلمانوں اور بالخصوص مسلم قیادت کو اب سنجیدہ ہو جانا چاہئے اور مفادات سے بالا ہوکر کام کرنا چاہئے۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ مسلمان متحد ہو کر زمینی سطح پر اپنوں اور غیروں کے درمیان محنت کریں اور پہلی فرصت میں فسطائیت کو آئندہ انتخابات میں شکست دینے کی پختہ منصوبہ بندی کریں ، جو کچھ کریں وہ نہایت خاموشی سے کریں ۔ فی الحال کچھ دنوں کیلئے احتجاج وغیرہ سے گریز کریں اور جب کریں تو بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کے ساتھ کریں ، جب تک یہ یقین نہ ہو کہ رضاکار تیار ہیں اور عوام پوری طرح سے قابو میں رہیں گی تب تک نہ کریں ۔ فرنٹ لائن قیادت کو گھسیٹ کر لائیں، اس کے بغیر کبھی احتجاج نہ کریں۔ قیادت کو سمجھنا پڑے گا کہ احتجاج و مزاحمت اور حکمت و جرأت کے بغیر جمہوریت میں حقوق نہیں ملتے۔ یہ حقیقت سمجھ لی گئی تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں در اصل جرأت، حکمت، منصوبہ بندی اور تحریک کے حسین امتزاج کو قابل عمل میں لانے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر اب زندگی کو گھسیٹنا بھی ممکن نہیں، جینا تو بہت دور کی بات ہے۔ 
محمد لقمان ندوی (صدر تنظيم أبناء ندوه ممبئی)
سیاست میں اپنی حصہ داری طے کریں 


اترپردیش میں جو کچھ ہو رہا ہےاور اگر اسے ’اسٹیٹ دہشت گردی ‘کا نام دیا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ملک گیر سطح پر ایک منظم تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ علاقائی اور قومی پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار کی مزے لوٹتی رہی ہیں، وہ بھی خاموش ہیں۔ ان کےنزدیک مسلمان صرف ووٹ بینک ہیں۔ وہ جب چاہتی ہیں مسلمانوں کو ’پاکٹ ڈائری‘ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے اوپر کوئی آفت آتی ہے تو وہ دم دبالیتی ہیں۔ دراصل وہ چاہتی ہیں کہ کوئی مسلم قیادت پر وان نہ چڑھنے پائے اور مسلمانوں کی سیاسی زمین مضبوط نہ ہو سکے۔ سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے وقت بھی یہی کچھ دیکھا گیا تھا۔ آئین مخالف قانون کے خلاف سبھی پارٹیوں کو سڑکوں پر اُترنا چاہئے تھا، مگر وہ خاموش رہیں۔ دراصل وہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا کر اکثریتی طبقے کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں جبکہ مسلمانوں کی حمایت پر ہی ان کا پورا سیاسی سامراج ٹکاہوا ہواہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو چاہئے کہ انتشار کےبجائےاتحاد کا مظاہرہ کریں اور کسی پارٹی کادم چھلہ بننے کےبجائے سیاست میں اپنی حصہ داری طے کریں اور اپنی اہمیت ثابت کریں۔ 
طارق اعجاز اعظمی (صدراعجاز اعظمی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، کرلا)
سوشل میڈیا کا استعمال سمجھداری سے کریں 


اس وقت ملک بالخصوص اُتر پردیش کے جوحالات ہیں، اس میں مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یوگی دور میں اس وقت مسلمانوں کو جو بھی دشواریاں درپیش ہیں، اس میں جو تدابیر کی جا سکتی ہیں وہ یہ ہیں کہ مسلمان مجموعی طور پر اقتصادی اور معاشی ترقی پر زور دیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تاکہ سرکاری اور نجی شعبوں میں روزگار حاصل کرسکیں۔ آپسی تعاون سے کاروبار کو فروغ دیں اور چھوٹے قرضوں سے نئے تجارت قائم کریں۔ اپنے تحفظ و حقوق کیلئے معلومات حاصل کریں، آئینی حقوق کیلئے عدالتوں سے رجوع ہوں اوراپنے اتحاد کا مظاہرہ کرکے عوامی نمائندوں کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے پر مجبور کریں۔ تنازعات سے بچنے کی کوشش کریں، اتحاد پیدا کریں، مسلکی جھگڑوں کو فوری طور پر ختم کریں، اس کیلئے ضروری ہے کہ اِس وقت علمائے کرام خاص طور پر اس موضوع پر زور دیں۔ اس کے ساتھ ہی برادران وطن کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں، مشترکہ پروگراموں اور سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال سمجھداری سے کریں۔ غلط اور فیک چیزوں کو پھیلانے سے پرہیز کریں۔ اس سے غلط فہمی اور نفرت ہی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی باتیں دوسروں  تک تعمیری انداز میں پہنچانے کی کوشش کریں۔ مذہبی شناخت اور تہذیب و ثقافت کا تحفظ آپسی تعاون سے اسلامی و تعلیمی مراکز قائم کریں۔ اس کے ساتھ ہی تیوہار اور تقریبات کو پرامن اور پروقار طریقے سے منائیں۔ شور اور ہنگامہ کرکے کسی اور سے ’برابری‘ کی کوشش بالکل بھی نہ کریں۔ 
عبدالحسیب جامعی (فاؤنڈر ممبر’ دی پین فاؤنڈیشن‘، بھیونڈی )
شکایت صرف یوگی سے نہیں، سیکولر پارٹیوں سے بھی ہے


’’ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین: ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے ‘‘....تقریباً پانچ کروڑ کی مسلم آبادی والا ہندوستان کا مسلم آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ اتر پردیش جہاں سبھی مکتبہ فکر و نظر کے مرکز بھی موجود ہوں وہیں کے مسلمانوں پر ان دنوں سب سے زیادہ ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں سوچنا پڑے گا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ موجودہ حالات میں ہمیں صرف یوگی اور بی جے پی سے شکایت نہیں ہے بلکہ ان تمام لوگوں سے ہے جو ہمارے ووٹوں کی بدولت حکمرانی کرتی ہیں۔ آج کی تاریخ میں تمام مکتبہ فکر و نظر کے قائدین کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا، ایک شوریٰ قائم کرنی ہوگی اور پھر سیکولر سیاسی پارٹیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے مسائل پر اُن سے بات کرنی ہوگی کہ بہت ہو گیا ان ۷۵؍ برسوں سے ہم نے ایک طرفہ محبت کی ہے آپ سے لیکن ہمیں اس کے عوض میں کیا ملا؟ انہیں بتانا ہوگا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب ہمیں ہماری حصہ داری چا ہئے، ہماری طاقت کی بنیاد پر اور ہماری آبادی کی بنیاد پر۔ اگرآپ وہ حصے داری دیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اب ہمارا اور آپ کا راستہ الگ ہوگا۔ اب ہم کسی کو ہرانے کیلئے اور کسی کو جتانے کیلئے سیاست نہیں کر سکتے۔ اس سوچ سے ہمیں باہر نکلنا ہوگاورنہ اور۷۵؍ سال گزر جائیں گے اور ہمارا حشر اس سے بھی بدتر ہو جائے گا اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ 
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے : لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
ابوذر خان (جنرل سیکریٹری، یونیق اسپورٹس، بھیونڈی)
حقیقی حل آئینی و قانونی جدوجہد میں ہے


اترپردیش میں یوگی سرکار کی پالیسیوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک کھلی حقیقت ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے صبر اور حکمت کا دامن تھامنا چاہئے۔ جلد بازی یا اشتعال انگیزی سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان بڑھتا ہے۔ حقیقی حل آئینی و قانونی جدوجہد میں ہے۔ 
مسلمانوں کو اپنی توانائی تعلیم اور ہنر میں لگانی چاہئے تاکہ وہ سماجی و سیاسی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی قوم کو مشکلات کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ نئی نسل کو باشعور اور بااعتماد بنانا وقت کا تقاضا ہے۔ ساتھ ہی اتحاد بھی ناگزیر ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر اور تنظیموں کو اختلافات بھلا کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا ہوگا، ورنہ کمزوری مزید بڑھتی جائے گی۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سیکولر اور انصاف پسند غیر مسلم طبقوں سے بھی تعلقات استوار کریں تاکہ فرقہ پرست سیاست کو بے نقاب کیا جا سکے۔ احتجاج اور آواز بلند کرنے کا حق ضرور استعمال کیا جائے مگر ہمیشہ پرامن اور آئینی دائرے میں۔ اس طرح مخالفین کو بدنام کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور پیغام زیادہ مؤثر ہوگا۔ 
یوگی سرکار کی جانبداری کا حل تعلیم، اتحاد، قانونی جدوجہد اور صبر و حکمت میں ہے۔ منصوبہ بندی اور استقامت ہی مسلمانوں کیلئے کامیابی کا راستہ ہیں۔ اس کا حل اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ یہ ہے کہ علم کو ہتھیار بناؤ، اتحاد کو ڈھال اور صبر کو رہنما اورپھر دیکھو کہ ناانصافی کی دیواریں خود بخود گرنے لگیں گی۔ 
علیم طاہر (شاعر و ادیب، مالیگاؤں )
مزاحمت جذباتی نہیں ، سنجیدگی اور حکمت عملی سے ہو


اترپردیش میں مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں، سیاسی لیڈروں اور عہدیداران کو سب سے پہلے عوام تک رسائی حاصل کرکے انھیں حالات کا ادراک کروانا چا ہئے کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں، ملک کے حالات کیا ہیں اور ایسے میں انہیں کیا کرنا چاہئے؟ افسوس کی بات ہے کہ یوپی میں مسلم کثیر آبادی میں ہیں، اس کے باوجود سیاسی جبر کے شکار ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اترپردیش کے تمام مسلمان متحد اورمتفق ہوکر یوگی سرکارکی اس کھلی جانب داری کے خلاف مزاحمت کریں لیکن یہ مزاحمت جذباتی نہیں بلکہ نہایت سنجیدگی سے ہو اور حکمت عملی سے پُر ہو۔ اس بات کااعتراف ہمارے دشمن بھی کرتے ہیں کہ ہماری قوم میں ذہانت ہے۔ بس ضرورت ہے اس کے استعمال کی۔ ہمارے نوجوانوں کو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کی روش ترک کرنی ہوگی اور جذباتی نعروں سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سبق لیتے ہوئے اپنے حال کا جائزہ لیں اوراس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں۔ 
ہمارے قلوب واذہان کو ایک درست راہ راست پر گامزن ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنے سماج اور ہمارے اپنے لوگوں کی ترقی اور فلاح و بہبودی کیلئے کچھ کرسکیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اتحاد کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام مکاتب فکر اورتنظیمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں اور خود کو ایک مضبوط طاقت کے طور پر پیش کریں۔ اس بات کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘۔ 
سمیہ بنت محمد علی قریشی(فارغ التحصیل، جامعہ اصلاح البنات، میرا روڈ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK