آدمی ہر وقت شکوہ تو کرتا ہے، اپنی پریشانیاں بیان کرتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس پر کیا کیا انعامات ہیں، ان کو شمار نہیں کرتا۔ یہ شکر نہ کرنے کی عادت ہے جبکہ شکر خود بہت بڑی عبادت ہے، اللہ رب العزت کو خوش کرنے والی چیز ہے۔
رب العالمین کا جس قدر شکر ادا کیا جائے گا، وہ ہمیں اتنا ہی نوازتا رہے گا۔ تصویر: آئی این این
اللہ کے مومن بندے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنا کارساز حقیقی تسلیم کیا اور یہ مانا اور یقین کیا کہ ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اچھے برے کا حساب دینا ہے، یہ دولت ِایمان ان سارے انعامات میں سب سے بڑی ہے جو انسانوں کو عطا ہوئے ہیں، کیا اس عظیم انعام کا یہ تقاضا نہیں کہ بندۂ مومن سراپا شکر و سپاس بن کر اپنے آقا کے اشاروں پر چلے اور اس نعمت کی قدر کو پہچانے؟ اور شکر گزاری کی عبادت کو اپنا شعار بنائے۔
رب کریم نے بندوں میں فرق مراتب رکھا، کسی کو مال و دولت دیا، کسی کو فقیر و محتاج کیا، کسی کو صحیح سالم بنایا، کسی کو اندھا، لنگڑا اور اپاہج بنایا کہ دیکھیں مال والا مال کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے خالق و مالک کے غریب و فقیر بندے کی مدد کرتا ہے کہ نہیں۔
امیر، غریب کو دیکھ کر خدا کی دی ہوئی نعمت مال پر شکر ادا کرتا ہے یا فقیروں اور غریبوں کو حقیر سمجھتا ہے، فقیر اپنی فقیری پر ماتم کرتا ہے یا اندھے اور لنگڑے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا اور شکر ادا کرتا ہے کہ میرے پاس مال نہیں، نہ سہی لیکن میں آنکھوں سے دیکھ تو سکتا ہوں، پاؤں سے چل تو سکتا ہوں کہ حصولِ رزق کے لئے ہاتھ پاؤں ماروں، یہ بے چارہ اندھا اور لنگڑا تو یہ بھی نہیں کرسکتا، پھر اس کی زبان سے بے اختیار نکلے کہ مالک! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھ کو چلنے اور دیکھنے کی نعمت سے نوازا ہے، تیرا یہ بندہ تو دیکھنے اور چلنے سے بھی معذور ہے۔
واقعہ مشہور ہے کہ حضرت شیخ سعدیؒ کے پاس جوتا نہیں تھا، وہ جوتا خریدنے کے لئے نکلے تو ایک لنگڑے پر نظر پڑی۔ اُسے دیکھنے کے بعد آپؒ راستے سے ہی واپس آگئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میرے مالک میرے پاس جوتا نہیں مگر میں پاؤں سے چل تو سکتا ہوں، تیرے اس بندے کے پاس تو پاؤں ہی نہیں، وہ تو چلنے سے بھی معذور ہے، کوئی خطرہ ہو، مصیبت و پریشانی، بارش و طوفان آجائے تو بے چارہ بھاگ کر پناہ بھی نہیں لے سکتا، میرے آقا! تیرا ہزار ہزار شکر ہے کہ تو نے مجھ کو چلنے کے قابل بنایا۔
ایسے ہی ایک انسان اندھا نہیں تھا، اندھا ہوگیا، لنگڑا نہیں تھا لنگڑا ہوگیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو نیک اولاد دے رکھی ہے، مال و اسباب کی دولت سے نوازا ہے، کیا اس اندھے اور لنگڑے پر شکر واجب نہیں کہ مولیٰ! تو نے آنکھ لے لی، پاؤں لے لیا مگر مال و اولاد دے رکھا ہے جو ہر طرح ہماری خدمت کرتے ہیں، مالک تیرا شکر ہے، تیرے کتنے اندھے اور لنگڑے بندے ہیں جن کو سہارا دینے والا کوئی نہیں۔
اسی لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھو تاکہ جو نعمتیں حاصل ہیں ان پر شکر ادا کرو ، اور دین کے معاملہ میں اپنے سے اونچے شخص کو دیکھو تاکہ عبادت اور فکر آخرت کا شوق پیدا ہو۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحئی ؒ نے حضرت کو خط لکھا، خط میں اپنی کچھ پریشانیوں کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت تھانویؒ نے جواب میں تسلی دینے اور دعا وغیرہ کی بات لکھنے کے بجائے لکھا کہ ’’تم نے خط میں اپنی پریشانیوں کا تو ذکر کیا مگر یہ نہیں لکھا کہ تم پر اللہ تعالیٰ کے کیا کیا انعامات ہیں۔ ‘‘ اس جواب کا پڑھنا تھا کہ ڈاکٹرصاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور شکر ادا کیا کہ میرے مولیٰ مجھ پر تیرے ایسے انعامات ہیں جو دوسروں پر نہیں۔
خط کا مقصد یہ نہیں کہ دعا کی درخواست نہ کی جائے بلکہ یہ تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ شکوہ سے زیادہ شکر کی فکر کرو کہ راضی بہ رضائے مولیٰ رہنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے فضائل صدقات میں ’روض‘ کے حوالے سے ایک حیرت انگیز واقعہ نقل فرمایا ہے جس کو پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں اور سر ندامت سے جھک جاتا ہے کہ ہمارا ایمان و توکل تو محض زبانی ہے۔
حضرت عتبہؒ غلام کہتے ہیں کہ میں بصرہ کے جنگل میں جا رہا تھا، وہاں کھیتی باڑی کرنے والوں کے خیمے لگے ہوئے تھے، ایک خیمہ میں ایک مجنوں لڑکی تھی۔ میں نے سلام کیا، اس نے جواب نہ دیا بلکہ عشق خداوندی میں ڈوبے ہوئے چند اشعار پڑھے۔ میں نے اس کے کھیتوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کھیتی کس کی ہے؟ کہنے لگی: اگر صحیح سالم رہی تو ہماری ہے۔
اس کے بعد میں دوسرے خیموں کی سیر کرتا رہا، اتنے میں بہت زوروں کی بارش شروع ہوگئی اور آسمان ایسا ٹوٹ کر برسا کہ کھیتیاں سب ڈوب کر برباد ہوگئیں۔ اس لڑکی کی کھیتی بھی برباد ہوچکی تھی۔ مجھے خیال ہوا کہ چل کر دیکھوں اس لڑکی پر کیا اثر ہے۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کھڑی کہہ رہی ہے: قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے اپنی خالص محبت کا کچھ حصہ میرے دل میں رکھ دیا ہے۔ میرا دل تجھ سے راضی رہنے میں بالکل پختہ ہے۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگی : دیکھو جی! اسی نے تو یہ کھیتی جمائی، اسی نے اس کو سیدھا کھڑا کیا، اسی نے اس میں بالیاں لگائیں، اسی نے ان بالیوں میں غلہ پیدا کیا اور ہر طرح سے اس کی حفاظت فرمائی، اور جب کاٹنے کا وقت آیا تو اسی نے اس کو ضائع کردیا۔ یہ کہہ کر اس نے آسمان کی طرف رُخ کرکے کہا کہ یہ ساری مخلوق تیرے بندے ہیں اور ان سب کی روزی تیرے ذمہ ہے، تو جو چاہے کر، مختار ِ کل ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کھیتی کی بربادی پر تجھے کس طرح صبر آگیا؟ کہنے لگی: عتبہ چپ رہو، میرا مالک بڑا غنی ہے، بڑا قابل تعریف ہے۔ اس کی طرف سے ہمیشہ نئی روزی ملتی رہی۔ تمام تعریفیں اس پاک ذات کے لئے ہیں جو میرے ساتھ میری خواہش سے بہت زیادہ انعام فرماتا رہا۔
عتبہ کہتے ہیں کہ مجھے جب بھی اس کی حالت اور باتیں یاد آتی ہیں بے اختیار رونا آجاتا ہے۔ (فضائل صدقات)
ایک شخص بیمار رہتا ہے، اس کو کچھ شکایات رہتی ہیں، نزلہ زکام ہے، معدہ کی شکایت ہے، کبھی کبھی بخار آجاتا ہے، کمزوری کا احساس رہتا ہے لیکن یہ چلتا پھرتا رہتا ہے، فرائض و عبادات بھی ادا کرتا ہے، اپنے کام کاج بھی کرلیتا ہے۔ یہی شخص جب اسپتال میں جا کر اس مریض کو دیکھے جس کی ناک میں نلکی لگی ہے، ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے، گلوکوز چڑھ رہا ہے تو بے ساختہ زبان سے نکلے گا : میرے مالک ! تیرا شکر ہے تو نے مجھے اس سخت بیماری سے بچایا۔ اسی وجہ سے اللہ کے بعض نیک بندے جب آخرت سے غفلت اور اعمال میں کوتاہی محسوس کرتے تو وہ اسپتال یا قبرستان چلے جاتے اور وہاں کے مناظر سے آخرت کی یاد تازہ کرکے عمل میں لگ جاتے۔ بندوں کے مختلف درجات رکھے گئے یعنی امیری غریبی، رنگ و نسل، شکل و صورت، کام اور پیشہ میں فرق رکھا تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے صبر و شکر کو جانچے، فرمایا گیا:
’’اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں ) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ ‘‘
(الانعام:۱۶۵)
کسی بھی بڑے شہر کے جس راستہ سے بھی آدمی گزرے، اونچ نیچ کا ہر نمونہ سامنے آجاتا ہے، زندگی اپنے ہر روپ میں دکھائی دیتی ہے، اونچی اونچی کوٹھیوں اور شاندار فلیٹوں کے نیچے جھوپڑیوں کا منتظر، پلاسٹک کے ذرا سے سائبان میں پورا خاندان زندگی بسر کر رہا ہے اور کچھ تو ایسے ہیں جن کو یہ بھی نصیب نہیں۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرنے کے بعد رات کو فٹ پاتھ ہی پر سو رہتے ہیں۔ یہ سب ہیں تو ایک ہی خدا کے بندے، اس عبرتناک منظر کے باوجود جب فلیٹ اور کوٹھی والے سے ملئے تو وہ کچھ شکاتیوں اور مشکلات کا ذکر ضرور کرے گا۔ یہ کوٹھی والا اگر عبرت کی نظر سے دیکھے، اور فٹ پاتھ والوں کے حال زار پر ذرا غور کرے تو بے اختیار زبان سے نکلے گا: مالک تیرا شکر و احسان ہے کہ تو نے ہم کو بڑے مزے کی زندگی نصیب فرمائی، اگر تو مجھے بھی فٹ پاتھ پر رکھتا تو میں کیا کر سکتا تھا۔ یاد رہے کہ اونچ نیچ، امیر و غریب، تندرست و بیمار نیز دنیا کے مختلف جھمیلوں میں پریشانیوں کی مثالیں بے شمار ہیں۔ جو کچھ اوپر لکھا گیا عبرت و سبق حاصل کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ شکر نعمت خود بہت بڑی عبادت ہے جس سے عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے بلکہ اس کو عبادت سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ اللہ تعالیٰ خود فرمارہا ہے :
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں ) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔ ‘‘ (ابراہیم:۷)
کوئی دوست اپنے محبوب ترین دوست کو جب کوئی ہدیہ اور تحفہ دیتا ہے تو جو سب سے عمدہ چیز ہوتی ہے وہی دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے بڑی محبت تھی، ایک دن دونوں حضرات ایک ہی سواری پر سوار کہیں تشریف لے جا رہے تھے، آپ ؐنے فرمایا: معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں، تم کو کچھ کلمات بتاتا ہوں ان کو پڑھا کرو، وہ کلمات یہ ہیں : اللھم اعنّی علیٰ ذکرک و شکرک و حسن عبادتک۔ (اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔ ) اس دعا میں شکر کی ادائیگی کی بھی التجا ہے جس میں بڑی کوتاہی کی جاتی ہے۔ آدمی ہر وقت شکوہ شکایت تو کرتا رہتا ہے، اپنی تکلیفیں اور پریشانیاں بیان کرتا رہتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس پر کیا کیا انعامات ہیں، ان کو بھول جاتا ہے، شکر کی عظیم عبادت سے اکثر محرومی رہتی ہے حالانکہ شکر خود بہت بڑی عبادت ہے، اللہ رب العزت کو خوش کرنے والی چیز ہے۔
یہ بڑی انسانی کمزوری ہے کہ جو چیزیں اور نعمتیں آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں ان پر شکر کے جذبات میں جو کیف ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا شاید اسی انسانی کمزوری کے مد نظر آپ ؐ نے حضرت معاذؓ کو شکر کی تلقین کے مقصد سے مذکورہ بالا دعا سکھلائی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں بھی حاصل ہیں، ان کا شکر ادا کرنا وہ عبادت ہے جو برابر آگے بڑھاتی رہتی ہے اور دل میں اللہ رب العزت کی محبت سماتی چلی جاتی ہے جس کی دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح فرمایا کرتے تھے: الٰہی ! تو اپنی محبت کو میری جان سے، میرے اہل و عیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا دے۔