عقیدہ کے درست ہونے کیلئے ’علم‘ بنیادی شرط ہے اور علم کے بغیر ارکانِ اسلام اور زندگی کے باقی معاملات عبادت بن ہی نہیں سکتے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں کہ علم کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔
EPAPER
Updated: October 10, 2025, 2:44 PM IST | Shirinzadeh Khudokhel | Mumbai
عقیدہ کے درست ہونے کیلئے ’علم‘ بنیادی شرط ہے اور علم کے بغیر ارکانِ اسلام اور زندگی کے باقی معاملات عبادت بن ہی نہیں سکتے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں کہ علم کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل مبعوث ہونے والے تمام انبیاءؑ اور رسولوں ؑ کی بعثت کا حتمی مقصد اگرچہ تمام انسانیت کو عدل پر مبنی معاشرہ میں منظم و قائم کرنا ہے جیساکہ قرآن مجید میں سورئہ حدید کی آیت ۲۵ ؍ میں ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ‘‘ مگر ہر نبیؑ اور رسولؑ کی طرح آپؐ نے بھی کارِ رسالت کی ابتداء تعلیم کتاب و حکمت سے ہی فرمائی۔ قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:’’اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ‘‘ ( سورہ البقرہ : ۱۲۹، سورہ آل عمران: ۱۶۴، الجمعۃ:۲) اللہ کے رسولؐ نے اس بنیادی حقیقت کو یوں بیان فرمایا: ’’مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ)۔ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا یہ فریضہ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے تک جاری رہا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں معلم ہونا بہت عزّت و شرف کا مقام ہے۔ معلم، رسولؐ کے نقش قدم پر قوم کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ معلّمین کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ ان کے فرائض منصبی میں اپنے تلامذہ کو عقلی، تجرباتی اور وحی کے علوم سے متصف کرکے قوم کی کردار سازی، تزکیۂ نفس اور قیادت کی تیاری ہے۔ رسولؐ اللہ نے خود بھی مسلمانوں کی براہِ راست تعلیم و تربیت کو اوّلین ترجیح دی اور سرزمین مکہ و مدینہ سے باہر بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے چیدہ چیدہ اصحابؓ کو معلم بنا کر بھیجا۔ اسی طرح وفود کی شکل میں عرب کے مختلف گوشوں سے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کا بھی رسولؐ اللہ خصوصی اہتمام فرماتے تھے کیونکہ اسلامی عقیدہ کے درست ہونے کے لئے ’علم‘ بنیادی شرط ہے اور علم کے بغیر ارکانِ اسلام اور زندگی کے باقی معاملات عبادت بن ہی نہیں سکتے۔ اس لئے علم کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔
یثرب جو کہ مدینۃ الرسولؐ اور اسلامی ریاست کا مرکز بننے جارہا تھا، وہاں کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اسی حقیقت کے تناظر میں رسولؐ اللہ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو معلّم بناکر بھیجا۔ تاریخ اسلام میں وہ پہلے معلّم ہیں جنہوں نے مکہ سے باہر دوسرے شہر میں یہ ذمہ داری نبھائی۔ (اسدالغابہ، ج۳، ص ۱۹۶؛ الاصابہ، ج۳، طبقات ابن سعد، ج۳، ص ۲۷۶-۲۸۰)
ہجرتِ نبویؐ کے بعد جب اسلام تیزی سے پھیلا تو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رسولؐ اللہ نے مدینہ کی مختلف مساجد میں باقاعدہ درس و تدریس کا انتظام فرمایا۔ آپؐ خود بھی مختلف قبائل میں تشریف لے جا کر انہیں اسلام کی طرف راغب فرماتے تھے۔ دوسری طرف دُور دراز کے وہ قبائل جو ایمان کی تڑپ لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے اور اس کے بعد ان کو انہی کے قبیلوں میں دعوتِ اسلام اور تعلیم و تربیت کے لئے مقرر فرما دیتے تھے۔
احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عموماً ہم عمر نوجوان ہوتے جو ٹولیوں کی شکل میں حاضر خدمت ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ابوسلیمان مالک بن حویرثؓ سے مروی ہے کہ ’’ہم رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم آپؐ کے ساتھ بیس دن تک رہے۔ پھر آپؐ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آرہے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہم سے ان کی بابت پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپؐ کو اُن کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ چونکہ رسولؐ اللہ خود بھی بڑے نرم خُو اور رحم دل تھے، اس لئے آپؐ نے ہمیں اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دے دی اور تاکید فرمائی کہ جو کچھ تم نے یہاں سیکھا ہے وہ اپنے گھر والوں کو بتائو اور سکھائو۔ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لئے اذان دے اور پھر جو بھی تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔ (صحیح بخاری ) اسی طرح آپؐ نے ابوذرغفاریؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، طفیل بن عمردوسیؓ اور دوسرے متعدد اصحاب کو انفرادی طور پر اپنے اپنے قبیلوں میں دعوتِ دین اور تعلیم و تربیت کے لئے تعینات فرمایا۔
آپؐ کے بھیجے گئے معلّمین کو جہاں لوگوں نے عموماً خوش آمدید کہا اور ان سے علمی، دینی اور فقہی استفادہ کیا، وہیں ابتداء میں بعض معلّمین کو نامساعد حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں بئرمعونہ کا واقعہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ جب ابوبراء بن مالک کلابی نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے قبیلے کی تعلیم و تربیت کے لئے معلّمین بھیجنے کی درخواست کی اور آپؐ نے ان کی درخواست منظور فرما کر ۴۰؍ اور بعض کے نزدیک ۷۰ ؍ معلّمین کو نجد روانہ فرمایا جنہیں بئرمعونہ کے مقام پر بدعہدی کرکے شہید کردیا گیا۔ بدعہدی کرنے والوں کو درپردہ مدینہ کے یہود بنی نضیر کی حمایت حاصل تھی۔ اس بدعہدی اور المناک واقعہ کا رسولؐ اللہ کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔ (صحیح بخاری)
دین اسلام کی تعلیم و تدریس اور اصول اسلام کی تفہیم و تشریح کارِ نبویؐ کا اہم ترین حصہ تھا جس کی جانب آپؐ نے ابتدا ہی سے پوری توجہ دی تھی۔ اس میدان میں سب سے اہم تو خود آپؐ کی ذات گرامی تھی جو معلّم اوّل اور مرجع اساسی کا درجہ رکھتی تھی۔ تمام صحابہ کرامؓ دین اسلام کے اصول و فروعات کی تفہیم و تعلیم کے لئے آپؐ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے فقہاء اور اصحابِ علم تھے جو تعلیم و تدریس کے نقش اوّل کے ہوبہو عکس بن کر اُبھرے۔ (عہدنبویؐ کا نظام حکومت، ص ۹۶)
ان صحابہ کرامؓ میں معاذ بن جبلؓ، اسعد بن زرارہ خزرجیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ حذیفہؓ اور ابی بن کعبؓ اور چند دیگر کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کی تعلیم و تربیت کے لئے معاذ بن جبلؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کو مقرر کیا گیا تھا، جب کہ اپنی رحلت سے قبل اللہ کے رسولؐ نے ان دونوں اصحاب کو عامل اور معلّم بناکر یمن بھیجا اور وہ دورِفاروقیؓ تک امارت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض بھی نبھاتے رہے۔
حضرت عمر بن الخطابؓ جب خلیفہ بنے تو اس وقت حالات سازگار ہوچکے تھے۔ شورشوں اور فتنوں کی سرکوبی ہوچکی تھی۔ اس لئے انہیں ابوبکر صدیقؓ کی بہ نسبت فلاحی، سماجی اور کاروبار مملکت چلانے اور منظم کرنے کے لئے زیادہ وقت ملا۔ انہوں نے ریاست کے تمام شعبوں کو منظم کیا اور ان میں اصلاحات کیں۔ مملکت کے دیگر شعبوں کی طرح عمر بن الخطابؓ نے شعبۂ تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی اور اس میں انقلابی اصلاحات کیں۔ انہوں نے عاملین کو انتظامی اُمور اور معلّمین کو درس و تدریس کی ذمہ داری سونپ دی اور تعلیم کو انتظامیہ سے جدا ایک علاحدہ شعبہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ کبار صحابہ کرامؓ میں سے انتہائی جلیل القدر فقیہ صحابہؓ کو شام، مصر، حمص، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں تعینات کیا اور ان کے لئے وظائف مقرر کئے۔ یہ معلّمین حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد بھی طویل عرصہ تک مقررہ شہروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
عمر فاروقؓ نے تمام مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دی۔ آپؓ نے خصوصاً خانہ بدوش لوگوں کے لئے جو شہروں سے دُور رہتے تھے اور تعلیم وتربیت سے زیادہ رغبت نہیں رکھتے تھے اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام فرمایا اور ابوسفیانؓ بن حرب اور چند دیگر افراد کو ایسے معلّمین کے طور پر مقرر کیا جو مختلف جگہوں پر خانہ بدوش عربوں کو قرآن، نماز اور دیگر اُمورِ ضروریہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اسکے ساتھ بچوں کو تیراکی، شہسواری، منقولات، الانساب اور شاعری کی تعلیم کا بھی حکم تھا۔ (کنز العمال، جلداوّل، فی سنن الاقوال و الافعال، ص ۲۱۷؛ الفاروق، ص ۲۶۴)۔ حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کے صحیح تلفظ کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ قرآن مجید کی تعلیم صحت ِاعراب کے ساتھ دی جائے اور جو شخص لغت کا ماہر نہ ہو وہ قرآن مجید نہ پڑھائے۔ (کنز العمال، جلد اوّل، ص ۲۲۸، بحوالہ اسوۂ صحابہؓ، جلددوم)
بلاشبہ ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علیؓ بن ابی طالب بذاتِ خود قرآن، احادیث، فقہ اور اجتہاد میں بے نظیر صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر وہ ریاست کے انتظامی اُمور میں اس قدر مصروف رہا کرتے تھے کہ ان کیلئے باقاعدگی سے تدریسی فرائض سرانجام دینا ممکن نہ تھا، اس کے باوجود ان سے کافی احادیث روایت کی گئی ہیں۔ ایک دفعہ ابوعبدالرحمٰن سلمیؓ نے اپنی تلاوت عثمان غنیؓ کو سنائی اور اصلاح چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میں کاروبارِ حکومت میں مصروف ہوں، تم پر توجہ دینے سے مَیں رعایا اور عام سائلین کو پورا وقت نہیں دے سکوں گا لہٰذا تم جا کر زید بن ثابتؓ کو اپنی تلاوت سنائو اور ان سے اصلاح لو۔ ہمارا منبع فیض یکساں ہے۔ (حیات الصحابہؓ، جلدسوم، ص ۳۰۵)
اس طرح دیگر کبار صحابہؓ میں بھی بہت سے افراد علم و فضل میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے مگر وہ باقاعدہ معلّم نہ تھے۔ ان کی عسکری، انتظامی اور دیگر اُمورمیں مصروفیت آڑے آتی تھی اس لئے مخصوص تدریسی ذہن اورمیلان رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلفائے راشدینؓ نے بھی تدریسی ذمہ داریاں سونپیں۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مدینہ ہی وہ شہر ہے جہاں پہلے پہل سارے اسلامی علوم پروان چڑھے۔ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد یہاں صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین کی بہت بڑی تعداد آباد تھی جنہوں نے علوم القرآن اور حدیث و مغازی پر بہت کام کیا کیونکہ ہجرتِ نبویؐ کے بعد دعوتِ اسلامی کا مرکز مدینہ منورہ ہی رہا اور یہاں سے ہی اسلام پھیلا۔ مدینہ میں رحلت ِ نبویؐ کے وقت موجود صحابہ کرامؓ کی تعداد ۳۰ ؍ہزار بتائی جاتی ہے، جب کہ اسلامی مملکت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے صحابہ کرامؓ کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ ۲۴؍ ہزار تھی۔ (تدوین سیر و مغازی، ص ۱۶۷، سیرت نگاران مصطفٰیٰ، ص ۱۷)
مدینہ منورہ میں ان تیس ہزار صحابہ کرامؓ میں سے وہ کبار صحابہؓ جو علم و فضل میں یکتا تھے جن کی علمی بصیرت بے نظیر تھی اور جن میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک علمی دبستان تھا۔
ان کبار صحابہؓ نے مسجدنبویؐ میں ترویج علم کی مسند سنبھالی۔ قرآن، حدیث، فقہ، مغازی اور علم سَیر کے دروس شروع ہوئے۔ ان صحابہ کرامؓ کی علمی نشستوں کو متلاشیانِ علم نے ’حلقہ‘ کا نام دیا۔ ’حلقہ‘ کی یہ روایت بعد میں تمام اسلامی دُنیا نے اپنائی اور آج بھی مسجد حرام اور مسجد نبویؐ میں نمازِ ظہر اور عصر کے بعد مختلف مقامات پر یہ علمی حلقے قائم ہیں جہاں جید علمائے کرام تعلیم و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ کثیر تعداد میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں اور تدریس سے مستفید ہوتے ہیں۔ مسجد نبویؐ میں جن اکابر علماء صحابہ ؓ کے ’حلقے‘ قائم ہوا کرتے تھے، اُن میں ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔