• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تاریخ بدلنے کی کوششوں کاٹھوس اور تعمیری جواب اہم ترین علمی تقاضا

Updated: October 10, 2025, 3:08 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ہندوستان میں مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ بڑے صبر آزما اورتشویش ناک ہیں ، یہ بات یقیناً بہت خوشگوار اور خوش آئند ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی جو شدت پہلے محسوس کی جاتی تھی، اب اس میں کمی آئی ہے اور اس اعتبار سے بظاہر امن و امان کی فضا قائم ہو رہی ہے، ان حالات کو دیکھ کر بعض لوگ جو قومی اور ملی مسائل پر سطحی انداز سے سوچنے کا مزاج رکھتے ہیں، ایک گونہ مطمئن بھی ہیں مگر حقیقت بیں نگاہیں اس سے آگے دیکھ رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال کو زیادہ خطرناک اور مستقبل کے اعتبار سے کہیں زیادہ مضرت رساں سمجھتی ہیں۔

Muslims have adorned every corner of their beloved homeland with traces of historical glory and have made this land their home and burial place. Photo: INN
وطن عزیز کے چپہ چپہ پر مسلمانوں نے تاریخی عظمت کے نقوش سجائے اور اسی زمین کو اپنا مسکن اورمدفن بنایا ہے۔ تصویر: آئی این این
ہندوستان میں مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ بڑے صبر آزما اورتشویش ناک ہیں ، یہ بات یقیناً بہت خوشگوار اور خوش آئند ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی جو شدت پہلے محسوس کی جاتی تھی، اب اس میں کمی آئی ہے اور اس اعتبار سے بظاہر امن و امان کی فضا قائم ہو رہی ہے، ان حالات کو دیکھ کر بعض لوگ جو قومی اور ملی مسائل پر سطحی انداز سے سوچنے کا مزاج رکھتے ہیں، ایک گونہ مطمئن بھی ہیں مگر حقیقت بیں نگاہیں اس سے آگے دیکھ رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال کو زیادہ خطرناک اور مستقبل کے اعتبار سے کہیں زیادہ مضرت رساں سمجھتی ہیں۔ 
 فساد کا مقصد تو صرف اس قدر ہے کہ مسلمان ذہنی طور پر مرعوب ہو جائیں اور ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں، یہاں تک کہ بالآخر ذہنی طورپر وہ اکثریت کے سامنے سپر انداز ہو جائیں، اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندو تہذیب میں جذب کر لیا جائے، وہ اپنی شناخت سے محروم ہو جائیں، ان میں احساس کمتری پیدا ہو جائے، اس کے لئے وسیع الاطراف پروگرام بنایا گیا ہے جو اَب آہستہ آہستہ بے غبار ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف نصاب ِتعلیم میں تبدیلیاں عمل میں آرہی ہیں، دوسری طرف ملک اور ملک کی آزادی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے، تیسری طرف الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ہندو تصورات اور تہذیبی طور طریقوں کو تقویت پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہ اتنے خطرناک اقدامات ہیں کہ جن کی سنگینی کا اندازہ مستقبل میں ہی ہو سکے گا، اگر بروقت ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی تو پھر اس کی تلافی شاید ممکن نہ ہوگی۔ 
 
 
سرکاری تاریخی ادارے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ نے ملک کی آزادی پر ایک دستاویزی کتاب ’’ ٹوورڈس دی فریڈم ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کی ہے، جسے ممتاز مؤرخ پروفیسر کے این پانیکر نے ایڈٹ کیا ہے۔ حکومت ہند نے نظر ثانی کے نام پر اس کتاب کو شائع ہونے سے روک دیا ہے۔ حکومت کا مقصد ظاہر ہے کہ اس میں فرقہ پرستانہ مسموم فکر کو داخل کیا جائے۔ خود پروفیسر پانیکرنے بھی واضح کیا ہے کہ مرکزی حکومت تاریخ کو توڑ مروڑ کر اس پر ’’ بھگوا رنگ‘‘ چڑھا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد خاص کر مسلمانوں کو ملک دشمن اور قوم دشمن کے طور پر پیش کرنا یا ثابت کرنا اور ملک کی آزادی میں ان کے کردار کو غیر مؤثر ثابت کرنا ہے۔ 
یہ نہایت اہم مسئلہ ہے اور با شعور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حل کی طرف متوجہ ہوں۔ کسی بھی قوم کے لئے اس کی تاریخ بڑی اہمیت رکھتی ہے، اسی لئے تاریخ کو قوموں کا حافظہ کہا جاتا ہے، تاریخ سے انسان ہمت و حوصلہ حاصل کرتا ہے، تاریخ مایۂ عبرت اوراثاثہ ٔ موعظت ہے اور ماضی کی تاریخ مستقبل کے لئے خضر طریق کا درجہ رکھتی ہے۔ جو قومیں تاریخ سے محروم ہوں، ان کی مثال بے نسب آدمی کی سی ہے جو ہمیشہ احساس کمتری سے دو چار رہتا ہے اور مقابلہ و مقاومت کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ غور کیجئے کہ قرآن مجید ہدایت و موعظت کی کتاب ہے اور یہی اس کا موضوع ہے؛ لیکن قرآن کا ایک قابل لحاظ حصہ قصص و واقعات پر مشتمل ہے۔ اہل علم کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں تقریباً ایک ہزار آیات واقعات وقصص سے متعلق ہیں، ۲۶؍ پیغمبروں اور ان کی اقوام کا ذکر آیا ہے، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقوام اور دعوت حق سے ان کے انکار کا تو بار بار ذکر آیا ہے جبکہ چھ سورتیں ایسی ہیں جو خاص انبیاء کے نام پر ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد سورتیں کسی قوم، کسی شخصیت یا کسی اہم واقعہ سے موسو م ہیں اور وجہ اس کی وہی ہے کہ تاریخ کسی بھی قوم کے لئے سامان حوصلہ بھی ہوتی ہے، سرمایہ عبرت بھی اور نقش راہ بھی۔ اسی لئے قرآن انبیاء اور اقوام کے قصص و واقعات کو نقل کرتے ہوئے عبرت و موعظت کے پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتا جاتا ہے، کبھی کہتا ہے : ’’پس آپ دیکھئے کہ فساد بپا کرنے والوں کا کیسا (بُرا) انجام ہوا۔ ‘‘(النمل : ۱۴) کبھی کہتا ہے: ’’آپ دیکھئے کہ ظالموں کا انجام کیسا (عبرت ناک) ہوا۔ ‘‘ (القصص : ۴۰) حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ یہ سامان موعظت ہے۔ (ص: ۴۹) کبھی فرعون کی سرتابی اور اس کا انجام نقل کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اس میں اہل خشیت کے لئے عبرت ہے: ’’بیشک اس (واقعہ) میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو (اللہ سے) ڈرتا ہے۔ ‘‘ (النازعات : ۲۶) اسی طرح احادیث میں انبیاء اور ان کی اقوام نیز عربوں کے ابتدائی حالات سے متعلق اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے، اس سے تاریخ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
 
 
چنانچہ مسلمانوں کے یہاں تاریخ اور تذکرہ کا موضوع ہمیشہ سے اصحاب تصنیف کا ایک پسندیدہ، مقبول اور پُر کشش موضوع رہا ہے اور علم کی دنیا میں تاریخ کے موضوع پر جتنا بڑا سرمایہ مسلمانوں کے یہاں ملتا ہے، شاید ہی کوئی اور قوم اس میں اس کی ہمسر ہو، اسی لئے پیغمبر اسلام جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ روشنی میں ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کا رشتہ مستحکم اور استوار رکھنے میں اس کا بڑا دخل ہے۔ خود ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے جو پُرجوش کردار ادا کیا اس میں بھی مسلم تاریخ نے ایک اہم محرک کی حیثیت سے تقویت پہنچائی۔ مسلمانوں کا یہ احساس کہ انہوں نے کبھی غلامی کا جوا اپنی گردن پر برداشت نہیں کیا اور سر جھکانے کے بالمقابل آزمائش اور ابتلاء کے موقعوں پر سر کٹانے کو ترجیح دی، ان کے جوش جنوں میں اضافہ کیا اور تمام تر بے سروسامانی کے باوجود ان کو ایک ایسی قوم کے مقابلہ استقامت و پامردی عطا کی کہ جس کی حکومت میں اُس وقت کبھی سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔ 
اس لئے کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے، جیسے کسی بچے کی خاندانی شناخت گم ہوجائے، ایسے بچے کو اپنے ساتھ جذب کر لینا اور کسی دوسرے خاندان کے ساتھ ضم کر دینا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب کوئی قوم اپنی تاریخ سے محروم ہو جائے، یا اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری کی شکار ہو جائے، تو اسے مرعوب کرنا اور فکری اور تہذیبی اعتبار سے اکثریتی اور طاقتور گروہ کے ساتھ جذب کر لینا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس کی واضح مثال اس ملک میں دلت برادران ہیں جو کثرت تعداد کے باوجود زبردستی ہندو تہذیب میں جذب کر لئے گئے ہیں اور برہمنوں کے لئے آلۂ کار اور خدمت گار تصور کئے جاتے ہیں۔ 
تاریخ کو مسخ کرنے کا مقصد مسلمانوں کے ساتھ اسی تجربہ کو دُہرانا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کی تاریخ مسخ نہیں کی، جن لوگوں سے صدہا برس ان کی جنگیں ہوئیں، جن قوموں کے ساتھ ان کے معرکے ہوئے اور جن لوگوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، ان کے ساتھ بھی مسلمان مورخین نے کبھی نا انصافی روا نہیں رکھی، اس لئے کہ قرآن مجید کی واضح ہدایت ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔ ‘‘ (المائدۃ : ۸) خود ہندوستان پر عرب مورخین اور سیاحوں نے قلم اُٹھائے ہیں، جو خامیاں تھیں، ان کا بھی ذکر کیا ہے اور خود ہندو مورخین کو ان سماجی کمزوریوں کا اعتراف ہے، اور جو خوبیاں تھیں ان کا اعتراف بھی پوری فراخ دلی کے ساتھ کیا ہے۔ ہندوستان کے علم و حکمت، طب و معالجہ کی صلاحیت اوربہادری وغیرہ کا تفصیل سے ذکر آیا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ ملک جس کو مسلمانوں نے وسعت و وحدت عطا کی، معاشی فراخی دی، امن و امان دیا، عدل و مساوات سے آشنا کیا، سماجی انصاف کی دولت دی، اس کے چپہ چپہ پر تاریخی عظمت کے نقوش سجائے اور اسی زمین کو اپنا مسکن اورمدفن بنایا، ان کی قربانیوں کو وہ لوگ مسخ کرنا چاہتے ہیں، جن کے تلوؤں میں اس ملک کے بنانے، سنوارنے اور بچانے میں شاید ایک کانٹا بھی نہ چبھا ہو۔ 
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف ہم اس صورت حال کا قانون اور آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مقابلہ کریں اور دوسری طرف مسلمان مؤرخین انصاف پسند غیر مسلم مؤرخین کے اشتراک کے ساتھ ہندوستان کی آزادی اور اس کی تعمیر کی بابت مسلمانوں کی جدوجہد کی تاریخ مرتب کریں اور درست علمی مواد قوم و ملک کے سامنے لائیں۔ یہ ایک طرف اس ملک کے ساتھ بہی خواہی ہوگی، انصاف ہوگا، اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوگی، لوگ حقائق سے واقف ہو سکیں گے اور دوسری طرف خود مسلمان نوجوان اور آنے والی نسل احساسِ کمتری سے محفوظ رہے گی اور اپنی تاریخ سے اس کا رشتہ مربوط اور استوار رہے گا۔ اگر اس وقت اس صورت حال پر توجہ نہیں دی گئی تو پھر آئندہ شاید ان مضرتوں کی تلافی ممکن نہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK