• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا اب خط کبھی نہیں آئیں گے؟

Updated: August 31, 2025, 3:10 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

صدیوں پُرانے محکمۂ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے سب سے بڑا ڈاکا، ڈاک اور ڈاکئے پر ڈال دیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

سارے براعظموں اور اُن کے سارے ممالک میں ۲۰۰؍برسوں سے زائد عرصے پر محیط ایک انتہائی مؤثرو معتبر خدمت جِسے دنیا ڈاک کا نظام کہتی ہے، اب بالکل سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اس نظام کے اہم حصّے ڈاک خانہ، ڈاکیہ اور خط وغیرہ غائب ہوتے جارہے ہیں۔ صدیوں پُرانے محکمۂ ڈاک نے نومولود انٹرنیٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے سب سے بڑا ڈاکا، ڈاک اور ڈاکئے پر ڈال دیا۔ سائیکل کی ٹرنگ ٹرنگ کے ساتھ خاکی وردی پہنے گائوں، دیہات میں کھیتوں کے درمیان بنی پگڈنڈیوں پر نظر آنے والا ایک اہم سماجی کردار یعنی ڈاکیہ اب نظر نہیں آئے گا اور اس کردار کو اپنی آنکھوں کے سامنے اوجھل ہوتے دیکھنے دل و دماغ تیارنہیں ہے۔ 
بچّو! یہ ڈاکیہ ہمیشہ ہی سے گائوں اور علاقے کا ایک اہم شخص ہوا کرتا تھا۔ اپنوں سے رابطے کی وہی ایک کڑی تھا جس کو دیکھ کر بڑے بوڑھے سبھی خوش ہوا کرتے تھے۔ امّی، نانی اور دادی اکثر بچّوں سے کہا کرتی تھیں کہ’’ڈاکیہ بابو ہمارے محلّے میں آتے آتے شام ہوجاتی ہے، ڈاکخانہ جاکر دیکھ آئو کہ ہمارا کوئی خط آیا ہے یا نہیں ؟‘‘ بچّے دوڑتے بھاگتے جاکر خط بزرگو ں کے حوالے کرتے۔ پھر سبھی جمع ہوجاتے، جہاں کہیں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے اور اُن میں سے کوئی ایک خط پڑھتا، سبھی سُنتے تھے۔ 
بیرون مُلک سے خط لکھنے والے لوگ تین قسم کے ہوتے تھے۔ ہمارے ملک میں کوکن سے کیرالا کی مغربی ساحل کی پٹّی کے لوگ پانی کے جہازوں پر کام کرتے تھے۔ اکثر سال میں ۹۔ ۱۰ ؍مہینے جہاز پر رہا کرتے تھے، اُن کے خط ایک آدھ مہینے کے بعد ہی ملاکرتے تھے۔ گائوں کی اموات کی خبریں بھی اُنھیں مہینے بھر بعد ہی ملاکرتی تھیں۔ دوسرے وہ لوگ جو ملازمت کی غرض سے خلیجی ممالک، برطانیہ، جنوبی و مشرقی افریقہ، انڈونیشیا وغیرہ میں ملازمت حاصل کرکے سکونت اختیار کرنے والے لوگ بھی خط کے ذریعے ہی رابطہ کرتے تھے۔ 
بچّو! بیرون مُلک سے آنے والے یہ خط کس قدر قیمتی ہوا کرتے تھے اور اُن میں اکثر کیا لکھا ہوتا تھا، ملاحظہ فرمائیں :’’....میری کمپنی میں نئے منیجر کا تقرر ہوا ہے اور وہ کوئی چُھٹّی نہیں دیتا، اسلئے خط بھیجنے میں دیری ہوئی۔ رات کو تھک ہارکر جلد ہی سوجاتا ہوں اسلئے رات میں بھی خط نہیں لکھ پاتا۔ بچّوں کو کہنا اچھی پڑھائی کریں۔ اُن سے کہنا اچھے نمبر ملنے پر ابّا اُن کیلئے اچھے اچھے تحفے لے کر آئیں گے۔ بچّوں سے پوچھنا اُنھیں کیا چاہئے۔ گھڑی تو دونوں کے خرید چُکا ہوں ۔ ابّا اور امّی کیلئے گرم پانی سے پائوں سینکنے کیلئے تھیلیاں بھی خرید چُکا پوں۔ دونوں کو دوا وقت پر دیتے رہنا۔ بچّوں کو مدرسے بھیجتے رہنا۔ عربی پڑھانے والے جناب جی کیلئے بھی کُرتے پائجامے کا کپڑا خرید لیا ہوں۔ بچّوں کو کھیلنے کیلئے روزانہ صرف ایک گھنٹہ ہی بھیجو۔ گائوں کے تینوں کنویں میں پانی باقی ہے یا سُوکھ گیا۔ گرام پنچایت بورویل کے پانی کا انتظام کرنے والی تھی اُس کا کیا ہوا؟ آم کے درخت پر آم لگے یانہیں ؟۔ خط کا جواب دینے میں اِتنی دیری کیوں کرتی ہو؟۔ تمھیں وقت نہیں ملتا تو اب تو ہمارا بیٹا بھی چھٹی جماعت میں پہنچا ہے، اُس سے بھی خط لکھوا سکتی ہو۔ گزشتہ سال وہ کہہ رہا تھا کہ اِس سال اسکول میں اُسے خط لکھنا سکھایا جائے گا۔ ‘‘
یہاں سے بیرون مُلک جانے والے خط میں کیا ہوا کرتا تھا؟’’ ... خط کا جواب دینے میں آپ تاخیر کرتے ہیں۔ منیجر سخت قسم کا ہے اُس سے مت الجھئے۔ بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے اب ہم دونوں کو ہر چیز برداشت کرنی ہوگی۔ بڑا والا اب ساتویں جماعت میں گیا ہے اسلئے اُسے تھوڑی سی پاکٹ منی دینی شروع کی ہے۔ وہ اُس سے اپنے لئے ڈرائنگ اور کرافٹ کا سامان خریدتا ہے۔ گیند اور بیٹ بھی اپنی جیب خرچ ہی سے لایا ہے۔ اگلے مہینے امتحان ہے دونوں کا۔ میں دونوں کو پڑھاتی ہوں۔ اگلے سال شاید ریاضیکیلئے ٹیوشن کی ضرورت پڑے گی۔ اگلے سال سے ماہانہ دو ہزار روپے خرچ بڑھ جائے گا۔ آپ ایک ہزار روپے زائد بھیجنے کی کوشش کریں، میں مہندی وغیرہ کے ذریعے ایک ہزار روپے ہر ماہ جمع کرلوں گی۔ ‘‘
یہ تھا ڈاک نظام، جس سے زندگی کے سارے سُکھ دُکھ ایک دوسرے تک پہنچتےتھے، بچپن میں ہم ڈاکئے کا انتظار اسلئے کرتے تھے کہ وہ ہم بچّوں کے رسائل لے کر آتا تھا۔ ڈاک خانہ اور ڈاکئے کی مہربانی سے ہمارا ایک بڑا شوق بلکہ مشغلہ پورا ہوتا تھا اور وہ تھا ڈاک ٹکٹ جمع کرنا۔ اسکول کی اکثر تعطیلات اس مشغلے میں گزرتی کہ دنیا کے مختلف مُلکوں کے ڈاک ٹکٹ جمع کریں اور اس البم کو اسکول کی نمائش میں پیش کریں۔ 
بچّو! کسی بھی پیشہ کو محض آمدنی کے پیمانے سے ناپنا مناسب نہیں۔ کئی مُلکوں میں اکثر سروے ہوتے ہیں کہ کس پیشے کے نمائندے سب زیادہ ذمہ دار یا ایماندار ہوتے ہیں، اُن میں اکثر سرِفہرست ڈاکیہ ہی ہوتا ہے۔ محنت، ذمہ داری اور شفافیت سے اپنی ڈیوٹی بنھانے یعنی خط پہنچانے والا ڈاکیہ ہی ہوتا ہے۔ ایمانداری اور ذمہ داری میں وہ ڈاکٹر، وکیل وغیرہ پر بھاری ہوتا ہے۔ موسلا دھا ربارش، چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں بھی اپنے فرض سے غفلت نہ برتنے والے شخص کا نام ہی ڈاکیہ ہے۔ 
خط کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی اہمیت حاصل رہی ہے اور خط، خواندگی کا پیمانہ بھی ہوا کرتا تھا لہٰذا لڑکی کو اتنا پڑھانا ضروری سمجھا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کوخود خط لکھ سکے اور اُس کا جواب بھی وہ پڑھ سکے۔ خط نویسی کی وجہ ہی سے خوش خطی کے چرچے ہواکرتے تھے۔ اُردوادب میں خط نویسی کی ایک حسین روایت ہے، اُن میں مرزا غالب نے مکتوب نگاری کو بطور صنف رائج کرنے اور اعتبار بخشنے میں ایک اساسی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ احمد نگر جیل سے تین سال کے عرصے میں لکھے گئے مولانا آزاد کے خطوط (بنام نواب صدر یا رجنگ) نیز منٹو، اقبال، شبلی، سر سیّد اور صفیہ اختر کے خطوط اُردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ 
اب ڈاکیہ آواز نہیں دے گا، وہ کوئی خط نہیں لائے گا، اب کوئی خوش خطی پر دھیان بھی نہیں دے گا۔ اسکولوں میں زباندانی کے پرچے سے ’خط لکھئے‘ کا سوال ہی غائب ہوجائے گا۔ فورجی /فائیوجی والی نسل خط نویسی کی مسرّتوں اور سرشاریوں سے محروم ہوجائے گی۔ جدید دَور سے ہم آہنگ ہونا چاہئے مگر کتاب، قلم، خط سے رشتہ توڑ کر ہم کیسا رُوکھا سوکھا، کھردرا، بے روح و بے جان معاشرہ تشکیل دینے جارہے ہیں ؟ آہ! میسج تو آئیں گے مگر اب خط نہیں آئیں گے!
ان کالموں کے خطوط سے : 
گزشتہ ۳۰؍برسوں سےان کالموں میں ہم نے اپنا پیغام پہنچانے کیلئے کبھی مکالمہ، ڈراما، انشائیہ اور خط وغیرہ کا سہارا لیا تھا۔ ان ہی کالموں میں شائع خطوط کی چند سطریں پیش کر رہے ہیں :
(۱) ماں کا خط (۱۹۹۶ء) : ’’بیٹے تم نے لکھا ہے کہ تم اس بات پر پریشان ہو کہ تمھاری پڑھائی کیلئے میرے تمام زیور گِروی رکھے ہیں، میرا زیور تو تم ہو میرے بیٹے۔ ‘‘
(۲) ماں کا خط (۲۰۰۰ء) : ’’ زندگی کا ہر روپ ہم دیکھ چکے ہیں، اب بھلا زندگی ہمیں کیا ڈرائے گی؟‘‘
(۳) بیٹی کا خط (۲۰۰۱ء) :’’ مجھے پڑھنے دو امّی جان مجھے پڑھنے دو، میں آپ کے ہاتھ جوڑتی ہوں امّی جان، مجھے پڑھنے دو۔ ‘‘
(۴)ماں کا خط (۲۰۰۴ء) : ’’ اپنی اعلیٰ تعلیم پوری کرکے جب تم گائوں لوٹوگی نا بیٹی، تب میں تمھیں گلے نہیں لگائو ں گی، تمھیں سیلوٹ کروں گی۔ ہاں بیٹی تمھیں سلام کروں گی کیونکہ تم اس گائوں میں ساتویں آٹھویں جماعت سے منہ موڑ کر بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی زندگی تبدیل کردو گی۔ ‘‘
(۵) باپ کا خط(۲۰۰۷ء):’’ اب بھی واپس آجائو سلیم! ہم سے کہاں غلطی ہوئی تبائو۔ بچپن میں دوڑ میں ہمیشہ تم سے ہارتا تھا کہ تمھارے چہرے پر خوشی دیکھ سکوں۔ سلیم میرے اس خط کو محفوظ رکھو، جب تم باپ بنو گے تب تمہیں احساس ہوجائے گا کہ باپ کا درد کیا ہوتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اگر آج تمھاری آنکھ سے ایک بھی آنسو نکلے تو میں سمجھوں گا کہ میرے درد کو تم نے سمجھ لیا۔ صرف ایک آنسو کا سوال ہے سلیم اور پھر ہمیں یقین ہے کہ ہمارا سلیم ہمارے پاس واپس آئے گا۔ ‘‘ 
(۶) باپ کا خط (۲۰۰۹ء) : ’’ گائوں جائو بیٹا اور واپسی پر خط لکھو کہ تم نے وہاں کیا کیا دیکھا۔ میرے گائوں اور تمھارے شہر کا فرق تمھیں سمجھ میں آہی جائے گا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK