• Wed, 29 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دوستی کی جھپّی سے ٹیرف کے جھٹکے تک، مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان

Updated: August 31, 2025, 3:56 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹیرف کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کررکھی ہے، وہ یقینی طورپرقابل مذمت ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کس موڑ پر کھڑی ہے، جو چین آپریشن سیندور میں   پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑاتھا، اس سے اچانک قربت کااظہارکیا مجبوری کاسودا نہیں ؟

A few companies have benefited from Russian oil, but the entire country is paying the price. Photo: INN
روسی تیل کے ذریعہ چند کمپنیوں  کو فائدہ پہنچا مگر قیمت پورا ملک چکا رہاہے۔ تصویر: آئی این این۔

خارجہ پالیسی شور شرابہ کا موضوع کبھی نہیں  رہی، یہ انتہائی متانت اور سنجیدگی کا تقاضہ کر تی ہے۔ سربراہان مملکت پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر چھُٹ بھیئے لیڈرکی طرح  برتاؤ نہ کریں بلکہ عالمی سطح پرخود کو پُروقار انداز میں  پیش کریں کیوں  کہ اُس وقت وہ ذاتی حیثیت سے بلکہ ایک ملک کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے ملک کے عوام کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے سربراہان مملکت نے ہمیشہ اس نکتے کو ملحوظ رکھا گزشتہ ایک دہائی کے دوران بہت کچھ بدل گیا۔ 
نریندر مودی سرکار نےخارجہ پالیسی کو نیا انداز دینے کی کوشش کی۔ اسے جارحانہ سفارت کاری اور ذاتی تعلقات پر مبنی سفارتکاری کے طور پر دیکھایا گیا۔ اس دوران خارجہ پالیسی، امور خارجہ کے تعلق سے کم اور داخلی سیاست چمکانے کا ذریعہ زیادہ بنتی نظر آئی۔ وزیراعظم مودی جب بھی کسی غیر ملکی دورے پر گئے تواسے کسی ’ایونٹ‘ کی طرح  مشتہر کیا گیا۔ یہ تاثر دیاگیا کہ ہندوستان کی اب تک عالمی منظر نامہ میں کوئی حیثیت تھی نہ وقعت، اب مودی اسے عالمی بلندیوں  پر پہنچارہےہیں۔ نیوز چینلوں نے ’’دنیا بھر میں  ڈنکا بجنے‘‘ کی اصطلاح  عام کی اوروزیراعظم مودی کا مختلف ممالک کے سربراہان سے بڑھ بڑھ کر گلے ملنے کو اس ملک سے قربت اور سفارتی تعلقات کی بہتری کی علامت بنا کر پیش کیا۔ 
لیکن نتیجہ کیا رہا؟ پہلگام میں  دہشت گردانہ حملے کے بعد اس کی قلعی اس وقت کھل گئی جب آپریشن سیندور کے دوران کوئی ایک بھی ملک کھل کر ہندوستان کے ساتھ کھڑا نظر نہیں  آیا۔ اس کے برخلاف چین پردہ کے پیچھے سے ہماری فوجوں  کا مقابلہ کرنے میں  پاکستان کی باقاعدہ مدد کر رہاتھا۔ اس کی تصدیق کسی اور نے نہیں  بلکہ ہماری اپنی فوج کے ایک اہم اعلیٰ عہدیدار نے کی ہے۔ کئی ملکوں  نے پاکستان کی حمایت میں  آواز بلند کی مگر ہندوستان کی حمایت میں  اسرائیل کے علاوہ کوئی سامنے نہیں  آیا۔ ہمیں اپنے موقف سے باور کرانے کیلئے مختلف ممالک میں اپنے کل جماعتی وفود بھیجنے پڑے۔ دوسری طرف آپریشن سیندور کوملتوی کئے جانے کے بعد (کیوں کہ حکومت ہند کئی بار واضح کرچکی ہےکہ آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں  ہوا) ڈونالڈ ٹرمپ ایک دوبار بار نہیں  بار بار یہ کہہ کر ہندوستان کی تذلیل کرتے رہےکہ جنگ بندی ان کہنے پرہوئی ہے۔ اب تو امریکی صدر نے یہ دعویٰ بھی کردیا ہے کہ انہوں  نےہندوستان کو ۲۴؍ گھنٹے کو وقت دیا تھا اور ہندوستان نے ۵؍ ہی گھنٹوں  میں  حملے روک دیئے۔ یہ واضح طور پر ٹرمپ اس طرح وزیراعظم مودی کی توہین کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ نہیں  بھولنا چاہئے کہ وہ انہیں   بحیثیت مودی نشانہ نہیں  بنارہے ہیں بلکہ ہندوستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے نشانہ بنارہے ہیں۔ یعنی غلط خارجہ پالیسی اور نادان کی دوستی کانتیجہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔ جس ٹرمپ کو وزیراعظم مودی ’’مائی فرینڈ ‘‘ کہتے نہیں   تھکتے تھے اورجن کیلئے انہوں  نے ’’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ تک بلند کردیاتھا، اسی ٹرمپ نے ہندوستان پر روس سے تیل خریدنے کے ’’جرم ‘‘ میں  اضافی ۲۵؍ فیصد ٹیرف عائد کردیا۔ ایسا نہیں  کہ روس سے تیل صرف ہندوستان خرید رہا ہے، اس کا سب سےبڑا خریدار چین ہے جس نے گزشتہ سال ماسکو سے ۱۰۹؍ ملین ٹن خام تیل خریدا، اس کے برخلاف ہندوستان نے صرف ۸۸؍ ملین ٹن ہی خریدا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ چین نے جہاں  روس سے خریدے ہوئے تیل کو اپنے عوام کیلئے استعمال کیا، ہندوستان نے روس سے خریدا ہوا سستا تیل یورپی ممالک کو فروخت کیا۔ اس سے سب زیادہ فائدہ دو کمپنیوں  نے اٹھایا۔ ایک مکیش امبانی کی ریلائنس اندسٹریز لمیٹڈ اور دوسری نیارا انرجی ہے۔ یہ جاننا بھی دلچسپی سے کم نہیں  کہ ’نیارا ‘ کے مالکانہ حقوق روسی کمپنیوں  کے پاس ہیں۔ مجموعی طور پران ۲؍ کمپنیوں   نے جو فائدہ اٹھایا اس کی قیمت ۵۰؍ فیصد ٹیرف کی شکل میں  پورا ملک بھگت رہا ہے۔ اس کی سنگینی کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ہندوستان کی کل درآمدات کا ۲۰؍ فیصد حصہ امریکہ درآمد ہوتا ہے۔ ٹیرف عائد ہونے کے بعد اس کا متاثرہونا اوراس کی وجہ سے ملک میں  روزگارگھٹنا یقینی ہے۔ محتاط اندازوں   کے مطابق ۲۰؍ لاکھ روزگار خطرے میں ہیں۔ 
ایسے وقت میں  جبکہ دنیا واضح طور پر ۲؍ بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے، ٹرمپ کی اس حرکت کےبعد ہندوستان اکیلا دوراہے پر کھڑا نظر آرہا ہے۔ اس کے پاس اُسی چین کی طرف جانے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچا جس نے گلوان میں  ہماری زمین پرقبضہ کررکھا ہے، ہمارے فوجیوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا اور ہمارے خلاف پاکستان کے ساتھ شانہ بہ شانہ نظر آیا۔ وزیراعظم چین کے دورے پر روانہ ہوچکے ہیں مگر چین نے نہ لداخ میں  وہ زمین خالی کی جس پر اپریل ۲۰۲۰ء سے وہ قابض ہے اور نہ اس بات کی کوئی ضمانت ملی کہ بیجنگ ہندوستان کے خلاف آئندہ پاکستان کی مدد نہیں  کرےگا۔ مجموعی طو رپر خارجہ پالیسی کا یہ نیا موڑ مجبوری کا نتیجہ ہے۔ یہ یاد دہانی بھی کم دلچسپ نہیں کہ چین کو وزیراعظم لال آنکھ دکھانے کی بات کررہے تھے، اسی چین کے وزیراعظم کو انہوں  نے اقتدار میں  آنے کے بعد گجرات میں اپنے ساتھ جھولا جھلایا مگر یہ ’’سفارتکاری‘‘ چین کو گلوان میں شرانگیزی سے نہ روک سکی۔ اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی قابل مذمت ہے جس کا نتیجہ آئندہ چند مہینوں  میں  ہی مہنگائی کی شکل میں  خود امریکی عوام کو بھی بھگتنا پڑے گامگر اس نے ایک بار پھر ہماری سفارتکاری کی کمزوری کو ظاہر کردیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK