Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: اُدھو اور راج ٹھاکرے کے اتحاد سے بی جے پی اتنی خوف زدہ کیوں ہے؟

Updated: July 21, 2025, 5:19 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Whether or not the Shiv Sena will benefit from the arrival of Raj Thackeray along with Uddhav Thackeray, one thing is certain: the BJP will definitely suffer. Photo: INN.
اُدھو ٹھاکرےکے ساتھ راج ٹھاکرے کے آجانے سے شیوسینا کو کوئی بڑا سیاسی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اتنا تو طے ہے کہ بی جے پی کو نقصان ضرور ہوگا۔ تصویر: آئی این این۔

بی جے پی کو اپنے زوال کا خدشہ ہے


بی جے پی اسلئے پریشان ہے کہ اگر ادھو اور راج متحد ہو گئے، تو مراٹھی ووٹ بینک یکجا ہوسکتا ہے جو شندے، بی جے پی اتحاد کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اس سے قبل ادھو کی شیوسینا اور راج کی ایم این ایس کے درمیان انتشار کا فائدہ بی جے پی کوملتا رہا ہے۔ دراصل دونوں ٹھاکرے خاندان کی اپنی ایک سیاسی شناخت ہے، اسلئے ان کی جذباتی اپیل سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ’اصل شیو سینا‘ کی واپسی ہوگئی ہے۔ ان کے اتحاد کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ شندے کے ساتھ جانے والے کچھ لوگ واپس آجائیں۔ ایسا ہوا تو یہ بھی بی جے پی کیلئے بڑا جھٹکا ہوگا۔ 
زبان کے مسئلے (مہاراشٹر میں ہندی تھوپنے کے معاملے) پر دونوں ٹھاکرے ایک ساتھ آئے ہیں۔ بی جے پی کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر اس کی وجہ سے مراٹھی عوام ایک ساتھ ہوگئے تو مہاراشٹر میں اس کی سیاست کا زوال شروع ہوجائے گا۔ 
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل (کھیر نگر مونسپل اسکول باندرہ)
دونوں کا ساتھ آنا سیاسی مجبوری هے


پچھلے دو دہائی سے ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے بیچ جو سیاسی لڑائی چلی آ رہی تھی بلا آخر مراٹھی زبان کی شناخت اور وقار کو قائم رکھنے اور ہندی کو تیسری زبان کا درجہ نہیں دینے کیلئے دونوں بھائی ایک اسٹیج پر آ گئے۔ ظاہر سی بات ہے، اب مہا نگر پالیکا کا الیکشن ہونے والا ہے، اگر ٹھاکرے برادران بلدیاتی الیکشن ساتھ مل کر لڑتے ہیں تو بی جے پی کا کافی نقصان ہوگا۔ دراصل یہ سب ایک سیاسی کھیل ہے اور دونوں پارٹیوں کا ساتھ آنا سیاسی مجبوری هے۔ شیو سینا (شندے)اور بی جے پی میں بوکھلاہٹ واجب ہے۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کی کیا ادھو ٹھاکرے انڈیا اتحاد میں رہیں گے یا باہر آ جائیں گے؟اگر دونوں بھائی ساتھ میں الیکشن لڑتے ہیں تو شاید کوئی کرشمہ ہو جائے اور جیت حاصل ہو اور اگر نتائج ٹھاکرے برادران کے خلاف آئے تو پھر یہ رشتہ ایسے ہی قائم رہے گا یا نہیں ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ 
ضیاء نقوی (میرا روڈ، ممبئی)
مراٹھی ووٹ بینک، توڑ جوڑ کی سیاست اور مذہبی کارڈ کا اثر کمزور ہو جائے گا


مہاراشٹر کی سیاست میں اگر کوئی سب سے بڑا سیاسی زلزلہ آ یا ہے تو وہ ادھو اور راج کا اتحاد ہے۔ دو بھائی، دو الگ الگ نظریے، دو مضبوط شخصیات برسوں کی دوری ختم کر کے ایک پلیٹ فارم پر آ نے سے نہ صرف سیاسی منظرنامہ بدل جائے گا بلکہ حکمراں جماعت بی جے پی کیلئے یہ ایک واضح خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ مہاراشٹر کی سیاست کی جڑیں مراٹھی عوام کے جذبات میں پیوست ہیں۔ ادھو نرم مزاج، سنجیدہ اور عوام دوست قیادت کی علامت بن چکے ہیں جبکہ راج ٹھاکرے میں آج بھی شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے کی وہی پرانی گرج اور جارحیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کے اتحاد سے مراٹھی قوم پرستی اور علاقائی شناخت کا ایک زبردست طوفان اٹھ سکتا ہے، جو بی جے پی کے ووٹ بینک کو بڑی حد تک بہا لے جائے گا۔ بی جے پی کی طاقت اس کی نظریاتی مشینری اور تنظیمی ڈھانچے میں ہے، لیکن ادھو اور راج کا اتحاد ایک جذباتی اور خاندانی طاقت ہے۔ مہاراشٹر میں اب بھی بال ٹھاکرے کی یاد، ان کے الفاظ اور ان کی سیاست زندہ ہے۔ ان کے دونوں وارث اکٹھے ہو جانے، سے عوامی ہمدردی، اعتماد اورجذبات کا ایک سیلاب بی جے پی کی سیاسی منصوبہ بندی پر پانی پھیرسکتا ہے۔ بی جے پی نے شیو سینا کے ایک دھڑے (شندے ) سے اتحاد کر کے وقتی سیاسی فائدہ تو حاصل کر لیا، لیکن اخلاقی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنی۔ اگر ادھو کی شیو سینا اور ایم این ایس متحد ہو جاتی ہیں تو بی جے پی کو مہاراشٹر میں حقیقی اتحادیوں کی کمی کا سامنا ہوگا، جو۲۰۲۹ء کے لوک انتخابات اور اس کے بعد اسمبلی انتخابات کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ادھو اور راج کا اتحاد صرف سیاسی سودے بازی نہیں بلکہ مہاراشٹر کی عوامی شناخت اور سیاسی انصاف کی بحالی کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ بی جے پی اسلئے خوفزدہ ہے کہ اگر مراٹھی عوام کو دوبارہ متحدہ قیادت مل گئی تو بی جے پی کی چالاکیوں، توڑ جوڑ کی سیاست اور مذہبی کارڈ کا اثر کمزور ہو جائے گا۔ 
رضوان ہمنوا سر ( ہاشمیہ ہائی اسکول ممبئی )
اپنے ووٹروں کے کھونے کا ڈر ستا رہا ہے


کافی عرصے سےیہاں کے عوام سادگی اورشدت پسند سیاست دانوں کوایک ساتھ دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے، جو انہیں اب نصیب ہوا۔ دراصل بی جے پی نے مہاراشٹر کے عوام کے ساتھ بھی دھوکہ کیا ہے۔ پیسوں اور کرسی کے لالچ سے عوام کے ذریعہ منتخب کردہ حکومت کو گراکر ایک نو سکھئے سیاستداں کے ہاتھوں میں مہاراشٹر کی باگ ڈور سونپ کر ریاست کو ترقی سے کوسوں دور کردیا۔ بی جےپی کی عوام دشمن چالیں سمجھ میں آنے پر مراٹھی اور مراٹھا عوام کی خدمت کے جذبے سے اُدھو اور راج ساتھ آگئے جس کی وجہ سے بی جے پی کو اپنے ووٹرس کی بڑی تعداد کے کھسکنے کا ڈر ستانے لگا ہے۔ ادھو کی سادگی اور راج کی شدت پسندی کو ایک ساتھ دیکھ کر بی جے پی کے خیمے میں گھبراہٹ کا ماحول ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کون سی چال چلتے ہیں اور کس طرح’ کامیابی‘ حاصل کرتے ہیں ۔ 
محمد سلمان شیخ (امانی شاہ تکیہ، بھیونڈی)
بی جے پی کی تنظیمی مشینری کو سخت مقابلہ درپیش ہوگا


بی جے پی کے خوف کی وجہ مراٹھی ووٹ بینک کے ہاتھوں سے نکلنے کا خطرہ ہے۔ بی جے پی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ ادھو اور راج دونوں کی جڑیں مراٹھی عوام میں مضبوط ہیں۔ اُدھو کا نرم رویہ اور راج کا جارحانہ انداز، دونوں مل کر ایک ایسا ووٹ بینک کھڑا کر سکتے ہیں جو بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرہ بن جائے گا۔ خاص طور پر ممبئی، تھانے، ناسک، کولہاپور اور پونے جیسے علاقوں میں جہاں ماضی میں شیو سینا کا غلبہ رہا ہے، وہاں بی جے پی کی بنیادیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ 
شندے گروپ کی حیثیت پر سوالیہ نشان:
شندے گروپ کے ذریعے بی جے پی نے اُدھو حکومت کو گرا کر اقتدار حاصل کیا تھا، لیکن عوام کی نظر میں یہ اقدام اخلاقی طور پر کمزور مانا گیا۔ اب اگر ادھو اور راج ایک ہو جاتے ہیں، تو شندے گروپ کی سیاسی اہمیت گھٹ جائے گی اور وہ بی جے پی کے سائے میں رہنے والی جماعت بن کر رہ جائے گی۔ 
ممبئی کارپوریشن کے الیکشن کا خوف:
بی جے پی کی نظریں کافی عرصے سے ممبئی میونسپل کارپوریشن پر جمی ہوئی ہیں، جو شیو سینا کا قلعہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر ادھو اور راج متحد ہو کر الیکشن میں اترتے ہیں تو بی جے پی کا بی ایم سی جیتنے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ یہ شکست بی جے پی کیلئے نہ صرف سیاسی بلکہ علامتی طور پر بھی بڑا جھٹکا ہوگا۔ 
عوامی ہمدردی اور اخلاقی برتری:
ادھو ٹھاکرے کو شندے بغاوت کے بعد عوام کی بھرپور ہمدردی حاصل ہوئی ہے۔ راج ٹھاکرے کی سیاسی مہارت اور جارحانہ طرزِ خطابت بھی ایک بڑی طاقت ہے۔ دونوں اگر عوام کے درمیان سڑکوں پر اتر آئے تو بی جے پی کی تنظیمی مشینری کو سخت مقابلہ درپیش ہوگا۔ 
یہی وہ نکات ہیں جس کی وجہ سے بی جے پی نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ نفسیاتی طور پر بھی پریشان ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو مہاراشٹر کی سیاست میں ایک نیا باب شروع ہو سکتا ہے۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ( سپروائزر، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
بی جے پی کا داؤ اُلٹا پڑگیا، اسلئے وہ خوف زدہ ہے


ادھو اور راج نے تقریباً ۲۰؍سال بعد اتحاد کا ہاتھ تھام کر مہاراشٹر کی سیاست میں نئی سیاسی صف بندی کردی ہے جس سے بی جے پی کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ دراصل ہندی کو لازمی قرار دینے والے حکومتی’ جی آر‘ نے مراٹھی مانس میں بے چینی پیدا کر دی، جس نے دونوں بھائیوں کے اتحاد کیلئے راستہ ہموار کیا۔ سرکارنے حالانکہ بعد میں جی آر واپس لے لیا مگر ساتھ ہی ایک کمیشن بنا کر عوام کو مخمصے میں بھی ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مراٹھی عوام کافی مشتعل ہیں۔ دوسری طرف امیت شاہ کے ساتھ ایک ڈائس شیئر کرتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے’ جے گجرات‘ کا نعرہ لگا کر جلتی آگ میں گھی ڈالنے اور’مراٹھی تفاخر‘ کو جگانے کا کام کیا ہے۔ بی جے پی نے مہاراشٹر میں رہنے والے شمالی ہند کے باشندوں کو راغب کرنے کیلئے ہندی کا پانسہ پھینکا تھا مگر اسکا داؤ الٹا پڑتا نظر آ رہا ہے، جس سے وہ خوفزدہ ہے۔ 
افتخار احمد اعظمی ( سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
دونوں کے ایک ہونے میں بی جے پی کیلئے خطرہ ہے


اس سے قبل بھی کئی بار دونوں بھائیوں کو ایک کرنے کی کوششیں ہوئیں لیکن یہاں کچھ چالاک سیاست داں بھی ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ دونوں ایک ہوں۔ پہلے تو انہوں نے ایم این ایس کی طاقت بے اثر کی اور پھرادھو کی پارٹی میں توڑ پھوڑ کرکے شیوسینا کو بھی دو لخت کردیا۔ اب اگر دونوں ایک ہو جائیں تو یقیناً اس کیلئے خطرہ پیدا ہوگا، جس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی گھبرا ئی ہوئی ہے کیونکہ مراٹھی عوام کی ہمدردیاں دونوں بھائیوں کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں۔ گمان غالب ہے کہ الیکشن میں دونوں بھائیوں کا فائدہ ہوگا اوریقینی طور پر بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ 
مرتضیٰ خان ( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
مہاراشٹر کا سیاسی منظر بدلنے والا ہے


ٹھاکرے بھائیوں کا ایک ساتھ آنا بی جے پی اور ایکناتھ شندے کی شیوسینا کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا، وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں نظر آ جائے گا۔ مہاراشٹر میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے بی جے پی کو کتنے چنے چبانے پڑے ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ شیوسینا شروع ہی سے بی جے پی کیلئے مصیبت بنی رہی ہے۔ جس شیو سینا کو مہاراشٹر میں بی جے پی کا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت حاصل تھی، اسے رفتہ رفتہ ٹھکانے لگادیا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ادھو نے خود کو اس اتحاد سے الگ کر لیا تھا۔ اب اگر بلدیاتی انتخابات میں دونوں بھائیوں نے مل کر بی جے پی کو دھول چٹا دیا تو آگے مہاراشٹر کی سیاست میں اور بھی بہت سارے اُلٹ پھیر ہو سکتے ہیں۔ یہ تو خیر وقت بتائے گا کہ دونوں کب تک ساتھ مل کر بی جے پی اور ایکناتھ شندے کی شیو سیناکامقابلہ کرتے ہیں یا پھر راج ٹھاکرے کب اپنا موقف بدل کر اپنے بھائی سے الگ ہو جاتے ہیں ؟ راج کئی مرتبہ اپنا موقف بدل چکے ہیں، کبھی وہ مودی کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں تو کبھی ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 
ممتاز احمد شمشیر خان ( گولی بار، سانتا کروز، ممبئی)
’ٹھاکرے برانڈ‘ کا یہ اتحاد عوامی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے


ادھو اور راج کے اتحاد سے بی جے پی اسلئے خوفزدہ ہے کیونکہ یہ اتحاد مراٹھی عوام کو ایک شناخت کے تحت متحد کر رہا ہے۔ مراٹھی عوام اب اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کیلئے پہلے سے زیادہ سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ دونوں اپنی سیاسی ساکھ، مراٹھی زبان، ثقافت اور علاقائی جذبات کو بنیاد بنا کر عوامی حمایت حاصل کر رہے ہیں، جس کے باعث شہری علاقوں میں بی جے پی کا ووٹ بینک متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اس تناظر میں مہاوکاس اگھاڑی میں شامل کانگریس کی کمزور موجودگی نے اس اتحاد کو مزید تقویت دی ہے اور اب ’ٹھاکرے برانڈ‘ والا یہ اتحاد عوامی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ اگر شہری انتخابات میں اس اتحاد کو کامیابی ملتی ہے تو یہ رجحان اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات تک بھی بی جے پی کیلئے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ابھی یونیسکو کی جانب سے مراٹھی قلعوں کو دی گئی عالمی شناخت، ہندی، مراٹھی زبان سے متعلق تنازعات، اور بی جے پی کے اندرونی اختلافات بھی اس اتحاد کے حق میں جا رہے ہیں، جو یقیناً بی جے پی کیلئے ایک پیچیدہ سیاسی چیلنج ہے۔ 
عبید انصاری ہدوی( بھیونڈی)
یہ سیاست نہیں ، ایک بڑی سازش ہے


ادھو اور راج کے اتحاد سے بی جے پی کو فکرلاحق ہے کہ مہاراشٹر کی کئی مہانگر پالیکا کے انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور ایم آئی ایم کو فائدہ پہنچے گا۔ بی جے پی یہ نہیں چاہتی کہ کارپوریشن میں کوئی مسلم کارپوریٹرمنتخب ہو۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ کانگریس نے ادھو کو تو جھیل لیا مگر راج کو برداشت نہیں کر سکے گی کیونکہ راج کی سیاست کا محور و مرکز ہمیشہ ہی سے نفرت کا رہا ہے۔ وہ خواہ مسلمانوں کے خلاف رہا ہو، شمالی ہند کے باشندوں کے خلاف رہا ہو یا پھر اب غیر مراٹھی والوں کے خلاف ہے۔ ایسے میں ہندی بھاشی اور مسلمان اُدھو ٹھاکرے اور کانگریس اتحاد کو تو ووٹ دے دیں گے لیکن اگر اس اتحاد میں ا یم این ایس بھی شامل ہو گئی تو پھر کانگریس کیلئے اپنی روایتی سیٹیں بھی جیتنا مشکل ہوگا۔ ایسے میں اُن علاقوں سے سماجوادی پارٹی اورایم آئی ایم کی فتح یقینی ہوگی کیونکہ مسلمانوں کو پتہ ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ جانے والی نہیں ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے بی جے پی خوف زدہ ہے۔ 
مبین اظہر(مولانا آزاد روڈ، ممبئی۸)
ٹھاکرے برادران کیلئے یہ بقا کی جنگ ہے


اس وقت ٹھاکرے برادران مہاراشٹر میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ، اسلئے ان کا یہ اتحاد ایک سیاسی مجبوری ہے لیکن اس اتحاد کا مراٹھی عوام نے جس طرح سے خیر مقدم کیا ہے اسے دیکھ کر بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیاں حواس باختہ ہیں۔ دونوں بھائیوں کا یوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اتحاد و یکجہتی کا پیغام دینا بی جے پی کو راس نہیں آرہا کیونکہ اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس اتحاد کو عوامی سطح پر یوں پذیرائی ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی پریشان اور مایوس ہے۔ یہ مایوسی اس کے بیانات سے بھی صاف نظر آ رہی ہے۔ اب اگر ٹھاکرے برادران اپنے اس اتحاد کو بی جے پی کیخلاف بھنانے میں کامیاب ہوگئے تو آنے والے بی ایم سی الیکشن میں اس کو کافی مشکل پیش آ سکتی ہے، یہاں تک کہ اس کے اتحادی شندے گروپ کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے مہاراشٹر میں یہیں سے بی جے پی کے زوال کا آغاز ہو جائے۔ ایسے میں بی جے پی اپنا ’سام دام دنڈ بھید‘ کا داؤ ضرور چلے گی، اسلئے دونوں بھائیوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص راج ٹھاکرے کو جو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے ’کچھ بھی‘ کرنے کو تیار ہیں، بی جے پی ان کی اس کمزوری کا فائدہ ضرور اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی( کوسہ ممبرا)
اس ہفتے کا عنوان
این سی ای آر ٹی کے ذریعہ ترتیب دیئے گئےنئے نصاب میں ملک کےمغل حکمرانوں کو ظالم، سفاک اور مندر شکن کے طورپر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
مسلم حکمرانوں سے متعلق نفرت انگیزی کے اسباق کے کیا نتائج نکلیں گے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۷؍ جولائی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ 
ایک اہم اعلان
یہ موضوع اس سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ عنقریب ہم ’قاری نامہ‘ میں کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ آپ کے روبرو ہوں گے۔ (ادارہ)
دیکھتے رہئے انقلاب

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK