قتل کی بڑھتی وارداتو ں اور ڈی جی پی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پراَب تک نتیش کچھ بولے ہیں، نہ ہی امیت شاہ کا کوئی رد عمل آیا ہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 5:49 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
قتل کی بڑھتی وارداتو ں اور ڈی جی پی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پراَب تک نتیش کچھ بولے ہیں، نہ ہی امیت شاہ کا کوئی رد عمل آیا ہے۔
بہاروہ ریاست ہے جس کیلئے’ جنگل راج‘ کی اصطلاح ایک خاص پس منظر میں استعمال کی جاتی ہےجس کا تعلق صرف جرائم کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہی نہیں بلکہ ایک شدید سیاسی حملے سے بھی ہے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کو ابھی کافی مہینے باقی ہیں، اس کے باوجودیہ ریاست موضوع بحث بنی ہوئی ہے، بالخصوص جرائم کے اعتبار سے۔ پٹنہ میں دو دن قبل پارس اسپتال میں پانچ حملہ آوروں نے وارڈ میں بہ آسانی گھس کرایک چندن مشرا نامی ایک گینگسٹر کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس سے قبل بہار میں معروف بزنس مین گوپال کھیمکا کا دن دہاڑے قتل ہوچکا ہے۔ اس واردات کے کچھ دن بعدپٹنہ کے ہی شیخ پورہ میں بی جےپی لیڈرسریندر کیوٹ کو بائیک پر سوار دوحملہ آوروں نے گولی ماردی تھی۔ اس کے علاوہ ایک ر پورٹ کے مطابق بہار میں رواں ہفتے میں ایک دن ایسا بھی رہا جب ۲۴؍ گھنٹے میں قتل کی ۹؍ واردارتیں انجام دی گئیں۔ ایک ڈیڑھ مہینے قبل پٹنہ کے ہائی سیکوریٹی علاقے میں دن دہاڑے فائرنگ ہوئی تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بہار کے کئی لیڈروں کی رہائش گاہیں ہیں۔
تاجرگوپال کھیمکا کے قتل پر اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے کہا تھاکہ اس طرح کا واقعہ اگر ہماری حکومت میں ہوا ہوتاتو میڈیا ہماری کھال نوچ لیتا لیکن یہ چونکہ این ڈی اے کی حکومت میں ہوا ہے اسلئے اس پر میڈیا نےخاموشی اختیار کررکھی ہے۔ بہر حال ان دنوں اب میڈیا کا ایک حلقہ بھی بہار میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پرفکر مندنظر آرہا ہے۔ انڈیا ٹی وی کے رجت شرما نے اپنے پروگرام ’ آج کی بات‘ میں اس بہار میں نظم وقانون کی صورتحال پر خصوصی بلیٹن پیش کیا اور۲۴؍ گھنٹوں میں قتل کی ۹؍ وارداتوں پرریاست کی صورتحال بد سے بدتر ہونے کاحوالہ دیا۔ غیر جانبدار ذہن رکھنے والے میڈیا کا کوئی اینکر پرسن ان حالات پر خاموش نہیں رہے گا لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب حکومتی سطح پرصورتحال پر کوئی تبصرہ نہ کیا جائےاوراپنے اپنے دعوؤں کوہی سیاست کا محور ومرکز بنانے کی کوشش جاری رکھی جائے۔
۲؍ دن قبل وزیر اعظم مودی نے بہار کا دورہ کیا اور ریاست کو ۷۲؍سوکروڑکےترقیاتی منصوبو ں کی سوغات دی۔ موتیہاری کے گاندھی میدان میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی موجودگی میں انہوں نے بڑی ریلی سےخطاب کرتے ہوئے ’نئے بہار‘ کا نعرہ دیا لیکن ریاست کے کاروباری گوپال کھیمکا کے سنسنی خیز قتل اور دیگروارداتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حالانکہ ان وارداتوں میں خود ان کی اپنی پارٹی کے لیڈر کا قتل بھی شامل ہے۔ البتہ این ڈی اے کی اتحادی لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر چراغ پاسوان نے نظم وقانون کی اس دن بہ دن بگڑتی ہوئی صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہےاور اس کیلئے حکومت کوذمہ دارقراردیا ہے۔ پٹنہ کے پارس اسپتال میں ہوئی واردات کا حوالہ دیتے ہوئےچراغ پاسوان نے کہا کہ یہ واقعہ مجرموں کی بے باکی اور حکومت کی نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نےواضح کیا کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کے تحت امن و امان برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب وزیر اعظم ترقیاتی اسکیمیں ریاست میں لاتے ہیں تو ان کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں، وہ بہار کو ایک ترقی یافتہ ریاست بنانے کے تصور کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جہاں تک امن و امان کا مسئلہ ہے، سب جانتے ہیں کہ وفاقی ڈھانچے کے تحت یہ مکمل طور پر ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے، لیکن یہ ہم سب کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ ‘‘
یہ الگ موضوع ہےکہ چراغ پاسوان اپنی ہی حکومت کے سربراہ کے اچانک ناقد کیوں ہوگئے، ممکن ہے بہار کی سیاسی مساوات اوراس پر نتیش کمار کے کنٹرول کو کمزور کرنے کیلئے بی جے پی چراغ کومہمیز دے رہی ہو لیکن انہوں نے جو بات کہی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ریاست میں کھلے عام جرائم پرخود حکومت میں شامل لیڈروں میں بھی بے چینی پائی جارہی ہےجو لازمی بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ لاء اینڈ آرڈربہر حال ایک عوامی مسئلہ ہےاوراس کا تعلق براہ راست عوام کی زندگیوں اور ان کی سرگرمیوں سے ہے۔ انتخابات سے کچھ مہینوں قبل سرعام قتل کے واقعات عام نوعیت کے نہیں رہ جاتے۔
۹۰ء کی دہائی کے بہار کی بات کی جائے تو لالو یادو کے دور حکومت کیلئے اپوزیشن نے ’جنگل راج ‘ کی اصطلاح وضع کی تھی۔ اس وقت لالو یادو پر مجرموں کی پشت پناہی کے راست الزامات لگائے جاتے تھے۔ سماج میں جرائم پیشہ افراد نہ صرف کھلے عام گھومتے تھے بلکہ ان کا دبدبہ ہوتا تھا اورسیاسی فیصلوں میں بھی وہ ا ثر ورسوخ رکھتے تھے۔ یہ اس وقت کے ریکارڈ کی بنیاد پر اپوزیشن کے الزامات تھے۔ جرائم کی شرح ہر ریاست میں، ریاست کی آبادی کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس وقت اعدادوشمار کے مطابق ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ بہار میں بڑھتے ہوئے جرائم کا تعلق وہاں کی تعلیمی صورتحال سے بھی ہے۔
دہائی دودہائی قبل تک بہار میں خواندگی کی شرح پربھی موضوع بحث ہوا کرتی تھی لیکن اب اس میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ کسی ریاست پر راست ایسے الزامات نہیں لگائے جاسکتے وہاں ’جنگل راج‘ ہے۔ مثال کے طورپر کیرالا تعلیم اور خواندگی کی شرح کے اعتبار سے ملک کی سب سے بہترین ریاست ہے لیکن جرائم کی شرح کے معاملے میں اس کاریکارڈ بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ وکی پیڈیا پر موجود ڈیٹا کے مطابق ۲۰۲۱ء میں بہار میں جہاں جرائم کے ۲؍ لاکھ ۸۲؍ ہزار۸۳؍ معاملات پیش آئے وہیں اس مدت میں کیرالا میں جرائم کی وارداتوں کی تعداد ۵؍ لاکھ ۲۴؍ ہزار ۹۶۰؍ تھی۔ اس شرح کی نوعیت میں ریاست کی آبادی کے لحاظ سےبھی فرق ہوتا ہے۔
سیاسی لحاظ سے بہارکیرالا سے زیادہ سرگرم ریاست نظر آتی ہے اسلئےجب اس ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل جرائم کی وارداتوں اور وارداتوں کی نوعیت کی بات کی جائے گی توسنگین پہلوزیادہ وضاحت کےساتھ سامنے آئےگا۔ اس پر سیاسی خاموشی پر ناقابل قبول ہوگی اورپولیس کے کردار پربھی سوالات اٹھیں گے۔ بہار کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی )کندن کرشنن کا وہ غیر ذمہ دارانہ بیان بھی موـضوع بحث بنے گاجس میں انہوں نے ریاست میں جرائم کیلئے بے چارے کسانوں کو ذمہ دارٹھہرادیا۔ یہ بیان اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہےکہ جرائم کے ان واقعات پر پولیس کس رخ پرسوچ رہی ہے۔ اس طرح کے بے تُکے بیانات پہلے سیاستدانوں کی زبان سے نکل جایا کرتے تھے لیکن یہ انتہائی حیرت کا مقام ہےکہ اب پولیس کا ایک اعلیٰ افسر بھی ا یسا بیان دینے لگا ہے۔ یعنی مسئلہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو، اپنی رائے دینی ہےتو دے دی جائے، بھلے اس کی کوئی بنیاد نہ ہو۔ اس تعلق سے بھی ہم فی الحال صرف سوچ ہی سکتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نتیش کمار اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے نہ تو اب تک ریاست کی زیربحث اس صورتحال پر کوئی تبصرہ کیا ہےاور نہ ہی ڈی جی پی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پرکسی رد عمل کا اظہار کیا ہے۔