Inquilab Logo Happiest Places to Work

نمایاں کامیابی کیلئے اندیشے، بے یقینی اور بد نظمی کے اندھیرے سے باہر نکلنا ہوگا

Updated: July 20, 2025, 5:45 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہم ہمارے طلبہ کے سب سے بڑے مسئلے سے اپنی بات کا آغاز کریں گے اور وہ ہے’ تنظیم اوقات یا ٹائم مینجمنٹ ‘۔

Students who emerge from the shell of doubt, fear, and uncertainty are successful on every front. Photo: INN.
جو طلبہ وسوسے، اندیشے اور بے یقینی کے خول سے باہر ہوتے ہیں، وہ ہر محاذ پر کامیاب رہتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

آج جب ہمارے لاکھوں طلبہ اپنے کریئر کے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں اور زندگی کی منصوبہ بندی سے وابستہ سارے اُصول و ضوابط کا ایک نیا دَورپھر شروع ہورہا ہے۔ ہم ہمارے طلبہ کے سب سے بڑے مسئلے سے اپنی بات کا آغاز کریں گے اور وہ ہے’ تنظیم اوقات یا ٹائم مینجمنٹ ‘۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس یکساں وقت دستیاب ہے البتہ اُس دَوران کچھ لوگ اپنی زندگی کو روشنی سے بھر لیتے ہیں اورکچھ اندھیروں میں بیٹھ کر قسمت کو مسلسل کوستے رہتے ہیں اور اُن کی بھاری اکثریت کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے وقت کی کمی کی۔ دراصل اُنھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اُن کا وقت کیسے گزرتا ہے یا ضائع ہوتا ہے۔ وہ کون سے عناصر ہیں جو مسلسل اُن کے وقت کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔ آئیے اِن سب کا تفصیلی جائزہ لیں :
اندیشے، وسوسے، خدشات:
وقت کا سب سے بڑا دشمن یہی ہے :انجانے خوف، وسو سے، کل کیا ہوگا؟ اگر اور مگر، ایسا نہ ہوتو؟ کیا میں یہ کرسکتا ہوں ؟ یہ میرے مقدّر میں کہاں ؟ باوجود کوشش کے ناکامی ملی تو ؟ چلو دیکھتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں۔ اِنہی وسوسوں اور اندیشوں میں ان کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں حالات، وقت، قسمت کیا کروٹ بدلتے ہیں۔ 
علاج؟آپ بس چند لمحوں کیلئے یہ جائزہ لیجئے کہ آپ صحیح راستے پر ہیں یا نہیں ؟ اور پھرانجام کی پروا کئے بغیر آگے بڑھئے۔ کسی وسوسے کو اپنے اوپر حاوی ہونے مت دیجئے۔ جب دوسرے کامیاب ہوتے ہیں تو آپ بھی کامیاب ہو سکتےہیں ورنہ اندیشے، وسوسوں اور انجانے خدشات میں وقت مسلسل برباد ہوتے رہتا ہے اور وسوسوں کی یہ فیکٹری اکثر نوجوانوں کے گھروں یا دوستوں کے پاس ہوتی ہے۔ 
قوت فیصلہ کی کمی:
وقت کی احسن تنظیم میں ایک بڑی رکاوٹ قوت فیصلہ کی کمی یا کمزوری ہے۔ کبھی کبھی کوئی کام پورا کرنے میں فرض کیجئے ۱۵؍منٹ لگتے ہیں اس کام کو شروع کریں یا نہ کریں یہ صرف فیصلہ کرنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ ہم ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، بچّوں سے بڑوں تک سبھی کبھی کبھی ایک ایک گھنٹہ ’سوچتے‘ رہتے ہیں کہ وضو کریں یا نہ کریں اور جب وہ بالآخر طے کرتے ہیں کہ وضو کر ہی لیتے تب وہ دیکھتے ہیں کہ وضو کرنے میں ۳؍ منٹ صَرف ہوئے اور نماز ادا کرنے میں ۱۲؍تا ۱۵؍منٹ جبکہ اس کا فیصلہ کرنے میں ایک گھنٹہ ضائع ہوا تھا۔ یعنی کمزور قوتِ ارادی کی بناء پر کسی بھی کام کو انجام دینے میں کم وقت درکار ہوتا ہے اور اس کو ’کریں نہ کریں ‘ اس کا فیصلہ کرنے میں کئی گنا زیادہ وقت برباد ہوتا ہے۔ 
اب اس قوت فیصلہ ہی کے ضمن میں طلبہ کا رویہ دیکھ لیجئے: (۱) کیا پڑھوں، ابھی کون سا مضمون پڑھوں ؟ (۲) کتاب سے پڑھوں یا نوٹس سے یا کسی رہبر کتاب سے؟ (۳) جواب یاد کروں یا کاغذ پر لکھ دوں ؟ (۴) پہلے معروضی سوالات حل کروں یا طویل نوٹس کا اعادہ کروں ؟ (۵) جو پڑھنے جارہا ہوں وہ یاد نہیں رہا تو؟(۶) یہ سارے سوال پوچھے نہیں گئے تو؟ اب کریئر کے تعلق سے قوتِ فیصلہ کی کمی اور وقت کی بربادی کا نظارہ کرلیجئے:(۱) سائنس، کامرس یا ... (۲) چاچا کا بیٹا کر رہا ہے وہی کرلوں (۳) ایسا کوئی کورس ہے جو آج تک کسی نے نہیں کیا؟ (۴) فیس کیلئے مدد نہیں ملی تو؟ (۵) پھر بھی نوکری نہیں ملی تو....؟ ہمارے بچّے اور نوجوانوں کے اس رویے کیلئے ہمارے بڑے بزرگ بھی ذمہ دار ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً اگر ان بڑوں کو کہیں جانا ہے تو وہ یہ بھی فیصلہ نہیں کرپاتے ہیں کہ ٹرین سے جائیں یا بس سے؟ رِکشا کا استعمال کریں یا ٹیکسی؟ کہیں جانے کیلئے آدھا گھنٹہ درکار ہوتا ہے اور ’جائیں یا نہ جائیں ‘ کا فیصلہ کرنے میں چار گھنٹے ضائع۔ 
جاگتی آنکھوں کے خواب :
ہماری قوم کا المیہ ہے کہ نوجوان خواب دیکھتے ہی نہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایک بڑی اکثریت صرف خواب ہی دیکھتی ہے۔ یعنی ہمارے یہاں اعتدال کا فقدان ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوانوں کو زندگی کا کوئی مقصد، کوئی نصب العین طے کرنے والے خواب نہیں دکھاتا۔ یعنی ہمارے محلوں اور گلیوں میں سپنوں کے سوداگر زندگی سے بھرپور حقیقی سپنے بیچتے نظر ہی نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے خود کے سپنوں کے محلوں میں رہتے ہیں اور کوئی ان کا جگائے تو بُرا مانتے ہیں اسلئے کہ اُنھیں کسی نے یہ بتایا نہیں کہ سپنے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ہمارا نوجوان طبقہ جاگتی آنکھوں کے ان نشیلے سپنوں میں مسلسل اپنا وقت ضائع کرتے رہتا ہے۔ اس نوجوان طبقہ کو بدبختی سے ان بے بنیاد خوابوں کی دنیا میں ہمارے کچھ بڑے لوگ ’ہلدی لگے نہ پھٹکری‘ کی کیفیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ جھوٹی و فریبی اسکیموں میں بھی سرمایہ کاری کرنا اُنھیں پسند ہے۔ اُنھیں آناً فاناً بس ’بڑا‘ بننا ہے۔ ایسے خوابوں کی دنیا کو ہم اپنے بچّوں کو ورثے میں چھوڑتے رہتے ہیں اور وہ اپنا بیش قیمت وقت اس میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔ 
ہمارے نکّڑ، ہمارے گھر :
وقت گزاری کے سب سے بڑے مراکز ہیں : ہمارے محلوں کے نکّڑ اور ہمارے اپنے گھر۔ ان نکّڑوں پر ہمارے نوجوان و مرد اور ہمارے گھروں میں ہماری خواتین اکثر و بیشتر صرف فضول کی باتیں اور غیبت کرتے مشغول رہتے ہیں۔ وہاں بے موضوع باتیں ہی نہیں بلکہ نکتہ چینی، غیبت اور عیب جوئی مسلسل جاری رہتی ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر انسانوں کی آدھی زندگی یہ ثابت کرنے میں ضائع ہو جاتی ہے کہ وہ کتنا اچھا انسان ہے اور خود کو ’اچھا‘ ثابت کرنے کیلئے وہ دوسروں کی عیب جوئی کرکے اپنا قد ’بلند‘ کرتے رہتے ہیں، اور اس کل وقتی مشغلے میں اُنھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی کی میعاد کتنی گھٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے محلوں کے نکّڑ اور چائے خانے دن رات ’آباد‘ رہتے ہیں۔ لال قلعے کے ’دیوانِ عام‘ اور ’دیوانِ خاص‘ سے یہ قوم نکّڑوں پر کیوں کر آباد ہوگئی یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ اب یہ نکّڑ گویا ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ نہ جانے کتنی نسلیں ان نکّڑوں کی زینت بنی رہتی ہیں۔ قوم کے تئیں اتنی’ فکر‘ ان نکّڑوں پر صدیوں سے ہوتی رہی ہے مگر یہ کیا بات ہے کہ نکّڑ کے پتھروں پر بیٹھ کر پتھر گھِس گئے، دب گئے، پتھروں پر بیٹھنے کے نشان پڑ گئے مگر اس درجہ’ فکر‘ کر کے بھی قوم کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں البتہ قوم کے ایک طبقے کو ان نکڑوں پر اپنا وقت ضائع کرکے تسکین سی ملتی ہے۔ آج ہماری کئی بستیوں میں لوگ پریشان ہیں کہ وہاں نوجوانان رات رات بھر جاگ رہے ہیں۔ پوری پوری رات نُکّڑ آباد رہتے ہیں۔ کئی جگہ ہمارے بڑوں  کو یہ مہم چلانی پڑتی ہے کہ’’سوجائو، نوجوانو! سوجائو‘‘ لیکن وہ نہیں سورہے ہیں۔ یہ کون سی اور کس نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں یہ نوجوان، پتہ نہیں چل رہا ہے، ہمارے طلبہ کو اس رَت جگائی کی پناہ گاہوں کا حصّہ ہرگز نہیں بننا ہے اگر وہ زندگی میں یقینی کامیابی کے متمنی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK