بہار میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ چکے شہریوں سے آپ گفتگو کریں تو پتہ چلے گا کہ بڑی تعداد الیکشن کمیشن کے فرمان اور اس کے طور طریقوں سےمطمئن نہیں ہے۔ و ہ اس مہم کو گہری نظر ثانی نہیں بلکہ خالص ہراسانی قرار دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 5:47 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
بہار میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ چکے شہریوں سے آپ گفتگو کریں تو پتہ چلے گا کہ بڑی تعداد الیکشن کمیشن کے فرمان اور اس کے طور طریقوں سےمطمئن نہیں ہے۔ و ہ اس مہم کو گہری نظر ثانی نہیں بلکہ خالص ہراسانی قرار دیتی ہے۔
بہار میں اِن دنوں جس طرح کی ہلچل دکھائی دے رہی ہے، اس سے قبل کسی الیکشن میں نہیں دکھائی دی تھی۔ یہ پہلا موقع ہے جب سیاسی جماعتوں اور الیکشن لڑنے کے خواہش مند امیدواروں کے ساتھ ہی رائے دہندگان میں بھی بے چینی کا عالم ہے۔ ہر طرف بھاگم بھاگ اور افراتفری کا ماحول ہے۔ بہار کے شہری اس خدشے کی وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ اگر ان کا نام نئی انتخابی فہرست میں نہیں آیا تو ان کی شہریت بھی مشکوک ہوجائے گی۔ اِس وقت بات بھلے ہی صرف بہار کی ہورہی ہو لیکن اس کی وجہ سے پوراملک خوف زدہ ہے۔ کوئی کچھ کہے، نہ کہے، مگر لگتا سب کو ہے کہ’’باری باری سب کی باری آئے گی۔ ‘‘
الیکشن کمیشن نے تین ہفتے قبل بہار کے تقریباً ۸؍ کروڑ رائے دہندگان پر مشتمل انتخابی فہرست کی ’گہری نظر ثانی‘ کا جب اعلان کیا تھا اور اس کیلئے صرف ایک ماہ کا وقت دیا تھا، تب ایسالگا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اُس وقت یہ بات کہی جارہی تھی کہ انتخابی فہرست سے بڑی تعداد میں نام باہر ہوجائیں گے لیکن اب جیسا کہ الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ۱۹؍ جولائی تک ۹۶؍ فیصد رائے دہندگان فارم بھر کر جمع کرچکے ہیں تو پرانے خدشات کے ساتھ ہی ایک بڑے گورکھ دھندے کا بھی خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ بہار میں اِس وقت ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ چکے شہریوں سے آپ گفتگو کریں تو پتہ چلے گا کہ ایک بڑی تعداد الیکشن کمیشن کے فرمان اور اس کے کام کرنے کے طریقے سے مطمئن نہیں ہے۔ و ہ اس مہم کو گہری نظر ثانی نہیں بلکہ خالص ہراسانی قرار دیتی ہے۔
بہار میں ’بی ایل اوز‘ نے کیا کیا ہے؟ اورالیکشن کمیشن اسے کس طرح منظور کرے گا؟ یہ تو ابھی وقت بتائے گا لیکن اس مشق نےعوام کو ’کاغذ‘ کے تعلق سےخو ف زدہ کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نےانتخابی فہرست میں شمولیت کیلئے جو سخت پیمانے مقرر کئے تھے، اگر وہ اس پر بضد رہتا تو یقیناً بہار میں بھی آسام جیسی صورتحال پیدا ہوتی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۹ء میں جب آسام میں این آر سی تیار کیا گیا تھا تو اس میں ۱۹؍ لاکھ سے زائد افراد باہر ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ ہنگامے کا سبب ۱۹؍ لاکھ افراد کا باہر ہوجانا نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ ان ۱۹؍ لاکھ میں سے صرف ۶؍ لاکھ مسلم تھے بقیہ۱۳؍ لاکھ ہندو تھے۔ اس نتیجے کے سامنے آنے سے قبل این آر سی کے حامیوں کا خیال تھا کہ این آر سی سے صرف مسلمان باہر ہوں گے ہندو نہیں، لیکن جب باہر ہونے والوں میں اکثریتی طبقے کی تعداد زیادہ نکلی تو ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی اور حکومت کے ساتھ ہی اس کے حامیوں کے بھی اوسان خطا ہوگئے۔ انتخابی فہرست کی تیاری میں اگر اعلان کئے گئے ضابطے کے مطابق ’گہری جامع نظر ثانی‘کی جاتی تو کچھ یہی صورتحال بہار میں بھی ہونے والی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ اعلان کئے گئے ’سخت پیمانے‘ کا سختی سے ا طلاق نہیں ہوا۔
سوال یہ ہے کہ کسی شخص کی شہریت جانچنے اور اسےتسلیم کرنے کیلئے اتنے سخت پیمانوں کی ضرورت کیا ہے؟ ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہونے کے ۴؍ سال بعد پہلی مردم شماری ہوئی۔ اُس وقت جتنے بھی لوگ ملک میں موجود تھے، وہ ملک کے شہری قرار پائے تھے۔ اس کے بعد ہر۱۰؍ سال پرمردم شماری ہوتی ہے۔ اگراُسی طرح ایمانداری اور ذمہ داری سے کام انجام دیا جائے تو کسی شخص کی شہریت کیلئے مردم شماری ہی کافی ہوگی۔ کسی این آر سی اور این پی آر کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ویسے بھی حکومتوں کی، بالخصوص موجودہ حکومت کی اس طرح کی کوششیں کسی کو شہریت دینے کیلئے کم، کسی کی شہریت چھیننے کیلئے زیادہ ہوتی ہیں، اسلئے شہریوں کو حکومت کے ان منصوبوں سے ڈر لگتا ہے۔
ہمارا ملک واقعی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ایک حسین سنگم ہے۔ یہاں مختلف لسانی، مذہبی اور نسلی گروہ صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں، جن کی اپنی اپنی منفرد روایات، رسومات اور فنون ہیں۔ یہ تنوع ہی وطن عزیز کی خوبصورتی اور طاقت کی وجہ ہے۔ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر صرف زبان اور بولی ہی نہیں بدلتی بلکہ لہجہ، تلفظ اور املا بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ شمالی ہند میں الگ، جنوبی ہند میں الگ، بنگال، آسام میں الگ تو اترپردیش، بہار میں الگ اور پنچاب ہر یانہ میں کچھ الگ لکھا، پڑھا اور بولا جاتا ہے۔ اب ایسے میں ’کاغذات‘ میں یکسانیت کہاں سے رہ پائے گی؟ کسی ریاست میں ’سرنیم‘ لازمی ہوتا ہے تو کسی ریاست میں ’سرنیم‘ کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی، کہیں ’سرنیم‘ کو نام سے پہلے تو کہیں اسے نام کے بعد لکھا جاتا ہے۔ شمالی ہند میں ’سرنیم ‘ کو مکمل تو جنوبی ہند میں اسے ’مخفف‘ اندا ز میں انداز میں لکھا جاتا ہے۔ بہار میں ’جامع نظر ثانی‘ کے اعلان کے بعد کسی نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ جس حکومت کا سربراہ ۱۱؍ سال میں عوام کو اپنی ڈگری نہیں دکھا سکا، اس کی حکومت ۲۲؍ سال کے نوجوانوں سے اُن کے ساتھ ہی، ان کے والدین (ماں اور باپ دونوں ) کا برتھ سرٹیفکیٹ مانگ رہی ہے۔ وہ بے چارے اپنا ہی پیدائشی سرٹیفکیٹ پیش کردیں تو بڑی بات ہے، اپنے والدین کا کہاں سے پیش کرسکیں گے۔
بہار کے حوالے سےالیکشن کمیشن نے جو فرمان جاری کیا ہے، اس کے مطابق ۲۰۰۳ء کی انتخابی فہرست میں جن لوگوں کے نام شامل ہیں، انہیں صرف ایک فارم بھرکر دینا ہوگا، الگ سے کوئی ’ثبوت‘ نہیں دینا ہوگا، لیکن جن کے نام میں کوئی غلطی ہوگی، انہیں دُرست اِملے کے ساتھ برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔ اُس عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ اُن دنوں انتخابی فہرست میں کتنی اور کیسی فاش غلطیاں ہوتی تھیں۔ ایسے میں اُس عمر کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا، جو اُن کیلئے بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔
ہم یہاں طنزاً نہیں بلکہ سنجیدگی سے کہنا چاہ رہے ہیں کہ حکومت نے کاغذات کی درستگی کیلئے جو پیمانہ مقرر کیا ہے، اس پیمانے پر اہم شخصیات کے ’کاغذات‘ بھی پورے نہیں اُترسکیں گے۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک بینک میں جانا ہوا جہاں ایک پڑھا لکھا نوجوان بینک منیجر سے اُلجھا ہوا تھا۔ بینک نے اس کا ایک چیک واپس کردیا تھا جس میں اس نوجوان کے نام میں اِملے کی ایک معمولی سی تبدیلی تھی۔ اُس نوجوان کے والد کا نام ’پردیپ ‘ تھا جو بینک کے ریکارڈ کے مطابق ’ڈبل ای‘ سے لکھا ہوا تھا لیکن اس چیک میں پردیپ ’آئی‘ سے لکھا ہوا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے حالات سے ہم میں سے بیشتر لوگ کسی نہ کسی موقع پر دوچار ہوئے ہوں گے۔
یہ دیکھنے کیلئے کہ اہم شخصیات کے نام کے اِملوں میں کتنا تضاد ہے، ہم نے کچھ ناموں کے بارے میں ’گوگل‘ کی مدد سے جاننے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے ہم نے وزیراعظم مودی کا نام سرچ کیا۔ ’پی ایم انڈیا‘ اور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے ویب سائٹ پر ہندی میں نریندر مودی کے نام الگ الگ طرح سے لکھے ہوئے دکھائی دیئے۔ اسی طرح ’وِکی پیڈیا‘ پر بھی ہندی میں الگ اِملے سے سابقہ پڑا۔ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کے نام کے ہندی اِملا میں بھی فرق دکھائی دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اُن کے محکموں ہی نے الگ الگ اِملوں کے ساتھ ان کا نام لکھا ہے۔ اردو اور ہندی میں انہیں ’سیتا رمن‘ اورانگریزی میں ’سیتھا رمن‘ لکھا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے نام کے اِملے میں بھی کافی تضاد ہے۔ ہندی میں واجپئی میں ایک جگہ ’ای‘ سے، ایک جگہ ’یا‘ سے اور ایک جگہ ’و‘ کی جگہ ’با‘ لکھ کر واجپئی کو ’باجپئی‘ لکھا گیا ہے۔ ہندوستانی ادب کے واحد نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے نام کہیں ’ رابندر‘ لکھے گئے ہیں تو کہیں ’رویندر‘۔ ا یسا ہندی اور انگریزی دونوں میں ہے۔ اسی طرح مشہور ہدایتکار کہیں ’بمل رائے‘ ہیں تو کہیں ’وِمل رائے‘۔ بی جےپی لیڈر سبرامنیم سوامی کو انگریزی میں ’سبرامنین‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ خواص کی صورتحال ہے، ایسے میں عوام کے ناموں کے املے میں کتنا تضاد ہوگا، ہم آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرد کی پہچان کیلئے حکومت کی پالیسیوں میں ’اِملے‘ پر اتنا زور کیوں ؟آج بہار میں ’جیسے تیسے‘کرکے ’خصوصی نظر ثانی‘ مہم تومکمل کرلی گئی لیکن اگر یہ پیمانہ باقی رہا تو کیا آئندہ ریاستوں میں اس کا اطلاق نہیں ہوگا؟ حکومت کو چاہئے کہ انتخابی فہرست پر ’نظر ثانی‘ کے بجائے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ملک کے عوام کو اس بحران سے باہر نکالے۔