Inquilab Logo Happiest Places to Work

راجندر کرشن کی شخصیت، شاعری، نغمہ نگاری اور ’انشاء‘ کا خصوصی شمارہ

Updated: July 28, 2024, 3:08 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

ہندی فلموں کے بے شمار گیت، جن میں آج بھی اُردو کا طوطی بولتا ہے، ہر دور میں اہل وطن کے اجتماعی حافظے کا حصہ رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہندی فلموں کے بے شمار گیت، جن میں آج بھی اُردو کا طوطی بولتا ہے، ہر دور میں اہل وطن کے اجتماعی حافظے کا حصہ رہے ہیں۔ چمچماتی کار میں سفر کرنے والے لوگ ہوں یا دکانوں، کارخانوں، دستکاری کے مراکز یا عمارتوں کے پہریدار، کوئی دن نہیں جاتا جب عوام و خواص اِن نغمات سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ راستہ چلتے وقت بھی کسی نہ کسی گوشہ سے کوئی مکھڑا سماعت سے ٹکرا ہی جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ ہندی فلمی گیت ہندوستانی معاشرہ کا اٹوٹ حصہ ہیں، شائقین کیلئے یہ نہ ہوں تو زندگی میں عجیب و غریب خلاء محسوس ہو۔ 
 بولتی فلموں کے آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں فلموں کیلئے لاکھوں گیت لکھے گئے، ان میں بے شمار ایسے ہیں کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ ہے۔ زمانہ بدل سکتا ہے، حالات بدل سکتے ہیں، جذبہ و احساس نہیں بدلتے۔ تنہائی آج سے پچاس سال پہلے بھی تنہائی تھی، ملاقات کی خوشی اور جدائی کی کیفیت بھی جیسی کل تھی، ویسی ہی آج بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ تیس سال پہلے کا نغمہ ہو یا پچاس ساٹھ سال پہلے کا، آج بھی معنویت سے پُر ہے، معنویت سے خالی نہیں ہوسکا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نہرو سینٹر ممبئی میں ’شامِ افسانہ‘

ان نغمات کی سحر انگیزی کے تین اہم اسباب ہیں : شاعری، موسیقی اور گائیکی۔ ان تین شعبوں میں کمالِ فن کی مساوی شرکت سے ایسے نغمے معرض وجود میں آئے کہ جنہیں گردش زمانہ مات نہیں دے سکی۔ یہ موقع نہیں کہ موسیقاروں اور گلوکاروں کی بھی بات کی جائے۔ صرف نغمہ نگاروں او راُن کے فنی محاسن کا اجمالی تذکرہ بھی ممکن نہیں، اسلئے صرف ایک نغمہ نگار کی بابت چند باتیں عرض کی جارہی ہیں۔ 
 ایک ہی نغمہ نگار کیوں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ نغمہ نگار راجندر کرشن پر کولکاتا (مغربی بنگال) سے نکلنے والے ادبی جریدہ ’’اِنشاء‘‘ نے بے حد معلومات افزاء خاص شمارہ مرتب کیا جو اس تحریر کا محرک بنا۔ اس شمارہ کی اشاعت کو کم و بیش ڈیڑھ سال گزر چکا ہے مگر آج بھی یہ اس قابل ہے کہ اس کا تذکرہ کیا جائے کیونکہ ایسا کوئی ادبی جریدہ اس مضمون نگار کی نظر سے نہیں گزرا جس نے اس نوع کا شمارہ مرتب کیا ہو۔ کئی نامور اور ممتاز رسائل کے درجنوں خاص شمارے آئے، ایک سے بڑھ کر ایک آئے، ضخیم سےضخیم تر آئے مگر یہ ’’انشاء‘‘ ہی کا کارنامہ ہے کہ اس کے مدیر ف س اعجاز نے بڑی دقت ِنظر کے ساتھ راجندر کرشن کے لکھے گیتوں اور اُن سے متعلق تفصیل کو یکجا کیا اور اس خاص شمارہ کو دستاویزی حیثیت عطا کردی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ابن صفی کی تحریروں میں قاری کی دل بستگی کا سامان ہی نہیں ایک پیغام بھی ہوتا تھا

 واضح ر ہے کہ۳۸؍ سال سے جاری ’’انشاء‘‘ اب تک کئی خصوصی شمارے شائع کرچکا ہے مثلاً رومی نمبر، خسرو درپن، ٹیگور نمبر، نیاز فتحپوری نمبر، دلیپ سنگھ نمبر، گلزار نمبر، گوپی چند نارنگ نمبر اور دیگر۔ ان میں سے ہر شمارہ مشمولات کے اعتبار سے بھی خاص ہے۔ زیر بحث شمارہ اسلئے بھی دستاویزی ہے کہ اس میں راجندر کرشن سے متعلق بہت سی ایسی معلومات یکجا کی گئی ہیں جو کسی دیگر ذریعہ سے مل بھی جائیں تو ان کی حیثیت مشکوک ہوگی کیونکہ ان پر کسی نے تحقیق نہیں کی۔ ’’انشاء‘‘ کے مدیر ف س اعجاز کا کہنا ہے کہ ’’بڑی کاوش اور جستجو سے یہ خزانہ اکٹھا ہوسکا ہے، یکجا تو کہیں ایک فلم کے گانے بھی نہیں ہیں، پھر انٹرنیٹ پر بہت سے گانوں کا متن غلط ملتا ہے، کہیں ایک طرح تو کہیں دوسری طرح درج ہے، یا کئی جگہ ادھورا ہے لہٰذا مشکوک متن کی صحت درست کرنے کیلئے کئی گیتوں کو بارہا خود سننے کی نوبت آپڑی۔ ‘‘ یہ الفاظ اس شمارہ پر کی گئی تحقیقی مشقت کے غماز ہیں۔ 
 شامل ِ اشاعت نغمات پر آنے سے پہلے بتادیں کہ اداریہ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ راجندر کرشن نے چالیس برس تک تسلسل اور کامیابی کے ساتھ ڈھائی سو سے زیادہ فلموں میں بارہ سو سے زائد نغمے لکھے ہیں۔ اس میں رشید انجم (بھوپال) کا مضمون بھی بے حد کارآمد ہے جس میں اُنہوں نے راجندر کرشن کی شخصیت، شاعری، نغمہ نگاری، مکالمہ نویسی اور جنوبی ہند کی فلموں سے وابستگی کو کچھ اس طرح اُجاگر کیا ہے کہ ’’صاحب ِ خاص شمارہ‘‘ کا بھرپور تعارف ہوجاتا ہے۔ ایک اور عمدہ مضمون مسز وَندنا کمار کا ہے جن کے اس خیال کی تائید کے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ ’’چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات ہے‘‘، ’’جاگ دردِ عشق جاگ‘‘، ’’من ڈولے میرا تن ڈولے‘‘ اور ’’اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آگیاہے‘‘ کو سن کر ہندی فلمی گیتوں کے شیدائی آج بھی جھوم اُٹھتے ہیں۔ مسز وَندنا کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ راجندر کرشن کی رشتے کی پَرنواسی ہیں۔ 
 مضامین کے حصے میں ف س اعجاز کے تحریر کردہ دو مضامین، جن پر اُتنی ہی عرق ریزی کی گئی ہے جتنی شمارہ کی ترتیب پر کی گئی، کے علاوہ امین سایانی، جمیل گلریز اور مدھولیکا لڈل کی تحریریں بھی خاصے کی ہیں۔ مدھولیکا نے اپنے پسندیدہ دس نغموں کا پس منظر بیان کیا ہے۔ اس فہرست کا پہلا نغمہ ہے: ’’یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لئے‘‘۔ مضامین کے بعد ’’چاند جانے کہاں کھوگیا‘‘ کے عنوان سے ۱۸۹؍ نغمے فلم کا نام، سِنِ نمائش اور موسیقار و گلوکار کے ناموں کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ ’’انشاء‘‘ کا پتہ اور فون نمبر:
25-B, Zakaria Street, Kolkata-700073
Phone: 9830483810

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK