پاکستان، ہندوستان سے کئی گنا زیادہ کمزور ہے۔ ایک بار جب وہ جان لیں کہ ہندوستان نے اپنا دفاعی گیئر ’’دفاعی جرم‘‘ سے ’’جارحانہ موڈ‘‘ کی جانب موڑ دیا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہے۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 11:57 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
پاکستان، ہندوستان سے کئی گنا زیادہ کمزور ہے۔ ایک بار جب وہ جان لیں کہ ہندوستان نے اپنا دفاعی گیئر ’’دفاعی جرم‘‘ سے ’’جارحانہ موڈ‘‘ کی جانب موڑ دیا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہے۔
ہندوستان کی دفاعی منصوبہ بندی کمیٹی ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو قائم کی گئی تھی جس کی صدارت قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے کی۔ اس میں خارجہ سیکریٹری، ڈیفنس سیکریٹری، چیف آف ڈیفنس اسٹاف، تینوں فوجی سربراہان اور وزارت خزانہ کے سیکریٹریز شامل تھے۔ اس نے اپنے لئے بہت سے کام مقرر کئے جن میں قومی دفاع اور سلامتی، خارجہ پالیسی کے تقاضے، آپریشنل ہدایات اور متعلقہ ضروریات، متعلقہ اسٹریٹجک اور سیکوریٹی سے متعلق نظریے، دفاعی حصول اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبے، قومی سلامتی کی حکمت عملی، اسٹریٹجک دفاعی جائزہ اور نظریے، بین الاقوامی دفاعی مشغولیت کی حکمت عملی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کا اجلاس ۳؍ مئی ۲۰۱۸ء کو ہوا تھا، اس کے بعد ان کی کبھی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ قومی سلامتی کے نظریے کی عدم موجودگی میں ہندوستان نے غالباً اس پر انحصار کیا ہے جسے غیر رسمی طور پر ’’ڈوبھال نظریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ غالباً اب تک شائع نہیں ہوا ہے لیکن ویڈیوز کی شکل میں موجود ہے۔ فروری ۲۰۱۴ء میں انہیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کئے جانے سے چند ہفتے پہلے ڈوبھال نے تنجاور کی ساسترا یونیورسٹی میں خطاب کیا۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا:
’’دہشت گردی ہندوستان کیلئے ایک اسٹریٹجک خطرہ تھا۔ یہ بین الاقوامی سطح پر بڑا مسئلہ تھا۔ پاکستان نے اسے فروغ دیا۔ تاہم، دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ ایک خیال تھا، ایک لفظ تھا۔ دہشت گردوں سے لڑا جا سکتا ہے کیونکہ ایک ٹھوس دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، لیکن ایک لفظ کو نہیں۔ اس طرح ہندوستان کو دہشت گردی معاملے میں پاکستان کو خطرہ بتانا پڑا۔ ‘‘ دشمن کی شناخت کے بعد، ڈوبھال نے سوال پوچھا کہ ’’آپ پاکستان سے کیسے نمٹیں گے؟‘‘ اور پھر وضاحت کی کہ،
’’ہندوستان کی قومی سلامتی کی حکمت عملی اس لئے تھی کہ اسے پاکستان کی ذیلی جنگ (سرحد پار دہشت گردی اور عسکریت پسندی) اور جوہری ہتھیاروں سے خطرہ تھا جس کا جواب ملٹری سے نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ‘‘ ڈوبھال نے کہا، ’’مَیں نے ان کی جوہری حد، اسٹریٹجک ہتھیاروں کے نظام، میزائل، چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے بارے میں بات کی۔ ہم اس سے کیسے نمٹتے ہیں ؟‘‘
یہ آسان تھا۔ انہوں نے کہا، ’’تمہیں معلوم ہے کہ ہم تین طریقوں سے دشمن سے نمٹتے ہیں۔ ایک ’’دفاعی موڈ‘‘ ہے، یعنی چوکیدار اور چپراسی، کہ اگر کوئی یہاں آیا تو ہم اسے (داخل ہونے سے) روکیں گے۔ ایک ’’دفاعی جرم‘‘ ہے۔ اپنے دفاع کیلئے ہم اس جگہ جائیں گے جہاں سے جرم ہورہا ہے۔ تیسرا ’’جارحانہ موڈ‘‘ ہے جہاں آپ سیدھا حملہ کرتے ہیں۔ جارحانہ موڈ میں جوہری حد مشکل ہے، لیکن دفاعی جرم میں نہیں۔ ‘‘ اس وقت انہوں نے کہا، جس کا مطلب ہے کہ منموہن سنگھ کی حکومت میں، ’’ہم صرف دفاعی انداز میں کام کرتے ہیں۔ ‘‘ وہ جو تجویز کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ ہندوستان روایتی جنگ نہ کرے بلکہ مختلف طریقوں سے پاکستان پر حملہ کرے۔
ان کے الفاظ میں : ’’پاکستان کی کمزوری پر کام کرنا چاہئے۔ یہ معیشت ہو سکتی ہے، داخلی سلامتی ہو سکتی ہے، یہ سیاست ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کردینا بھی ایک حکمت عملی ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جا رہا ہوں۔ لیکن آپ دفاعی انداز سے بہت سی چیزوں کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ایسا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جارحانہ انداز ترک کر دیا گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ جوہری حد تک بڑھنے پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ اسی طرح، اس کیلئےدفاعی انداز بے کار تھا۔ ‘‘
ڈوبھال نے کہا کہ ’’تم مجھ پر سو پتھر پھینکو، میں نوے کو روکتا ہوں لیکن دس پھر بھی مجھے تکلیف دیتے ہیں۔ میں کبھی نہیں جیت سکتا۔ یا تو میں ہار جاؤں یا پھر تعطل ہوجائے۔ آپ اپنے وقت پر جنگ شروع کرتے ہیں، جو چاہتے ہیں پھینک مارتے ہیں، جب آپ چاہتے ہیں بات کرتے ہیں، جب آپ چاہتے ہیں امن کی بات کرتے ہیں۔ دفاعی جرم میں توازن کہاں ہوتا ہے؟ پاکستان، ہندوستان سے کئی گنا زیادہ کمزور ہے۔ ایک بار جب وہ جان لیں کہ ہندوستان نے اپنا دفاعی گیئر دفاعی جرم سے جارحانہ موڈ کی جانب موڑ دیا ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ آپ ممبئی میں حملہ کرواسکتے ہیں مگر بلوچستان کھو سکتے ہیں۔ یہ سب بغیر ایٹمی جنگ کے ہوا ہے۔ اس میں فوج بھی شامل نہیں ہے۔ اگر آپ شطرنج کی بساط بچھاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ہم آپ سے بہتر چالیں جانتے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے بات جاری رکھی: ’’ہماری واحد مشکل یہ ہے کہ ہم دفاعی انداز میں تھے۔ اگر ہم جارح موڈ میں ہوتے تو ہم اس جانی نقصان کو کم کر سکتے تھے جو ہمیں برداشت کرنا پڑا ہے۔ ‘‘ یہ تھا ڈوبھال کا نظریہ جس نے ہندوستان کے اسٹریٹجک خطرے کو پاکستان سے دہشت گردی کے طور پر پیش کیا، اور اس کا جواب دشمن کے ساتھ وہی کرنا تھا جو آپ کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس غیر تحریری نظریے کو حکومت نے اپنایا تھا، لیکن این ایس اے کے طور پر ڈوبھال کا ایک دہائی پر مشتمل کریئر کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اثر و رسوخ زبردست تھا۔
۲۰۲۰ء میں ہندوستان کو دوسرے محاذ پر ایک چیلنج کا سامنا تھا۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سابق جنرل پرکاش مینن نے نوٹ کیا کہ ’’کئی دہائیوں سے فوج کیلئے ہندوستان کی سیاسی رہنمائی فوری خطرے کے طور پر پاکستان کی طرف مرکوز رہی تھی۔ لیکن اب جبکہ چینی دھمکی دہلیز پر تھی، اس کو بدلنا ہوگا۔ فوج کے ذریعے حاصل کئے جانے والے سیاسی مقاصد ایک دستاویز میں موجود ہیں جسے ’’رکشا منتری کی ہدایت‘‘ کہا جاتا ہے (جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلح افواج کو تصادم کی توقع میں کتنا گولہ بارود اور اسپیئرز کو ذخیرہ کرنا چاہئے)۔ اسے یو پی اے کے تحت تیار کیا گیا تھا۔ اس ہدایت پر جنرل مینن نے کہا، ’’ایک مربوط قومی سلامتی کی حکمت عملی کی کمی کی وجہ سے یہ فقدان جاری ہے۔ این ایس اے کی سربراہی میں دفاعی منصوبہ بندی کمیٹی کو دو سال قبل یہ کام سونپا گیا تھا۔ ابھی تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ ‘‘ یہ ۲۰۲۰ء میں ہوا تھا۔ پہلگام کے بعد صورتحال ایک بار پھر مغربی محاذ کی طرف بڑھ گئی ہے۔ اب چین کے ساتھ تصادم کو پانچ سال اور ڈیفنس پلاننگ کمیٹی کی تشکیل کو ۷؍ سال ہو چکے ہیں۔ شاید حالیہ واقعات حکومت کو قومی سلامتی کا نظریہ پیش کرنے کی ترغیب دیں گے جس کی بنیاد پر ہم اس وقت کارروائی کرسکتے ہیں جب ہم پر حملہ ہوتا ہے چاہے وہ روایتی طور پر ہو یا دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے۔