Inquilab Logo

سرمایہ کار ناخوش، صارفین فکرمند

Updated: January 09, 2023, 3:27 PM IST | MUMBAI

فنانشیل ٹائمس (۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء) میں ’’ہندوستانی معیشت: نریندر مودی کیلئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انڈیا بُلس ہاؤسنگ فنانس کے وائس چیئرمین گگن بنگا کا بیان نقل کیا گیا تھا کہ ’’آج ایسی صورت حال ہے کہ کاروباری اور تجارتی طبقہ سرمایہ نہیں لگانا چاہتا، صارفین بلاتردد اور بلاتکلف خرچ نہیں کرنا چاہتے اور قرض دینے والے لوگ اور ادارے (لینڈرس) تاجروں، کاروباریوں اور صارفین کو قرض نہیں دینا چاہتے کیونکہ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ پیسہ پھنس جائے گا۔‘‘

`Indian Economy`; Photo: INN
’ہندوستانی معیشت ;تصویر:آئی این این

فنانشیل ٹائمس (۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء) میں ’’ہندوستانی معیشت: نریندر مودی کیلئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انڈیا بُلس ہاؤسنگ فنانس کے وائس چیئرمین گگن بنگا کا بیان نقل کیا گیا تھا کہ ’’آج ایسی صورت حال ہے کہ کاروباری اور تجارتی طبقہ سرمایہ نہیں لگانا چاہتا، صارفین بلاتردد اور بلاتکلف خرچ نہیں کرنا چاہتے اور قرض دینے والے لوگ اور ادارے (لینڈرس) تاجروں، کاروباریوں اور صارفین کو قرض نہیں دینا چاہتے کیونکہ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ پیسہ پھنس جائے گا۔‘‘ 
 آج کم و بیش چار سال بعد کی صورت حال کیا ہے؟ ایکسس مائی انڈیا کنزیمور سینٹیمنٹ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ۱۶؍ فیصد لوگ اس سال کسی جگہ سرمایہ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ۷۸؍ فیصد کی کوئی تیاری یا پلاننگ نہیں ہے۔ اگر اس سروے کو کسی قابل سمجھا جائے تو یہ کہنے میں تردد نہیں ہوسکتا کہ ملک کے معاشی حالات کے تئیں بے دلی اور بے کیفی کم نہیں ہو رہی ہے۔ اس میں لوگوں کا قصور نہیں ہے۔ قصور اُن معاشی حالات کا ہے جن کے سبب اعتماد کی بحالی کا راستہ دشوار  ہے۔ جو لوگ سرمایہ لگانے کے خواہشمند ہیں اُن میں بھی ۳۴؍ فیصد وہ ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کو اولیت دیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا یقیناً فال نیک ہے مگر اس سے بھی معیشت کے تئیں اعتماد کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔ جن کے پاس پیسہ ہے وہ اُسے تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع میں لگا کر مزید کمانے کے فراق میں نہیں ہیں کیونکہ اُنہیں منافع کا امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے البتہ وہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرکے اُن کا مستقبل محفوظ کردینا چاہتے ہیں۔ یہ ہوئی اُن لوگوں کی بات جن کے پاس خاطرخواہ پیسہ ہے اور اگر اکنامی کی حالت بہتر ہوتی تو اُن کی ایک ترجیح سرمایہ لگانے، منافع کمانے اور دولت بڑھانے کی ہوتی۔ 
 آر بی آئی کے کنزیومر کانفیڈنس سروے بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ اس سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’’ایسپیریشنل انڈیا‘‘  اب بھی گلاس کو آدھا خالی دیکھ رہا ہے۔ اس سروے کے مطابق، جو ہر دو ماہ پر جاری ہوتا ہے اور رواں مالی سال کا آخری ہے، ہندوستانی عوام میں جن کے پاس پیسہ ہے اُنہیں بھی خرچ میں تامل ہے۔ اس سے کیا ہوگا؟ اگر صارفین کا اعتماد بحال نہیں ہوگا تو وہ اشیاء کی خریداری کو ٹالتے رہیں گے چنانچہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی اور ڈیمانڈکو پورا کرنے کیلئے سپلائی نہیں بڑھے گی چنانچہ پروڈکشن متاثر رہے گا اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہی رہیں گے، ان میں اضافہ نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ صارفین موجودہ معاشی حالات کے تعلق سے اُتنے فکرمند نہیں ہیں جتنا کہ وہ ۲۰۲۲ء کے اوائل میں تھے مگر اُن کی فکرمندی کو جس حد تک کم ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہوئی ہے۔ کرنٹ سچویشن انڈیکس ۸۳ء۵؍ ہے اور ۱۰۰؍ کے نیچے جو بھی عدد ہو اُسے منفی علاقہ (نگیٹیو ایریا) ہی مانا جاتا ہے۔ 
 موجودہ معاشی صورت حال کیسی ہے اس سوال کے جواب میں ۵۵ء۷؍ فیصد نے جواب دیا کہ خراب ہے۔ جنوری ۲۰۲۲ء میں اُس وقت کی معاشی صورت حال پر تبصرہ کرنے والوں کی تعداد ۶۶ء۷؍ فیصد تھی۔ ظاہر ہے کہ عدم اطمینان کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے مگر اتنی نہیں کہ اسے خوش خبری تصور کیا جائے۔ اب بھی یہ تعداد نصف سے زیادہ ہے۔ہم نہیں جانتے کہ حکومت حالات کو سنوارنے کیلئے کیا کرنا چاہتی ہے۔ کچھ معلوم ہو توکوئی تبصرہ بھی کیا جائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK