عبادت گاہ، گھر یا بستی کسی کی بھی ہو اور وہ سرحد کے ادھر ہو یا ادھر اس کو اجاڑ دینا یا اس پر کسی طرح کا حملہ کرنا جائز کہا ہی نہیں جاسکتا۔ پیشاور کے پولیس ہیڈ کوارٹر کی مسجد پر حملہ مزید قابل مذمت ہے کہ تباہی لانے والے اسی مذہب کے ماننے کے مدعی تھے جس مذہب کی مسجد تھی اور جس پر حملہ کیا گیا تھا۔
سویڈن میں قرآن حکیم کے نذر آتش کئے جانے اور پاکستان میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کے احاطے میں شدید نگرانی اور پہرے میں رہنے والی مسجد میں خود کش حملے کی مذمت مہذب انسانی دنیا میں ہر شخص نے کی ہے اور کی بھی جانی چاہئے تھی مگر اس مضمون میں پاکستان کی مسجد پر ہوئے خود کش حملے کے بارے میں چند بیانات کا تجزیہ مقصود ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم پاکستان کے وزیر دفاع کا یہ بیان ہے کہ نماز پڑھتے یا پوجا کرتے لوگوں پر حملہ تو کہیں بھی نہیں کیا جاتا مگر پاکستان میں اب یہ بھی ہونے لگا ہے۔ وزیر دفاع نے یہ الفاظ کہیں اور نہیں، پاکستان کی پارلیمنٹ میں کہے۔ انہوں نے اس بیان میں جہاں یہ کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے وہیں یہ بھی تسلیم کیا کہ ماضی میں جس قسم کی پالیسی کے تحت مجاہدین پیدا کئے گئے ہیں وہ اب ’دہشت گرد‘ بن گئے ہیں۔ پڑوسی ملک کے وزیر دفاع نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ میں منتخب اراکین کے سامنے جو بیان دیا ہے بظاہر وہی اس ملک کی آئینی حکومت کا ترجمان ہے۔ کیا اس بیان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان کے وزیر دفاع نے ایک طرح سے اقبالِ جرم بھی کیا ہے اور اظہارِ تاسف بھی کہ ماضی میں ان کے ملک نے جس قسم کی خارجہ پالیسی فروغ دی تھی اب وہ اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اس بیان میں جہاں یہ تجسس ہے کہ مجاہد اور دہشت گرد میں کیسے فرق کریں؟ وہیں ان کی حکومت کی بے بسی بھی جھلکتی ہے۔
پاکستان نے ایک عرصے تک جس قسم کے عناصر کی ذہن سازی کی، تربیت دی، مسلح کیا اور پھر اپنے بنائے ہوئے ہدف تک پہنچنے کی ترغیب دی اس نے انہیں بے لگام بنا دیا ہے۔ اس مسئلہ پر ان دو متضاد بیانات سے بھی روشنی پڑتی ہے جو تحریک طالبانِ پاکستان کے دو الگ الگ لوگوں نے دیئے ہیں۔ پہلا بیان ایک طالبانی کمانڈر نے دیا کہ عمر خالد خراسانی کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ حملہ کیا گیا تھا۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ جس مسجد پر شدت کا حملہ ہوا تھا اور جس میں سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے وہ پولیس فورس کا حوصلہ توڑنے یا ان میں خوف پیدا کرنے کیلئے ہی کیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں پولیس کے ۹۷؍ کے مختلف عہدیداروں کا شامل ہونا محض اتفاق نہیں ہے۔ مگر اس بیان کے برعکس تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے بیان دیا کہ مسجدوں یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ جن لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس اعلان سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان متحد اور ہم زبان نہیں ہے بلکہ ان میں گروہ بندی اور نظریاتی یا طریقۂ کار کا اختلاف ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو ہوا وہ آخری واقعہ یا سانحہ نہیں ہے بلکہ یہ خونیں کھیل آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اختلاف کی بات پہلے بھی سامنے آچکی ہے وہ یوں کہ تحریک طالبان سے وابستہ افغانوں کا موقف اور طریقۂ کار بھی الگ ہے۔ جو احناف ہیں ان کا الگ جو اس تحریک میں کہیں اور سے آکر شامل ہوئے ہیں ان کا الگ۔ مثال کے طور پر افغانستان کے پرانے لوگوں کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنے مردوں کو دفن کرنے کے بعد قبر کے گرد چھوٹی اینٹ سے گھیرا بندی کردیتے تھے، بعد میںطالبان میں جن لوگوں کو رسوخ حاصل ہوا یا جو اس کی قیادت کا حصہ بنے انہوں نے اس عمل کو بھی شرک سے تعبیر کیا۔ اس لئے کیا افغانستان اور کیا پاکستان ہر جگہ طالبان سے ایسے اعمال منسوب کئے گئے جن سے ان کاایک طبقہ انکار کرتا تھا۔ پشاور میں واقع ہیڈ کوارٹرز کے احاطے کی مسجد میں ہوئے حملے کی ذمہ داری لینے والے ایک کمانڈر کے بیان سے بھی طالبان کے ترجمان نے نہ صرف دوری اختیار کی بلکہ جن لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔
خیر یہ مقصود نہیں ہے کہ افغان اور پاک طالبان کے مزاج و نظریے کا فرق واضح کیا جائے، بتانا یہ مقصود ہے کہ کمانڈر اور طالبان ترجمان کے بیان میں جو تضاد ہے اس کی بنیاد بہت گہری ہے۔ اسی لئے طالبان ترجمان نے سزا دینے اور پاک وزیر دفاع نے اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے میرا یہ پوچھنا ضروری ہے کہ پاکستان حکومت کی مرضی سے، طالبان کی متحدہ حکمت عملی کے تحت یا الگ الگ گروہوں کی اپنی حکمت کے تحت ہندوستان پر حملہ تو ہوتا رہا ہے مگر پاکستان کے کسی وزیر یا وزیر اعظم نے ہندوستان کے احتجاج کے بعد اس سے پہلے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے؟ بہرحال پاک وزیر دفاع اور طالبان ترجمان نے جو کہا ہے اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ہندوستان کا بار بار احتجاج کرنا یونہی نہیں ہے اس کی مضبوط بنیادیں موجود ہیں اور اب دنیا کو پاکستان کے وزیر دفاع اور تحریک طالبان کے ترجمان کے بیانات کی روشنی میں ان مضبوط بنیادوں کو دیکھنا اور سمجھنا مزید ضروری ہوگیا ہے۔
عبادت گاہ، گھر یا بستی کسی کی بھی ہو اور وہ سرحد کے ادھر ہو یا ادھر اس کو اجاڑ دینا یا اس پر کسی طرح کا حملہ کرنا جائز کہا ہی نہیں جاسکتا۔ پشاور کے پولیس ہیڈ کوارٹر کی مسجد پر حملہ مزید قابل مذمت ہے کہ تباہی لانے والے اسی مذہب کے ماننے کے مدعی تھے جس مذہب کی مسجد تھی اور جس پر حملہ کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزیر دفاع نے اپنے بیان میں جسے اقبالِ جرم یا اعترافِ گناہ کہنا زیادہ مناسب ہے اپنے مجاہدوں کے دہشت گرد بن جانے کی بات کہی ہے۔ شاید اس لئے کہ اب ان کی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ جن طریقوں اور حربوں کو انہوں نے اپنے پڑوسی ملک میں دہشت پھیلانے اور بشمول شہریوں کے افواج کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کیا تھا وہ پہلے ان کی بدنامی کا سبب بنا اور اب انہیں کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ جب جان پر آپڑی تو ان کو مجاہد اور دہشت گرد کا فرق بھی نظر آرہا ہے۔ مگر اب بھی پاکستانی وزیر دفاع اور ان کے ہم نوا بھول رہے ہیں کہ بے گناہوں کے قتل اور پرامن بستیوں پر بمباری یا گولیوں کی بوچھار کرنے پر انہوں نے لوگوں کو متعین کر رکھا تھا وہ مجاہد نہیں دہشت گرد تھے۔ یہ سب پڑوسی ملک کی نیت کا فتور ہے۔ نیت کے فتور نے ہی ان کو بدلے ہوئے نام سے دہشت گرد پالنے پر آمادہ کیا۔ لیکن جب نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوا اور ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ تو وہ چیخ پڑے۔ یہ تو ہونا ہی تھا نیم کا پیڑ لگا کر آم کی توقع تو کی ہی نہیں جاسکتی ت