؍۵ رو ز بعد بھی پولیس کو کوئی سراغ نہیں ملا، گتھی سلجھی نہیں ، مزید الجھ گئی۔ ایک اہلکار کے مطابق مسجد کی چھت گرنے کی وجہ سےملبہ سے شواہدجمع کرنے میں تاخیر ہورہی ہے
پشاور پولیس لائنز مسجد میں دہشت گردانہ کے حملے کو۵؍ دن گزر گئے مگرجمعرا ت کو خبر لکھے جانے تک اس کی گتھی نہیں سلجھ پائی بلکہ مزید الجھتی جا رہی ہے۔۳۰؍ جنوری کو ہونے والے دھماکے کے بعد ٹی ٹی پی مہمند گروپ کی جانب سے ذمہ داری قبول کی گئی اور اسے کمانڈر عمر خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ قرار دیا گیا مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے بیان جاری کر کے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ حملہ کس نے کیا؟ قبل ازیں انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کی پھر انکار کیا مگر یہ کالعدم تنظیمیں جو کام نہیں کرتیں وہ قبول کر لیتی ہیں اور جو کیا ہوتا ہے اس سے انکار کر دیتی ہیں۔ہمارے اندازے کے مطابق اس حملے میں جماعت الاحرار ملوث ہو سکتی ہے۔
آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز کے اندر مختلف دفاتر موجود ہیں جہاں روزانہ سیکڑوں سائلین اور مہمان آتے ہیں۔ پولیس لائن میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔ہوسکتا ہے کہ بارود تھوڑا تھوڑا کر کے اندر لایا گیا ہو۔ ہم تمام پہلوؤں کا باریکی بینی سے جائزہ لے رہے ہیں لیکن سیکوریٹی چوک کی تفتیش بھی کی جا رہی ہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور تھا جس کے ڈی این سے ٹیسٹ کیلئے بھجوا دیا گیا ہے، بارودی مادہ ۱۰؍ سے۱۲؍ کلوگرام ہو سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دھماکے کی وجہ سے چھت گری جس سے نقصان زیادہ ہوا۔
ادھر پولیس لائنز مسجد دھماکے سے بم ڈسپوزل یونٹ نے رپورٹ پولیس حکام کو ارسال کر دی ہے جس میں دھماکے کو خود کش قرار دیا گیا۔ اسی دوران ایک اہلکار نے بتایا کہ چھت گرنے کی وجہ سے ملبہ سے شواہد جمع کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔