Inquilab Logo Happiest Places to Work

ارتضیٰ کی شاعری ہماری بے حسی پر بار بار پلٹ کر وار کرتی ہے

Updated: August 27, 2023, 6:26 PM IST | Atiqullah | Mumbai

اس جیالے شاعر کیلئے زندگی یا اس کی اقدار یا لفظ کا عمل کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ سب اس کے تخیل کی مِلک اور حواسی تجربے کا حصہ ہے۔

Irtiza Nishat. Photo. INN
ارتضیٰ نشاط۔ تصویر:آئی این این

اردو معاشرے کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ اگر آپ تخلیقی فن کار ہیں تو پورے ایک منصوبے کے تحت آپ کو مختلف طریقوں سے، بار باراچھی بُری تحریروں سے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ضروری ہے۔ اچھی بُری اس لئے کہ لوگ عموماً نام پڑھتے ہیں تحریر میں صرف جھانک کر دیکھنے ہی میں ان پر سارا کچھ القا ہوجاتا ہے اور پھر اچھی بُری جانچنے کی کسوٹی بھی ہر ایک کے پاس کہاں ہوتی ہے۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ ہے کہ ہمارے نقادوں کے قلم اپنے حلقہ بگوشوں کے لئے ہی تھرکتے ہیں ، جو لوگ میمنہ سے وابستہ ہیں نہ میسرہ سے اسیر۔ ان کے لئے بس صبر کی توفیق ہی کافی ہے حتیٰ کہ جن ٹٹ پونجی تبصرہ بازوں کے اِدھر اُدھر چیتھڑے نما رسائل میں مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ان میں بیشتر اپنے علاقے کے شاعروں اور افسانہ نگاروں یا اپنے حلقۂ احباب کا کوئی حوالہ تو ہوتا ہے۔ حلقے سے باہر نظر ڈالنے پر ان کی آنکھوں میں کھجلی چلنے لگتی ہے اور پیٹ میں بل پڑنے لگتا ہے۔ مجموعی طور پر تنقید دھوکے میں رکھنے کا کام بڑی خوبی اور بے حد اعتماد کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ ہم اس پر قدغن بھی نہیں لگا سکتے۔ ہمارے رسائل کی شکم پُری کے لئے غالباً بھرتی کی چیزیں بھی ناگزیر ہیں ، یوں بھی اچھا، بہتر یا بہترین لکھنے والو ں کا ہر دور میں قحط رہا ہے۔ زیادہ تر کمزور لکھنے والوں یا ’نان رائٹرس‘ کو سیاست، دربار داری اور تشہیربازی کے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں ، اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ بے چارے ارتضیٰ نشاط جیسے کم آمیز، اصول پسند، صبر و شکر بجا لانے والے لوگوں کی گنتی کس شمار قطار میں ۔ خود کہنا اور خود ہی کو سنانا ان کا روزمرّہ ہوتا ہے۔ جن کی سماعتیں بعض مخصوص آوازوں کے لئے محفوظ ہوں ان کے سامنے بین بجانے سے بھی کیا فائدہ۔
ارتضیٰ نشاط کے بارے میں بس یہ کہوں گا کہ وہ کچھ اور دوسرے جینوئن فن کاروں کی طرح اس دور کے لئے مِس فٹ ہیں ۔ اتنی عمریں گنوانے کے بعد بھی انہیں جینے کا سلیقہ نہیں آیا۔ نہ تو تعلق سازی سے انہیں کوئی رغبت نہ جھوٹی رفاقتوں پر ان کا ایقان، نہ مراسلت بازی کا انہیں شوق، نہ پاکستانی شعراء کی نقالی ان کا وطیرہ۔ کچھ کربلائی استعارے اپنی غزل میں ٹانکتے، کچھ چمکتی ہوئی فارسی تراکیب کا پیوند لگاتے، مقبولِ عام چند لفظی خوشوں اور مضامین کی رنگ آمیزی کو اپنا شعار بناتے تو کوئی ان کی طرف متوجہ بھی ہوتا۔ ایسی روکھی پھیکی، غیررسمی، بے تکلف، بلا خوف غزل کے تجربے کو کون التفات کے لائق سمجھے گا۔ جس طرح کی سیاسی بینش سے ان کی غزل تراوش کرتی ہے، جس بے ریائی کے ساتھ وہ زندگی سے بے دھڑک اور بے تحاشہ پیش آتی ہے، اندر اور باہر کے درمیان واقع ہونے والی ناآہنگیوں کو جس طور پر محسوساتی سانچے عطا کرتی ہے، ایک ایسی غزل جو متن اور سیاق یعنی Text and Context کو ایک دوسرے میں اس طور پر ضم کرتی ہے کہ دوئی کو قائم کرنے والی لکیرتک معدوم ہوجاتی ہے، اس نوع کی غزل کو ایک نیا معنی دینے کی کوشش سے عبارت سمجھنا چاہئے۔ ارتضیٰ نشاط کی شاعری محض لفظوں کا کھیل نہیں ہے حالانکہ وہ لفظوں سے بھی کھیلتے ہیں اور لفظوں سے وہی کھیل بھی سکتا ہے جو اس کھیل کے اصولوں سے واقف ہوتاہے تاہم محض لسانی ساخت پر علاحدہ سے بحث کا باب وا کرکے ہم ارتضیٰ نشاط کی شاعری کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کرسکتے کیونکہ جس متن میں سیاق مقدر ہے اور جس کا اندر اور باہر ایک دوسرے میں رچا بسا ہوا ہے اس کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں ۔
 شاعری میں لفظی اشکال پر بحث کرتے ہوئے تقریباً اسی ّ پچاسی برس پہلے ولیم ایمپسن نے ایک بے حد رُعب دار کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا Seven Types of Ambiguity ۔ ایمپسن نے شعری ابہام کی سات صورتیں بتائی تھیں حالانکہ ابہام کی وجوہ کے دائرے کو اور زیادہ وسیع کیا جاسکتا ہے تاہم اس نے جو تھیسس قائم کیا تھا اس کے دلائل کی منطق اور تجزیاتی طریقِ کار کو دادِ تحسین بھی خوب دی گئی، اس کے برعکس ایف آر لیوس اور ٹی ایس ایلیٹ جیسے اہم نقادوں نے اس کی تکنیکی پیچیدگی اور محض لفظی قماشات تک اپنی بحث کو محدود کرنے کے باعث اس کا مذاق بھی اڑایا۔ وجہ ظاہر ہے متن اور سیاق، لفظ و معنی، مواد و ہیئت کو جب بھی ایک دوسرے سے منقطع کرکے دیکھا جائے گا تو تنقید کے عمل کی ایسی صورت ہی متوقع ہوگی جو شاعری کو شاعری نہیں ، ریاضیات کے طور پر آنکتی ہے۔ جو بظاہر بے حد ذہانت آمیزی اور گہری سنجیدگی کا تاثر فراہم کرتی ہے۔ لیکن بہ باطن وہ کوری اور خالی ہوتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اس قسم کی تنقید کو Lemon-squeezer school of criticism یعنی تنقید کے لیموں نچوڑ دبستان سے تعبیر کیا ہے جس کیلئے انسانی قدر، بین الانفرادی جذبوں اور محسوساتی سانچوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
 ارتضیٰ نشاط کے لئے زندگی یا اس کی اقدار یا لفظ کا عمل کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں ان کے تخیل کی مِلک اور ان کے حواسی تجربے کا حصہ ہیں ۔ اسی لئے ان کے یہاں تجربے کی لخت لخت صورت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر شعر ایک جامع صورت میں نمو پاتا ہے۔ ایسی شاعری وہیں اپنے لئے جگہ بناتی ہے جہاں روایت کا خوف مانع نہیں آتا۔ جہاں چلن اور فیشن کی پروا نہیں ہوتی،جہاں شاعر تکلفاتِ شعری کو اپنی پناہ گاہ نہیں سمجھتا۔ اس قسم کی بےتکلف اور غیررسمی شاعری سچے اور محسوس تجربے کی شاعری کہلاتی ہے:
اُس نے میرا بازو کاٹا =اور اسی سے مجھ کو مارا
ساری رات کٹی الجھن میں 
خواب میں دیکھا خواب نہیں تھا
بھاپ ذرا سی گھاس سے نکلی=سورج شبنم کو لے ڈوبا
مگر اپنی آوازِ پا سے ہے خوف
زمیں رہ گزر دے رہی ہے مجھے
آنکھ رکھوا دوں گا اپنی بینک میں = دید کا امکان لگتا ہے مجھے
آدمی کو آج کے شہتوت کا پتہ سمجھ
جلد ہی ریشم کے کیڑے کی غذا ہوجائے گا
خدا کو بھی خیال آتا تو ہوگا=دکھائی کیوں نہیں دیتا اگر ہے
بے بٹن کُرتا سا دنیا رہ گئی=زندگی اک جین کی پتلون سی
ساتھ ہوں میں وقت کی رفتار کے
گھر کے آگے رُک رہی ہے ٹیکسی
پڑھ لیا بیوی نے نہرو پارک میں 
ڈائری دفتر میں رکھی رہ گئی
پھر بھری برسات نے نہلا دیا
آخری دیوار گھر کی گِر پڑی
 ارتضیٰ نشاط کی شاعری ایسی مثالوں سے بھری پُری ہے۔ وہ ہمیں حظ نہیں بخشتی، ہمارے لئے فرحت بخش لمحات مہیا نہیں کرتی اور نہ ہم انہیں خوش وقتی کا نمونہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہم شاعری سے عموماً جو توقع باندھتے چلے آرہے ہیں وہ اسے بے دردی سے رد کرتی ہے۔ ہماری بے چینیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ ہماری بے حسی پر بار بار پلٹ کر وار کرتی ہے کہ شاعری کا ایک کام ڈسٹرب کرنا بھی ہے مگر یہ خلل اندازی یا اضطراب کی کیفیت عرصۂ بسیط کو محیط نہیں ہوتی،اس کا اصل مقصود تو ہمیں اپنے باطن کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے جس سے ایک راہ شاعر کے جذبوں کی تفہیم تک جاتی ہے۔ پھر شاعر اکیلا نہیں رہ جاتا۔ ہماری شرکت اسے ایک قوت بخشتی ہے۔ ارتضیٰ نشاط کا مقصود بھی اصلاً شمولیت ہے۔ وہ شعر نہیں کہتے مکالمہ ادا کرتے ہیں ۔ اسی لئے ہمیں ان کی برافروختگی بھی اچھی لگتی ہے، ان کا شکوہ بھی محترم ہے، ان کی شاعری کا مزاحمانہ کردار بھی ہمیں عزیز ہے۔ جیسا کہ خود ایک جگہ کہتے ہیں :
یہ میری شاعری اور اس میں میرے کام کا حصّہ
کہ جیسے اک بھیانک خواب سے جھنجھوڑ دیتا ہوں 
 انہوں نے صرف اور صرف اپنے وقت کو زبان دی ہے۔ کڑوی، کسیلی، شدت آمیز زبان، جس کے لئے ہم اکثر اپنی سماعتوں کے باب وا رکھنے میں تامل کرتے ہیں :
یقیں ہے نام اُسی کا یقین آئے اگر
وہ جو خفیف سا وہم و گماں میں رہتا ہے
مرے وجود کو اپنے حصار کی ہے تلاش
یہ خواب کیوں مری نیندیں حرام کرتے ہیں 
ہمیشہ خودکشی کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں 
بس اپنے ہاتھ گردن میں پھنسا کر موڑ دیتا ہوں 
بڑی کوششوں سے جو حاصل کیا ہے
اسی سلسلے میں ہوئے رائیگاں ہم
کڑوے تمباکو کی بو‘ تو سونگھ چکے ہو
اب سرطان کی بیماری پر غور کرو گے
اٹھا لیتے ہیں سر پر آسماں سب = مگر ہم اپنے اندر چیختے ہیں 
حدیں ہی جاگنے سونے کی ختم کردی ہیں 
اسی کو نیند سمجھ لو کہ خواب جو کچھ بھی
سب مواقع مجھے مہیا ہیں = چیخ سکتا ہوں کان پھٹنے تک

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK