منٹو شناسی تک رسائی حاصل کرنے کیلئے عثمانی نے ایک دشوار گزار اور دقت طلب راستہ منتخب کیا تھا۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 3:09 PM IST | Muhammad Aslam Parvez | Mumbai
منٹو شناسی تک رسائی حاصل کرنے کیلئے عثمانی نے ایک دشوار گزار اور دقت طلب راستہ منتخب کیا تھا۔
منٹو کا ایک اسکیچ گاہے بگاہے اخبارات اور رسائل میں اس پر لکھے مضمون یا افسانے کے ساتھ شائع ہوتا رہتا ہے جس میں وہ ہاتھ میں پائپ لئے کچھ سوچ رہا ہے۔ منٹو پائپ پینے کا عادی تھا یا اس نے کبھی اس کا تجربہ کیا تھا، اس کا کوئی ٹھوس ثبوت، حوالہ یا اشارہ نہ منٹو کی تحریروں میں ملتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی…یہ اسکیچ اصل میں منٹو کی اس تصویر کا بدلایا بگڑا ہوا روپ ہے جس میں وہ ہاتھ میں قلم لئے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے۔ ستم ظریف آرٹسٹ کی قیاس آرائی کے کرشمے نے قلم کو پائپ میں بدل دیا۔ بس پھر کیا تھا پائپ چل نکلااور یہ اسکیچ اس قدر مقبول ہوا کہ گوگل سرچ انجن میں منٹو کے اسکیچ کا مطالبہ کرنے پر ایک ساتھ اس اسکیچ کے کئی ورژن ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ یہ تو خیر اسکیچ کی بات تھی کم و بیش اسی طرز کی لغزشیں منٹو کے متن کے ساتھ برسوں سے جاری و ساری ہیں ، جس کو درست کرنے کا خیال نہ تو منٹو کے کسی پبلشر کو آیا نہ اس پر دھڑلے سے مضامین لکھنے والے ناقدوں کو، نہ ہی ریسرچ اسکالروں کو…کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ پبلشروں کے لئے منٹو کی تحریریں ہمیشہ سے ہی ’کمائو پوت‘ ثابت ہوئی ہیں اور ’منٹو فروشی‘ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ خوداس کی زندگی میں پبلشر کتابوں کے جعلی ایڈیشن چھاپ چھاپ کر اس کے ’پینے‘ کے پیسے ’کھاتے‘ رہے۔ ناقدین، محققین اور پبلشروں کی خوش گمانیوں اور زود یقینیوں نے کاتبوں کی غلطیاں اور پروف ریڈروں کی ذہنی غیر حاضریاں جس سعادت مندی سے دہرائی ہیں، اس نے ایک متن سے دوسرے متن کی غلطیوں کے سلسلے کوچائنیز وسپر کھیل بناکر رکھ دیا ہے، جس میں کوئی ایک فقرہ مختلف راویوں کے ہونٹوں اور کانوں سے گزر تاہوا جب پلٹ کراپنے مرکز پر آتا ہے تو کچھ کا کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں منٹو کے جو کلیاتی مجموعے شائع ہوئے ہیں، وہ اسی چائینز وسپرگیم کی پیش کرتےمثال ہیں۔
بے شک منٹو تنقیدگزشتہ ساٹھ ستّر برسوں سے اردو افسانے کی اِس سب سے طاقتور اور پُرثروت آواز کا حق ادا کرنے کے لئے سرگرداں ہے، لیکن تحقیق کے ناخنوں پر اس کا قرض آج بھی باقی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ منٹو کی متعدد غیر مدون تحریریں ہماری بدبختی اور کور ذوقی کے باعث ابھی تک اخبارات اور رسائل میں بکھری پڑی ہیں۔ ’’مصور‘‘ اور دوسرے رسائل میں لکھے گئے اُس کےکالم، مضامین اوراپنے دوست و احباب کو تحریر کردہ اس کے نہ جانے کتنے خطوط ہنوزہماری رسائی سے دور ہیں اور جن کی بازیافت کی امیددنوں دن معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ’’کلیات ِمنٹو‘‘یا ’’باقیاتِ منٹو‘‘ یا ’’منٹو کے گمشدہ افسانے ‘‘ جیسےعنوانات سے جو کتابیں بازاروں میں دستیاب ہیں ان کا بہ نظر غائرمطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتاہےکہ بیشتر کتابیں اصولِ تدوین کو طاق پر رکھ کر ترتیب دی گئی ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آسان پسند طبعیتیں تحقیق کے صبرآزما طریقِ کار کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا افتراق کی بیسیوں چھوٹی بڑی نوعیتوں نے منٹو متن میں ایک ایسی صورتحال قائم کر دی ہے کہ بقول شمس الحق عثمانی ذی استعداد قاری کے لئے کوئی متن ایسا نہیں رہا جسے وہ پورے اعتماد کے ساتھ معتبر اور ایمائے مصنف کے مطابق حتمی کہہ سکے۔ پھریہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دوسری زبانوں میں منٹو کے جوافسانے مضامین، خاکے اور ڈرامےترجمہ ہوتے ہیں وہ اِسی گنگوتری سے بہتے ہوئے آ رہے ہیں، لہذا ترجموں میں بھی تذکیر و تانیث، واحد جمع کی بے ترتیبی، قواعد کی اغلاط کی گنگا بہتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک عرصہ تک منٹو کے متن کا معتبر نسخہ ہمارے پاس موجود نہ تھا۔ ’’پورا منٹو‘‘ پروجیکٹ سے پہلے منٹو کی جملہ تصانیف کو ایک سریز کے تحت معیاری اور مثالی انداز میں مرتب کرنے کی توفیق کسی کو نہیں ہو سکی۔ ان حالات میں ایسے متن کی شدید ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی تھی جسے یقین و اعتماد کے ساتھ حتمی متن کہا جا سکے۔ مدتیں اسی آرزو میں گزر گئیں تا آنکہ شمس الحق عثمانی نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور منٹو کے تمام افسانوں، خاکوں، ڈراموں، مضامین کی تدوین و ترتیب کا مشکل اور صبر آزما کام کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایالیکن افسوس کہ ابھی منٹو کے افسانوی متن کی تدوین و ترتیب کاری کے صبر آزما اور صلاحیت آزما کام میں وہ مصروف ہی تھے کہ ۲۰۱۶ء میں اُن کے سر میں ایک ٹیومر اُبھر آیا جس زندگی کے آخری لمحے تک اُنہیں پریشان رکھا۔ دن رات ٹیومر کی ناقابلِ برداشت تکالیف کو جھیلتے ہوئے اُنہوں نے مستحکم قوتِ ارادی سے منٹو کے افسانوں کی تدوین اِس طرح مکمل کی، گویا یہ کام ہی اُنہیں ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کر رہا ہو۔ ابھی منٹو کے افسانوں کی تدوین کا کام اپنی تکمیل کو پہنچا ہی تھا کہ موت نے اُ نہیں آن لیا۔ اس طرح خاکوں، ڈراموں، مضامین کی تدوین و ترتیب کا کام ادھورا رہ گیا۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ جاتے جاتے اُنہوں نے منٹو کے سبھی افسانوی مجموعوں نیز مختلف رسائل میں بکھرے افسانوں پر مستند، مبسوط اورجامع کی مہر ثبت کر دی۔ یہاں یہ مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے شمس الحق عثمانی کی مرتب کردہ ’’پورا منٹو ‘‘ کی اشاعت نے افسانوں کی حد تک پبلشروں، مؤلفوں اور کاتبوں کی غلطیوں کا ازالہ کردیا ہے۔ اس کی چار جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں تیرہ افسانوی مجموعوں کے افسانے شامل ہیں ۔ پانچویں جلد میں زیادہ تر وہ افسانے ہیں جو منٹو کے کسی افسانوی مجموعہ میں شامل نہ ہو سکے اور مختلف رسائل میں بکھرے ہوئے تھے۔ ’’پورامنٹو‘‘ کی آخری جلد ابھی زیرِ طبع ہے۔
شمس الحق عثمانی اردو کے معروف ادیب، پروفیسر، نقاد اور محقق ہیں۔ یوں تو انہوں نے افسانے بھی لکھے، مختلف جرائد اور کتابوں کو مرتب بھی کیا ہے، فلم کی اسکرپٹ بھی لکھی ہیں اور فلموں پر معنی خیز مضامین بھی۔ غرضیکہ عثمانی صاحب معدودے ان چند ادیبوں میں ہیں جن کے علمی و ادبی اور فنی و تخلیقی امتیازات کا دائرہ بیک وقت تنقید، تحقیق، تدوین اورفکشن سے لے کر فنونِ لطیفہ تک پھیلا ہوا ہے حالانکہ ان تمام پہلوئوں میں ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو محقق کا ہے۔ جس دل جمعی اور نظری یکسوئی کے ساتھ عثمانی کام کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں وہ محقق ہی کا شعار ہے اسی لئے میرے خیال میں بنیادی طور پروہ محقق ہی ہیں اور یہی پہلو ان کی شخصیت کے دوسرے پہلوئوں کی توسیع بھی کرتا ہے اور نمایاں بھی...’’نظیر نامہ‘‘، ’’محبِ وطن پریم چند اور دیگر مضامین‘‘، ’’در حقیقت‘‘، ’’دراصل‘‘، ’’غالب اور منٹو‘‘، ’’فسانہ و شعر کا بلاوا ‘‘ان کے مرتب کردہ اور تحریرکردہ تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں لیکن انہیں ٹھیٹ معنوں میں تنقیدی کتاب کہنے میں مجھے تامل ہے کہ یہاں تحقیق اور تنقید ایک دوسرے کی حریف و قتیل معلوم نہیں ہوتیں ۔ اصل میں عثمانی صاحب کے یہاں تنقید، تحقیق اور تخلیق میں ربط کی نوعیت اتنی گہری ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا نہ تو تصور کیا جا سکتا ہے نہ کاٹ کر انہیں الگ کیا جا سکتا ہے۔ ’’نظیر نامہ‘‘ اگر تفہیم ِنظیر میں اعتباری حیثیت رکھتا ہے تو ’’بیدی نامہ‘‘ بیدیات کا بنیادی اورناگزیر حوالہ ہے…جو کہنے کو تو ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے لیکن حقیقتاً تخلیق، تحقیق اور تنقید کا معنی خیز سنگم… ’’بیدی نامہ‘‘ میں عثمانی نے بیدی کے ذہنی تجسس اور تحرک کے ایسے منطقے دریافت کیے جواس کے فن کے ساتھ نئی نسبتیں قائم کرتے اور نئے امتیازات واضح کرتے ہیں۔ یہاں عثمانی صاحب کے تخلیقی اسلوب تحقیق سے قاری کی دوری کو ختم کر دیتا ہے اور اُس کے شغف کو بڑھاتا ہے۔
’’بیدی نامہ‘‘ کے توسط سے روشن ہونے والی بیدی کی نئی جہت کومختلف ادیبوں ، مدیروں اور ناقدوں نے سراہا۔ منٹو کے حوالے سے شمس الحق عثمانی کےکام کو مرکز میں رکھ کر دیکھیں تو اُن کی منٹو شناسی کو دو خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک خانہ تحقیق سے متعلق ہے اور دوسرا منٹو کی تنقیدی تفہیم سے۔ گو کہ دونوں واٹر ٹائٹ کمپارٹمینٹ میں محبوس نہیں ہیں ۔ یہاں بھی اُن کی تحقیق و تنقید نہ صرف ایک دوسرے کو complement کرتی ہیں بلکہ بجائے خود ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ تنقید تحقیق کی روشنی میں سفر کرتی ہے اور تحقیق تنقید کی … ایک طرف وہ تحقیق کے ذریعے حقایق کا تعین کرتے ہیں اور اُس کے بعد کے نتائج میں شک، قیاس، تاویل اور ذاتی رائے کی عمل سے بچتے ہوئے فن پارے کےپورےے اسٹرکچر کو گرفت میں لینے کےکوشاں ہیں تو دوسری طرف منٹو کے نقاد کی حیثیت سے متن کی تہہ در تہہ معنوی گہرائی کو respoand کرتے ہیں۔ منٹو کے فکر وفن کی جہات کو سمجھنے کے لئے اُنہوں نے گاہے بہ گاہے مضامین لکھے، افسانوں کے تجزیے کیے۔ منٹو کے افسانوں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’نیاقانون‘‘، اور ’’جی آیا صاحب ‘‘کا تجزیہ ہو یا ’’خلق اللہ کی تفہیم ‘‘ جیسے مضامین میں تلاش و تحقیق کا پہلو غالب ہے۔ ویسے تحقیق ہو تنقید یا پھر تدوین شمس الحق عثمانی کے لئے سب کا ایک ہی مطلب ہے : متن کی داخلی دنیا میں اتر کر اسے اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا۔ منٹو شناسی کے حوالے سے ’’پورامنٹو ‘‘ کی تدوین ہی وہ بنیادی کام ہے جس پر ان کی منٹو شناسی کا اہم ترین باب محیط ہے۔ عثمانی کی تمام تر کوشش منٹو کے اصل متن تک پہنچنے سے عبارت ہے۔ متن کی جوغلطیاں سہواً، شرارتاً عقیدتاً راہ پا گئی ہیں پے در پے قرأت سے اسے دور کر کے صحیح متن کو متعین کرنے کے اہم کام نے اُنہیں گزشتہ کئی دہائیوں تک مصروف رکھا۔
(باقی آئندہ ہفتے)