Inquilab Logo

کیا بائیکاٹ ممکن ہے؟

Updated: June 22, 2020, 12:01 PM IST | Editorial

چین کو اُس کی شرانگیزی اور شرارت کیلئے سبق سکھانا چاہئے مگر اس مقصد میں کامیابی نہ تو فوج کشی کے ذریعہ ممکن ہے نہ ہی چینی اشیاء کے بائیکاٹ کے ذریعہ کیونکہ بائیکاٹ کی اپیلیں تو ہوتی ہیں مگر بہت سی وجوہات کی بناء پر بائیکاٹ نہیں ہوپاتا

Boycott China - Pic : PTI
بائیکاٹ چین ۔ تصویر : پی ٹی آئی

چین کو اُس کی شرانگیزی اور شرارت کیلئے سبق سکھانا چاہئے مگر اس مقصد میں کامیابی نہ تو فوج کشی کے ذریعہ ممکن ہے نہ ہی چینی اشیاء کے بائیکاٹ کے ذریعہ کیونکہ بائیکاٹ کی اپیلیں تو ہوتی ہیں مگر بہت سی وجوہات کی بناء پر بائیکاٹ نہیں ہوپاتا۔ ملک کے شہریوں کی اکثریت کو یہ علم نہیں ہے کہ چینی اشیاء اور مصنوعات کون کون سی ہیں اور کن اشیاء کو ہم ہندوستان میں مینوفیکچر کیا ہوا سمجھتے ہیں مگر اُن کے بیشتر کل پُرزے چین سے درآمد ہوتے ہیں۔ اس پر ہم مزید روشنی ابھی تھوڑی دیر میں ڈالیں گے، فی الحال یہ عرض ہے کہ چین کو نچلا بٹھانے کیلئے ہمارے ارباب اقتدار کو سوچنا پڑے گا کہ وہ کون سی تدابیر ہوسکتی ہیں جنہیں بروئے کار لا کر بیجنگ کو حقیقی دوستی پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، ایسی دوستی جس میں وقفہ وقفہ سے کی جانے والی شرارتوں کی گنجائش نہ ہو۔ ہمارے ملک میں بہت اعلیٰ سفارتی اذہان موجود ہیں۔اس کام کیلئے اُن کی مدد لی جاسکتی ہے اور دیگر ملکوں کے باہمی تعلقات کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جاسکتا ہے تاکہ اُن سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔ کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے بلکہ لاٹھی کی مضبوطی میں اضافہ ہوجائے۔ 
 چینی اشیاء پر ہمارے انحصار کو سمجھنے کیلئے چین سے درآمدات اور چین کو ہماری برآمدات کے حجم کا مطالعہ کافی ہوگا۔ ہم جتنی بھی برآمدات کرتے ہیں اُس کا صرف ۵؍ فیصد چین کو جاتا ہے جبکہ ہم جتنی بھی درآمدات کرتے ہیں اُن کا ۱۴؍ فیصد چین سے آتا ہے۔ ہندوستان میں چینی کمپنیاں ہیں جبکہ چین میں بھی ہندوستانی کمپنیاں ہیں۔چین سے درآمد کی جانے والی اشیاء میں اسمارٹ فون، برقی آلات، پاور پلانٹ سے متعلق اشیاء، فرٹیلائزر، آٹو پارٹس، تیار شدہ اسٹیل پروڈکٹ، ٹیلی کوم سے متعلق آلات اور کل پرزے، میٹرو ریل کوچ، آئرن اور اسٹیل پروڈکٹس جیسی درجنوں اشیاء چین سے ہماری درآمدات کا حصہ ہیں۔ کئی ایسی مصنوعات بھی ہیں جو بنتی تو ہندوستان میں ہیں مگر ان کے تمام کل پرزے (پارٹس) چین سے آتے ہیں۔ اگر چینی اشیاء کا بائیکاٹ شروع ہوا اور اس کے جواب میں چین نے تمام اشیاء کی برآمد روک دی تو ہمارے ہاں اسیمبلنگ کا وہ سارا کام ٹھپ پڑ جائیگا اور اس سے لگے بندھے پچاسوں قسم کے روزگار اور فرمس کا سب کچھ چوپٹ ہوجائیگا۔چینی اشیاء چونکہ سستے داموں ملتی ہیں اسلئے ہندوستانی بازار میں اُن کی مانگ کبھی کم نہیں ہوتی۔ 
 واضح رہے کہ ہم چین کی وکالت نہیں کررہے ہیں بلکہ زمینی حقائق پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ اگر چینی اشیاء کا بائیکاٹ اتنا ہی آسان ہوتا تو ۱۹۶۲ء کی جنگ کے بعد ہی بائیکاٹ شروع ہوجاتا اور ہم بہت سوچ سمجھ کر کوئی چیز چین سے منگواتے۔اس سلسلے کی کچھ اور باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہندوستان نے چین کی اشیاء کا بائیکاٹ شروع کردیا تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہی اشیاء کسی اور ملک سے گھوم کر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہوں گی؟ 
 ایک تکنیکی مسئلہ اور بھی ہے۔ ہندوستان اور چین دونوں ہی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ہیں جو کسی بھی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ کسی دوسرے ملک کی اشیاء کا بائیکاٹ کرے۔ وہ چاہے تو اپنے ملک میں غیر ملکی اشیاء کو خریدنے یا درآمد کرنے کی حوصلہ شکنی کرسکتا ہے مگر بیرونی اشیاء کا بائیکاٹ نہیں کرسکتا۔ 
 مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین کو نچلا بیٹھنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حالیہ دنوں میںسرحد پر ہمارے جوانوں کی شہادت ہوئی ہے، اُن کی قربانی رائیگاں نہیں جاسکتی اس لئے یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ آخر کیسے چین کو کسی اور طریقے سے ایسی زبردست شکست دی جائے جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے! 

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK